سیاسی جلسوں میں ڈی جے کی دھنوں پر تھرکتے مردوزَن
بھلا پہلے کہاں دیکھے تھے۔ میلوں ٹھیلوں اور میوزیکل کنسرٹ کی جنون کی حد
تک شوقین قوم کا اگر ’’مفتا‘‘ لگے تو وہ کہاں رُکنے والی تھی۔ جب اُنہیں
عطاء اﷲ عیسیٰ خیلوی اور ابرارالحق جیسے گلوکاروں کو سننے کے مواقع نظر آئے
تو ’’لَین بنا کر بِلّو دے گھر‘‘ جانے کے شوقین جوق دَر جوق کپتان کے جلسوں
میں شریک ہونے لگے۔
جلسوں میں جب ابرارالحق گاتا ’’اَج میرا نَچنے نوں جی کردا‘‘ تو پرویز خٹک
جیسے ’’بابے‘‘ بھی تھرکنے لگتے۔ اُدھر ڈال ڈال پھُدکنے والے دھڑادھڑ تحریکِ
انصاف میں شامل ہونے لگے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں ملک سے کوئی غرض نہ قوم سے
البتہ اپنے پیٹ سے۔ تحقیق کر لیں، آپ کو تحریکِ انصاف میں 90 فیصد سے زائد
وہی لوگ ملیں گے جو سیاسی پارٹیاں بدل بدل کر یہاں تک پہنچے اور اب ایک
دفعہ پھر ’’پھُر‘‘ ہونے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اُن کی تیاریوں کا راز اُس وقت
لبِ بام آیاجب 9 نومبر کو نوازلیگ کے سیّد جاوید حسنین نے پارلیمنٹ میں
ترمیمی بِل 2021ء کی قرارداد پیش کی۔ اِس قرارداد کے مطابق ’’کوئی بھی
منتخب رُکنِ اسمبلی اگلے 7 سال تک کسی دوسری پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے
کا اہل نہیں ہوگا‘‘۔ تحریکِ انصاف کے بنچوں کی طرف سے اِس بِل کی شدید
مخالفت کی گئی اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے بھی یہ کہہ کر بِل مسترد کر دیا
کہ پارلیمانی ممبران کی اکثریت قرارداد کی مخالف ہے۔ جب اپوزیشن نے گنتی کے
لیے شور مچایا توقرارداد کے حق میں 117 اور مخالفت میں 104 ووٹ نکلے جس پر
قاسم سوری کو مجبوراََ یہ قرارداد کمیٹی کو پیش کرنی پڑی۔
ذوالفقار علی بھٹو نے تو صرف روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا لیکن
کپتان نے ’’لمبی لمبی چھوڑنے‘‘ میں کمال ہی کر دیا۔ 100 دنوں میں ملک کی
تقدید بدلنے کے دعوے، ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھر، بیرونی ممالک میں پڑے
ہوئے کرپشن کے 200 ارب ڈالروں کی واپسی، آئی ایم ایف پر تین حرف اور پتہ
نہیں کون کون سے سہانے سپنے دکھائے۔ قوم، خصوصاََ نسلِ نَو نے یہ تک نہ
سوچا کہ آخر کپتان کے ہاتھ ایسی کون سی ’’گیدڑ سنگھی‘‘ لگی ہے جو پلک
جھپکتے سب کچھ کر دے گا۔ جب تحریکیوں کو کہا جاتا کہ خاں کے وعدے ودعوے سب
خواب وخیال ہیں تو وہ بقول احمد فراز کہتے
کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے ، تعبیر کرکے دیکھتے ہیں
لیکن اِس خواب کی تعبیر اتنی بھیانک ہو گی، یہ شاید تحریکیوں نے بھی نہیں
سوچا ہوگا۔ اُنہیں تو یقین تھا کہ کپتان آتے ہی کرپشن کے 200 ارب ڈالر واپس
لا کر سارے قرض ادا کر دے گا لیکن ہوا یہ کہ اگر نوازلیگ کی حکومت نے 5
