ایشیا کی عظیم شخصیات کے حوالے سے جب بھی کچھ لکھا جائے
گا ان میں ڈاکٹر قدیرخان کا نام سنہرے حروف میں درج ہو گا۔ برصغیر کے
مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کا خواب علامہ محمد اقبالؒ نے دیکھا۔ اس
خواب کو تعبیر قائداعظم محمد علی جناح نے دی اور برصغیر کے مسلمانوں کو
انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی میں جانے سے بچایا اور انہیں ایک آزاد مملکت
پاکستان دی۔ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت بنانے کا کارنامہ
انجام پاکستان کے ایک نامور سپوت ڈاکٹر قدیر خان نے دیا۔
علامہ اقبال نے کہا تھا بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا تویہ ایک
حقیقت ہے کہ صدیوں میں کوئی ایسا شخص پیدا ہوتا ہے جس کا نام تاریخ میں
سنہرے حروف سے لکھا جاتا ہے اور جس کے کارنامے رہتی دنیا تک یاد رکھے جاتے
ہیں۔ ڈاکٹر قدیر خان کے بارے میں جتنا کچھ بھی لکھا جائے یا ان کے کارنامے
پر جتنی بھی تعریف ، ایوارڈز اور اعزازات دیئے جائیں وہ کم ہیں۔ بقول غالبؔ
:
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
کوئی نہیں جانتا تھا کہ 1936میں ریاست بھوپال میں پیدا ہونے والا بچہ ایک
دن پوری دنیا میں جانا جائے گا۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ملک یا انسان ایسا ہو
جوان کے نام یا ان کے کارنامے سے واقف نہ ہو۔
مائیں تو ہمیشہ ہی اپنے بچوں کے لئے خیر اور سلامتی کی دُعائیں مانگتی ہیں
لیکن اب ان کی دعاؤں میں ڈاکٹر قدیر خان کی مغفرت کی دعا بھی شامل ہو گئی
ہے اور اپنے بچوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی خواہش بھی۔
ڈاکٹر قدیر خان کا خاندان قیامِ پاکستان کے بعدکراچی منتقل ہوا۔ ڈاکٹر
قدیرکراچی یونیورسٹی سے فارغ التحصل ہونے کے بعد مغربی جرمنی چلے گئے جہاں
وہ 1961 سے 1963 تک رہے۔ پھر ہالینڈ میں رہائش پذیر خاندان میں شادی کرنے
کی وجہ سے ہالینڈ چلے گئے اور وہاں DELF کی ٹیکنیکل یونیورسٹی سے
میٹالوجیکل کے خصوصی شعبے میں ڈگری حاصل کی۔ DELF ہالینڈ کی وہ خاص
یونیورسٹی ہے جو 1905 میں بیسوی صدی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے قائم کی
گئی تھی اور یہ ایک فیکلٹی پر مشتمل ہے۔
تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد بالینڈ ہی کی ایک کمرشکل کمپنی FJO میں ملازم ہو
گئے۔ 75 تک وہیں رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بھارت ایٹمی دھماکہ کر چکا تھا۔
اس دوران ڈاکٹر قدیر خان کی ملاقات اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو
سے ہوئی اور بھٹو کے اصرار پر ڈاکٹر قدیر خان قومی جذبے سے سرشار ہالینڈ
چھوڑ کر پاکستان چلے گئے اور وزارت خزانہ میں ڈائریکٹر پروجیکٹ مقرر ہوگئے
اور کہوٹہ پلانٹ پر کام شروع کردیا۔
کافی عرصے تک مغربی ممالک کہوٹہ پلانٹ کی کارکردگی سے بے خبر رہے۔ بہت
خاموشی اور پردہ داری سے ابتدائی مراحل طے ہوگئے۔ 12اکتوبر 1978کو ایک
امریکی اخبار میں ایک مضمون شائع ہوا کہ پاکستان یورنیم پیدا کرنے میں
