قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ
جناح انتقالِ قائد اعظم کے بعد ایکشن میں جب پہلی بار کھڑی ہوئیں تو
پاکستانی عوام نے انہیں رد کردیااس کی خاص وجہ یہ تھی کہ کہیں پاکستان میں
موروثی سیاست کی داغ بیل نہ پڑ جائے اور پاکستان میں جمہوریت شخصی اور
مورثی سیاست کا عمل نہ دھارلے۔۔۔۔۔ اُس زمانے میں ہر پاکستانی نہایت مخلص ِوطن،
ہمدردِ وطن، جانثارِ وطن، حب ِ وطن اور سچا پاکستانی و مسلمان تھا اور ان
سب میں ایمان کی دولت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، نہ تعصب، نہ مذہبی فرقہ
بندی کی سورش اور نہ مذہبی انتہا پسندی نظر آتی تھی ہر طرف اخوت، اتحاد ،ملی
یکجہتی اور بھائی چارہ تھا ۔پاکستان کے ہر چپے پر مختلف مذاہب اور مسلک کے
پیروکار تھے لیکن ان میں آپس میں کبھی بھی کوئی کلیش نہیں ہوا کیونکہ سب کے
سب اپنے اپنے عقیدوں پر عمل پیرا تھے کسی پر کوئی زبر دستی نہیں تھی ،اختلافات
برائے اصلاح کا عمل رہا جس میں مناظروں اور کانفرنس کے ذریعے علمی طرز عمل
کو اپنایا جاتا رہا اور اپنی بات عوام کے سامنے پیش کی جاتی تھیں۔
شب ہو یا صبح بیاباں ہو یا ہجوم کسی پل ،احساسِ خوف جنم نہ لیتا تھا ،
تجارت و کاروبار ہر دم اس کا پہیہ چلتا تھا ،قدر روپے کی تھی اس قدر کہ چند
کوڑیوں میں سامانِ زر خرید لیا جاتا تھا ، تقریبِ گھر میں خاندان دیتے تھے
دعوت سب کو عام، بندھی تھی رشتوں میں ساری قوم، امیر و غریب چھوٹی بڑی قوم،
نہ تھا غیروں جیسا سلوک اور نہ تھی منافقت، دل شفاف تو ذہن پاک تھا ،ایک
دوسرے کیلئے احساس بیدارتھا، کہ ہوجاتی تھی گر کوئی مصیبت ،ساتھ دینے کو ہر
اک آگے کو تھا، جو پاس تھا زر کسی کے تو وہ عام بھی تھا، ہر ایک مسیحائی
عمل میں نظر آتا تھا، تھا سادہ زمانہ اور اک سکون اور راحت کا منظر ،بیت
گیا ہے مگر روٹھا نہیں ہم سے ، پاس ہی کھڑا ہے کہتا ہے ،تم سہی ہوجاﺅ تو
میں آﺅنگا، تمہیں وہی خوشی دوبالا کرجاﺅنگا۔۔۔۔۔۔
رات کی تاریک ہو یا دن کا اجالا
ہر شخص تھا محفوظ و اعلیٰ
نہ ڈر نہ خوف نہ جان کا خطرا
ہر طرف علم و ادب کا تھا گہوارہ
(جاوید صدیقی)
پاکستان میں سیاست کا ایک وہ بھی رنگ تھا جس میں زرا برابر کوئی حکمراں
مہنگائی میں اضافہ کردیتا تو اسے پوری قوم یکجا ہوکر اس کے خلاف سیسہ پلائی
دیوار بن جاتے تھے اور وہ حکمراں اپنے غلط فیصلوں کو بر وقت تصیح کر لیتا
تھا۔ وقت بڑھتا چلاگیا اور پاکستان کی سیاست میں اتار چڑھاﺅ کے باعث ایسے
لٹیرے ، بد معاش ، بد نیت، ظالم و فاسق ، بے حس، بے شرم سیاستدانوں نے اپنے
سیاسی ہم خیالوں کو جمع کرنا شروع کردیا اور ایک منفی قوت بن کر عوام کو
مغلوب کرڈالا جس میں ان لٹیرے ساستدانوں کے خلاف کسی نے آواز بھی اٹھائی تو