سالوں میں بیرونی قرضوں کے حجم میں 10661 ارب روپے کا اضافہ کیا تو کپتان
کی حکومت محض 3 سالوں میں اِس حجم میں 15000 ہزار ارب روپے کا اضافہ کر
گئی۔ نوازلیگ کے دَور میں لیے گئے قرضے تو ایک حد تک ترقیاتی کاموں کی صورت
میں نظر بھی آتے ہیں لیکن تحریکِ انصاف کے دامن میں سوائے مہنگائی و
بیروزگاری کے اور کچھ نہیں البتہ پوری قوم آئی ایم ایف کے پنجۂ خونی میں۔
طُرفہ تماشا یہ کہ مشیرِخزانہ شوکت ترین پارلیمنٹ تک کو اعتماد میں لینے کے
لیے تیار نہیں کہ اُس نے قوم کو آئی ایم ایف کے آگے کتنے میں بیچا۔
سونامی کی اُٹھتی لہروں کو دیکھ کر شاید زورآوروں نے بھی سوچا ہوگا کہ چلو
اُسے آزما کر دیکھتے ہیں۔ ویسے بھی اُنہیں ’’مائنس ٹو‘‘ پر عمل درآمد کے
لیے ’’حاضر سٹاک‘‘ میں اِس سے بہتر آپشن نظر نہیں آرہی ہوگی کیونکہ ہر طرف
’’تبدیلی آئی رے‘‘ کے چرچے تھے۔ اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے زورآوروں کا
دستِ شفقت کچھ پیچھے ہٹ گیا ہوکیونکہ اب وزیرِاعظم کے اتحادی بھی آنکھیں
دکھانے لگے ہیں۔ 9 نومبر کو وزیرِاعظم نے اسلام آباد میں ارکانِ پارلیمنٹ
سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’دھاندلی کا واحد توڑ الیکٹرانک ووٹنگ مشین (EVM)
ہے۔ کرپٹ سسٹم کی پیداوار تبدیلی نہیں آنے دے گی۔ تبدیلی ہمیں لانی ہے، آپ
کا مقابلہ مافیا سے ہے، آپ جہاد سمجھ کر قانون سازی میں حصّہ لیں‘‘۔ حکومتی
اتحادیوں، قاف لیگ، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور دیگر نے ای وی ایم پر اپنے
تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اِس ’’جہاد‘‘ میں حصّہ لینے سے صاف انکار کر
دیا۔ وزیرِاعظم صاحب بھی ’’بھولے بادشاہ‘‘ ہیں، بھلا اتحادی بھی کبھی فی
سبیل اﷲ کوئی کام کرتے ہیں؟۔ جب قاف لیگ نے آنکھیں دکھائی تھیں تو
وزیرِاعظم نے فوراََ چودھریوں کے دَرِدولت پر حاضری دی اور مونس الٰہی کو
وفاقی وزیر بنا دیا۔ اب بھی وہ اِسی قسم کا کوئی حربہ استعمال کریں گے تو
شاید اتحادی چند قدم مزید ساتھ چلنے کو تیار ہو جائیں۔ ہمارا وزیرِاعظم کو
مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کے معاملے میں آصف
زرداری کے آگے زانوے تلمذ تہ کر دیں کیونکہ اِس معاملے میں وہ استادوں کے
استاد ہیں۔ ہمارا یہ بھی مخلصانہ مشورہ ہے کہ اگر پھر بھی بات نہ بنے تو
’’نیویں نیویں ہو کر‘‘ گھر لوٹ جائیں کیونکہ اِسی میں عافیت ہے۔ شنید ہے کہ
زورآوروں کا رویہ دیکھنے کے لیے اپوزیشن چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریکِ عدم
اعتماد لا رہی ہے۔
اب کچھ ذکرسول سروسز اکیڈمی کی 44ویں پاسنگ آؤٹ تقریبِ انعامات سے
وزیرِاعظم کے خطاب کا۔اُنہوں فرمایا ’’ جس معاشرے کے اندر اخلاقیات نہیں