کامیاب ہوگیا ہے اور وہ اب ایٹمی دھماکہ بھی کرے گا۔
مضمون میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ پاکستان نے 100 فریکوئنسی کے ٹرانسفارمر
کے بھی آرڈر دیئے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ کہوٹہ میں کچھ ہو رہا ہے۔ یہ
خبر خود کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔ 28 مارچ 78 کو ہالینڈ کے ٹیلی ویژن پر یہ
خبر سنائی گئی کہ پاکستان کا ایک سائنس دان ہالینڈ کی ایک فیکٹری سے وہ
ٹیکنالوجی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے جو برطانیہ، جرمنی اور ہالینڈ کے
اشتراک سے یورینیم کی افزائش کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔
اس خبر سے مغربی ممالک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ مغربی جرمنی نے اس سلسلہ
پر سب سے زیادہ لے دے کی، کہ ہالینڈ اس راز کی حفاظت نہ کر سکا۔
ہالینڈ نے ڈاکٹر قدیر خان پر مقدمہ کر دیا اور عدالت کے سمن وزارت خارجہ
پاکستان کو بھیج دیئے جس میں 31 اکتوبر 83 کو ہالینڈ کی عدالت میں پیش ہونا
تھا۔ ڈاکٹر قدیر خان کی غیر حاضری میں مقدمے کی سماعت ہوئی اور 14 نومبر 83
کو انہیں چار سال کی سزا سنا دی گئی۔ جس کی تشہیر ریڈیو، ٹی وی اور اخبارت
میں کی گئی۔
ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک اپنے
محدود وسائل میں کوئی ایٹمی کارنامہ سرانجام دے سکتا ہے۔
ڈاکٹر قدیر خان نے یورینیم افزودگی کے نقشے چرانے کے الزام پر ڈٹ کر مقابلہ
کیا۔ ہالینڈ کی عدالت میں ان کے وکیل ایس ایم ظفر نے ان کا دفاع کیا اور
انہیں بالآخر اس الزام سے باعزت بری قرار دلوایا۔ یہ ڈاکٹر قدیر خان کی بہت
بڑی فتح تھی۔
اب وہ اطمینان قلب و ذہن کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔ یہ ان کی
شبانہ روز محنت کا نتیجہ ہے کہ پاکستان نیوکلیئر ٹیکنالوجی سے نکل کر
میزائل ٹیکنالوجی کے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ 7 اپریل 1998 کو بھارت کے
پرتھوی میزائل کا جواب غوری میزائل سے دیا گیا۔ بھارت نے 11 مئی 98 میں
پکھران کے ریگستان میں پانچ ایٹمی دھماکے کر دیے اور اس کے جواب میں چاغی
بلوچستان میں پاکستان نے اس سے زیادہ ایٹمی دھماکے کر کے ثابت کر دیا کہ
پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے ایک بیٹے نے
جدید سائنسی وسائل سے محرومی کے باوجود وہ عظیم کارنامہ انجام دیاکہ ترقی
یافتہ ممالک حیران رہ گئے اور ڈاکٹر قدیر خان کا نام اپنے پیچھے آنے والوں
کے لئے ایک روشن مثال بن گیا کہ جدوجہد، یقین، پختہ عزم اور مقصد کو پانے
کی لگن کامیابی سے ہمکنا ر کرتی ہے۔پاکستانی قوم ڈاکٹر قدیر خان کا یہ
احسان رہتی دنیا تک فراموش نہ کر سکے گی۔
10 اکتوبر 2021 کے دن پاکستان کا یہ عظیم سپوت پوری قوم کو سوگوار چھوڑ
کرملکِ عدم روانہ ہوگیا۔پوری دنیا میں جہاں جہاں پاکستانی موجود ہیں انہوں
نے اپنے محسن کا سوگ منایا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی ۔ اﷲ تعالیٰ
پاکستان کے اس محسن کے درجات بلند فرمائے اور پاکستان کو ہمیشہ قائم اور
دائم رکھے ۔ آمین۔ |