ایسے ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مروادیا تاکہ ان کے خلاف کوئی آواز بلند نہ کرسکے
اور عوام میں ان کا خوف بڑھتا چلا جائے۔ یہ ملکی دولت کو لوٹنے میں دقعت
محسوس نہ کرسکیں اور ان کا محاسبہ بھی نہ ہوسکے اسی لیئے اس منفی سیاسی
مافیہ نے نہ صرف کرپٹ سیاستدانوں کو یکجا کیا بلکہ اپنے ساتھ کرپٹ ججزو
جسٹس ، انتظامیہ و بیوروکرٹیس کے اعلیٰ ترین کرپٹ طبقہ کو بھی شامل کرلیا
ممکن ہے اس میں کچھ فورسس کے کرپٹ افسران بھی شامل ہوں پھر ایسا لائحہ عامہ
پیش بنایا گیا کہ یہ سب گروپ آپس میں مل بیٹھ کر قومی خذانے کو لوٹیں اور
ملکی دولت کو آپس میں تقسیم کر نے پر عمل پیرا ہوئے اور انھوں نے سیاسی
مخالفین کے منہ میں چند روپوں اور مراعات کی زنجیر ڈال دی اور پھر بیرونی
امداد ہتھیا نے اور قرض در قرض لیتے چلے جانے پر گامزن ہوگئے اس پلا ن پر
عمل کرنے سے پہلے انھوں نے پوری قوم کے اتحاد کو پاش پاش کردیا، انہیں
لسانیت، فرقہ واریت، قوم پرستی، تعصب میں مبتلا کرکے آپس میں لڑاتے رہے تا
کہ قوم کی جانیں ضائع ہوں اور یہ آپس میں لڑ لڑ کے جی نہ پائیں ، آج تک یہ
سب کچھ ہوتا نظر آرہا ہے ۔۔۔جب جب جمہوری حکومتیں نے اقتدار کی ہوس پوری کی
آج تک ابتدائی دور کے سوائے کسی بھی دور حکومت میں عوامی سطح پر ملکی بہتری
کیئے کام نہیں کیئے اور جن کاموں کی بات کی جاتی ہے وہ امریکہ نے امداد کی
شرط پر زبردستی کرائے تھے وہ بھی جنرل مشرف کے دور حکومت میں۔ بھٹو سے
لیکرسن سو ہزار گیارہ تک پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوامی سطح پر کوئی خاطر
خواں ترقی و تعمیری امور پر توجہ نہیں دی اور نہ کبھی پاکستان کی معیشت کو
بڑھاوا دینے کیلئے مثبت دیرپا کسی پلان پر عمل کیا، موجودہ دور حکومت میں
بجلی کابحران، گیس کا بحران اور ہوشربا مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر
کردیا ہے اور اس پر المیہ یہ کہ آئے روز توانائی کے شعبے میں نرخ میں اضافہ
ہی کیا جاتا ہے جبکہ سہولتیں نا پید ہوچکی ہیں ۔۔۔۔
سندھ حکومت از خود جان کر سندھ کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ
کے خلاف زہر انگیز بیانات دیکر حالات کو اور دشوار بناتے رہے ہیں اور عوام
میں نفرتوں کے انبار پیدا کرتے رہیں ہیں ، عوام کی عقل و داشمندی خاک میں
مٹ گئی ہے کیونکہ مہنگائی نے انہیں نفسیاتی مرض بنادیا ہے اور یہ اپنی
نفرتوں کو کمزور عوام میںلڑائی جھگڑوں سے ختم کرنے کی نا ممکن کوشش کرتے
ہیں اور حاصل نتیجہ آپس میں خون ریزی کرکے نا تلافی نقصان سے دوچار ہورہے
ہیں ،حکومت تو یہی چاہتی ہے کہ عوام چھوٹے چھوٹے مسئلہ میں گرفتار رہے اور
