جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ماہ اکتوبر میں
وزیر خزانہ کو مخاطب کرتے ہوئے درج ذیل سوال پوچھا کہ ”کیا وزیر برائے
خزانہ بیان فرمائیں گے کہ پاکستان کے ستمبر 2021 تک غیر ملکی و اندرون ملک
قرضوں کے کل حجم کی الگ الگ تفصیلات کیا ہیں؛ نیز مذکورہ قرضوں میں 2018 سے
ستمبر 2021 تک سالانہ کتنا اضافہ ہوا؟سال وار تفصیل کیا ہیں؟“ سینیٹر مشتاق
احمد کے پوچھے گئے سوال کے تحریری جواب میں سینٹ میں وزارت خزانہ کی جانب
سے درج ذیل تفصیلات مہیا کی گئیں۔جون 2018 میں ملک کے اندرونی قرضے 16 ہزار
ارب روپے تھے۔ اگست 2021 تک اندرونی قرضے 26 ہزار ارب روپے سے بڑھ گئے۔جون
2018 میں ملک کے بیرونی قرضے 8 ہزار 500 ارب ر وپے تھے، اگست 2021 تک
بیرونی قرضے 14ہزار چھ سو ارب روپے ہوگئے۔ جون 2018 تک پاکستان کے اندرونی
و بیرونی مجموعی قرضوں کا بوجھ 25ہزار ارب روپے تھا جو بڑھتا ہوااگست 2021
میں 41ہزار ارب روپے ہوچکے ہیں۔ اس طرح پاکستان کا مجموعی سرکاری قرضہ تین
سال کے دوران 41 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔وزارت خزانہ کی جانب سے ملک
کے اندرونی وبیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگی کی تفصیلات ایوان بالا میں
پیش کی گئیں۔وزارت خزانہ کی سینیٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق حکومت
قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں 7 ہزار 460 ارب روپے ادا کر چکی
ہے۔تحریری جواب میں بتایا گیا کہ تین سال کے دوران سود کی مد میں 50 فیصد
ادائیگی کی گئی۔اگست 1947 سے لیکرجون 2018 تک تمام حکو متیں 25 ہزار ارب
روپے قرضہ کا بوجھ چھوڑ کر گئی۔ جبکہ اکیلے عمران خان حکومت نے صرف تین سال
کے عرصے میں قرضوں میں مجموعی طور پر 16 ہزار ارب روپے کا بوجھ ڈال دیا۔
چونکہ قرضوں کی یہ تفصیلات پاکستانی روپوں میں ہیں اور یقینا قرضوں میں
اضافہ کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ امریکی ڈالر کے مقابلہ میں پاکستانی کرنسی
روپے کی انتہا درجے کی تنزلی بھی شامل حال ہے۔ لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا
ہے کہ اگست 1947 سے لیکر جولائی 2018 تک ڈالر ریٹس 125روپے تھے، پھر نئے
پاکستان میں اگست 2018 سے لیکرآج تک ڈالر ریٹس 177 روپے پہنچانے کا ذمہ دار
کون ہے؟ دنیا کے کسی ملک کا قرضہ لینا کوئی عیب یا گناہ کی بات نہیں
ہوتی،دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی قرضے لیتے ہیں اصل بات ان قرضوں سے لی
گئی رقوم کے استعمال کا معاملہ ہوتا ہے۔ پرانے پاکستان میں ماضی قریب کی
پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کی جانب سے قرضے لئے بھی گئے اور اپنے سے
پچھلی حکومتوں کے قرضے واپس بھی کئے گئے لیکن ساتھ ہی ساتھ بہت سے ترقیاتی
منصوبے جن میں بجلی پیدا کرنے کے منصوبے، موٹرویز ودیگر ترقیاتی منصوبے
منظر عام پر آئے (جس کی اک لمبی فہرست ریکارڈ پر موجود ہے)۔ نواز شریف