ہوتیں وہ انصاف بھی نہیں کر سکتا، وہ پھر این آر او دیتا ہے اور چوروں کو
ڈیل کرتا ہے‘‘۔ بجا ارشاد! سوال مگر یہ ہے کہ معاشرے کی اخلاقیات تباہ کرنے
کا ذمہ دار کون؟۔ پارلیمانی سیاست میں غیرپارلیمانی الفاظ استعمال کرنے
والا کون؟۔ انتہائی ادب سے گزارش ہے کہ سیاست میں غیرپارلیمانی الفاظ کے
موجد آپ خود ہیں اور آپ کی دیکھا دیکھی آپ کے پیروکارسوشل میڈیا پر بیٹھ کر
ہر وقت تبرّے بازی کرتے رہتے ہیں۔ رہی چوروں کو ڈیل کرنے کی بات تو چودھری
برادران کو سب سے بڑا ڈاکو کِس نے قرار دیا؟۔ ایم کیو ایم کے خلاف ثبوتوں
کا بیگ بھر کر کون عازمِ لندن ہوا؟۔ شیخ رشید کو اپنا چوکیدار تک نہ رکھنے
کا اعلان کس نے کیا؟۔ یہ سبھی اب آپ کے دست وبازو ہیں، اِس سے بڑا این آر
او اور کیا ہوگا؟۔ آپ کی اپنی جماعت کے اندر بھی کئی لوگ ایسے ہیں جنہیں آپ
نے این آراو دے رکھا ہے اِس لیے گستاخی معاف! این آر او کا ذکر آپ کے مُنہ
سے اچھا نہیں لگتا۔ اِسی خطاب میں اُنہوں نے فرمایا ’’اگر آپ طاقتور کو
اوپر رکھ رہے ہیں تو آپ انصاف نہیں کر سکتے‘‘۔ امیرالمومنین حضرت عمرؓ نے
فریایا تھا ’’جب انصاف کا پلڑا کسی کی وجاہت کے خوف سے اُس کی طرف جھُک
جائے تو پھر قیصروکسریٰ کی حکومتوں اور اسلامی ریاست میں کیا فرق
ہوا؟‘‘۔وزیرِاعظم نے قولِ حضرت عمرؓ کو تو اپنے الفاظ میں دہرا دیا لیکن
’’چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک‘‘۔ اُن کا تو 2 لاکھ روپے ماہانہ میں بھی
گزارا نہیں ہوتا لیکن حضرت عمرؓ نے تو 2 چادروں کا بھی حساب دیا۔ حضرت عمرؓ
دریائے فرات کے کنارے مَر جانے والے کتّے کی روزِقیامت پُرسش سے بھی لرزہ
بَراندام تھے لیکن وزیرِاعظم بھوکوں مرتی قوم کو بار بار تلقین کر رہے ہیں
’’گھبرانا نہیں‘‘۔وزیرِاعظم کے حواری چند روز قبل تک تحریکِ لبّیک پاکستان
کو دہشت گرد، انڈین ایجنٹ اور ’’را‘‘ سے رقوم وصول کرنے کا الزام دھر رہے
تھے لیکن پھرپتہ نہیں اچانک کیا ہوا کہ وہ سبھی دودھ کے دُھلے نکلے ۔ اب
شنید ہے کہ ٹی ٹی پی سے بھی مذاکرات کا ڈول ڈالا جا چکا ہے۔ یہ وہی گروہ ہے
جس کی گردن پر سانحہ اے پی ایس پشاور سمیت 80 ہزار پاکستانیوں کا خونِ ناحق
ہے۔ آپ نے تو ہر زورآور کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے لیکن دینِ مبیں تو حق بات پر
ڈَٹ جانے کا درس دیتا ہے۔ امیرالمومنین حضرت ابوبکرؓ کے دَور میں جب
منکرینِ زکوۃ نے سَر اُٹھایا تو صحابہ کرام نے آپؓ کو مشورہ دیا کہ فی
الحال منکرینِ زکوۃ سے صرفِ نظر کیا جائے کہ حالات اِس کی اجازت نہیں دیتے۔
حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا ’’قحافہ کے بیٹے کی کیا مجال کہ جو کام میرے نبیﷺ
نے شروع کیا اُس سے مُنہ موڑ لے‘‘۔ اِس لیے وزیرِاعظم صاحب! بڑی بڑی باتوں
کے ذریعے ’’پھوکے فائر‘‘ کرنا چھوڑ دیں۔
|