آپس میں دست و گریباں ہوکر الجھتے رہیں تاکہ اپنے منتخب نمائندگان کی طرف
توجہ نہ دے سکیں۔ حالیہ حکومت پاکستان کی سیاسی تاریخ کو پلٹ ڈالا ، اس
حکومت میں کرپشن، نا انصافی، ظلم و ستم، عدم بنیادی سہولیات نے تمام ریکارڈ
توڑ ڈالے حیرت تو یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اس حکومت کے نا پید
احکامات کو روکنے میں زرا برابر مزاحمت کرتا نظر نہیں آرہا ہے اس کے ساتھ
ساتھ اس سے بد تر حال پاکستان مسلم لیگ نون کا بھی ہے جس نے اپنے دور
اقتدار یعنی پنجاب حکومت میں چوہدریوں کی بدمعاشی ، ظلم و ستم کا سوائے
بڑھاوا دینے کے عوامی سطح پر مثبت اقدامت نہیں کیئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اب وقت قریب
ہوتا جارہا ہے ممکن ہے چند دنوں میں یا مہینوں میں تمام سیاسی جماعتیں اپنی
کمزوریوں ، بے بسیوں کا اظہار کرتے ہوئے عوام کے درمیان داخل ہونے والی ہیں
جن مین قہ جماعتیں بھی شامل ہونگی جو حزب الجاعت رہی ہوں اور وہ جماعتیں
بھی شامل ہونگی جو آخر تک حزب الاختلاف میں رہی ہوں ان سب کا یہی کہنا ہوگا
کہ ہم تو عوام کی خدمت کرنا چاہتے تھے لیکن ہمیں موجودہ حکومت نے موقع
نہیںدیا۔۔۔۔ اب عوام جان چکی ہے کہ جب حلواہ بٹ رہا تھا تب بڑا پیٹ کھول کر
کھا رہے تھے اور رکابی میں جب حلواہ نہ رہا تو بھوکا رہنے کا بہانا کر رہے
ہیں ، عوام جان چکی ہے کہ سب کے سب مکروہ و فریب کا ناٹک کرکے ہمیشہ کی طرح
ووٹ حاصل کرنے کیلئے شعبدہ بازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ان سب کو اقتدار کی
ہوس ہے عوام کی خدمت کا جذبہ نہیں کیونکہ اقتدار میں رہتے ہوئے ملکی دولت
کو لوٹ گھسوٹنے کا بہترین موقع میسر رہتا ہے ۔۔۔پاکستان کا المیہ رہا ہے کہ
یہاں کبھی بھی احتساب کا عمل سچائی اور قانون پر سختی سے عمل پیرا نہیں رہا
ہے کیونکہ بعد میں ہر آنے والے جانے والے کیلئے نرم پہلو ضرور رکھتا ہے
تاکہ وہ بھی اقتدار کے مزے لوٹ لے۔۔۔۔ اب تک پاکستان اور پاکستانی عوام کی
فلاح و بہبود اور ترقی کیلئے حقیقی معنوں میں عملی جامہ نہیں پہنایا گیا ہے
ظاہر ہے ہمارا نظام انتہائی کمزور اور فرسودہ ہونے کے باعث مجرموں کو کیفر
کردار تک نہیں پہنچا پاتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اور کب اقتدار کی ہوس سے
بالا تر ہوکر عوام الناس کی خدمت کرتا ہے ۔۔۔۔ موجودہ سیاسی ڈھانچے میں
کوئی بھی اس پہلو سے نظر نہیں آتے بلکہ یہ تو ناکام اور رد کردہ لوگ ہیں
اگر زور و زبر اور دباﺅ کا عمل الیکشن کے ووٹنگ کے وقت ختم کردیا جائے اور
الیکشن کے نظام کو مکمل تبدیل کرکے جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے اپنایا
جائے تو شائد بہتر اور نفیس لوگ ایوان میں آسکیں گے۔ |