حکومت نے دہشت گردی اور اندھیروں میں ڈوبے ہوئے پاکستان کو بجلی کی پیدوار
میں ناصرف خودکفیل کیا بلکہ مستقبل قریب کی ضروریات کے لئے وافر مقدار میں
پیداواری صلاحیت کو بھی بڑھایا۔اور اسکے ساتھ ساتھ ملکی مجموعی قومی
پیداوار بھی پاکستانی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچائی۔نواز شریف حکومت
نے نہ صرف دہشت گردی اور ڈالر کو کنٹرول کیا بلکہ اسکے ساتھ ساتھ مہنگائی
کے شتر بے مہار کو نکیل بھی ڈالے رکھی۔ اور سب سے بڑھ کر CPEC جیسے عظیم
منصوبے کی بنیاد بھی رکھوائی۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ نئے پاکستان میں
قرضوں سے حاصل کی گئی رقوم آخر کہاں جارہی ہیں؟ نہ ڈالر کنٹرول میں ہے نہ
ہی مہنگائی اور نہ ہی کوئی بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے منظر عام پر آرہے ہیں۔
نیا پاکستان بنے تقریبا تین سال ہوچکے ہیں۔ یقین نہیں آتا ہے کہ کیا یہ ہے
نیا پاکستان؟ کہ جس کی خاطر پاکستان کے عظیم کرکٹر نے 22 سالہ سیاسی جدوجہد
کی تھی، یقین نہیں آتا کہ یہی ہے نیا پاکستان جو پرانے پاکستان سے زیادہ
قرضوں کی دلدل میں ڈوبتا ہوا نظر آرہا ہے۔ پرانے پاکستان میں اپوزیشن لیڈر
جناب عمران خان صاحب کی بازگشت تقریبا ہر روز سنائی دیا کرتی تھی کہ نیا
پاکستان میں قرضے نہیں لئے جائیں گے، حد تو یہ ہے کہ جناب عمران خاں صاحب
یہ دعوی کیا کرتے تھے کہ وہ حکومت میں آکر قرضہ لینے کی بجائے خودکشی کرنے
کو ترجیح دیں گے۔پرانے پاکستان میں جناب عمران خان صاحب کبھی کہا کرتے تھے
کہ کتنے شرم کی بات ہے کہ پاکستان کا وزیراعظم قرضہ بھیک لینے کی خاطر کبھی
کسی ملک کے بادشاہ کے آگے ہاتھ بڑھاتا ہے تو کبھی آئی ایم ایف کے سامنے جھک
جاتا ہے۔اقتدا ر میں آکر جہاں پر جناب عمران خان صاحب نے اپنی کہی ہوئی بہت
سی باتوں اور دعووں سے یوٹرن لیاوہیں پر آئی ایم ایف سے قرضے نہ لینے کے
دعوی پر سب سے بڑا یوٹرن لیا تھا۔آج قوم کے نام خطابات میں قرضہ ملنے
پرقرضہ کو خوشخبری اور پیکج کا نام دیا جاتا ہے۔نئے پاکستان کی حکومت کے
قرضوں کے حوالہ سے دستاویزی ثبوت عمران خان صاحب کے ماضی کے ہر دعوی کی نفی
کرتے دیکھائی دیتے ہیں تحریک انصاف کی حکومت یہ دعوے کیا کرتی تھی کہ پرانے
پاکستان کے لٹیرے و ڈاکو حکمرانوں کے لئے گئے قرضوں کو اتارنے کے لئے حکومت
وقت کو ٹیکسوں میں اضافہ کرنا پڑ رہا ہے۔مگر حقیقت بالکل اسکے برعکس
نکلی۔ماضی میں عمران خان صاحب قرضوں کی بناء پر حکومت وقت پر نہ صرف شدید
تنقید کیا کرتے تھے بلکہ ملک کے وزیراعظم کو چور اور ڈاکو بھی کہا کرتے
تھے۔(بابا بلھے شاہ کی روح سے پیشگی معذرت) ”رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے
رانجھا ہوئی“ کو نئے پاکستان کے بانیان کے قرضوں کے بیانات و دعوؤں کے
تناظر میں یہی کہا جاسکتا کہ ”قرضہ قرضہ کردی نی میں آپے قرضہ ہوئی“۔ اللہ
کریم پاکستان اور پاکستانیوں کے حال پر رحم فرمائے۔ آمین ثم آمین
|