چند ماہ قبل مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی
جانب سے متحدہ قومی مومنٹ کے قاٰئد الطاف حسین پر طرح طرح کے الزامات عائد
کیے گئے جس کے جواب میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے مسلم لیگ کے سربراہ نواز
شریف اور اپوزیشن لیڈر چوھدری نثار کے لیے نازیبا الفاط استعمال کیے
نوازشریف پر جنسی ادویات کے استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا۔ تحریک انصاف
کے سربراہ عمران خان نے قائد تحریک الطاف حسین کے خلاف لب کشائی کی تو
کراچی کی تمام اہم شاہراہوں و گلی کوچوں میں عمران خان کے خلاف چاکنگ کی
گئی جس میں شرمناک الفاظ استعمال کیے گئے ۔ ساڑھے تین سال کے دوران متعدد
بار ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان ناچاقی پیدا ہوئی اور متحدہ
گورنمنٹ سے الگ ہوئی پھر شمولیت اختیار کرلیتی لیکن اس وقت تک (ق) لیگ
پیپلزپارٹی کی اتحادی نہیں تھی لہٰذا ایم کیو ایم کے ہر جائز و ناجائز
مطالبات کو تسلیم کیا جاتا رہا جس کی وضاحت وزیر اعظم نے اپنے حالیہ بیان
میں کچھ اس طرح کی ھے کہ پاکستان کے مفاد میں ایم کیو ایم کے صرف جائز
مطالبات کو تسلیم کیا جائے گا ۔کیا اس سے قبل ایم کیو ایم کے ناجائز
مطالبات بھی تسلیم کیے جاتے رہے ہیں ؟ سندھ کے سنئیر وزیر ذوالفقار مرزا کی
جانب سے ایم کیو ایم کے قائد کے خلاف زہر افشانی کے بعد ایم کیو ایم کے
رہنماؤں کی جانب پیپلزپارٹی کے کو چیئرپرسن جناب آصف علی زرداری کے خلاف
بیان بازی کے بعد ایم کیو ایم کو ملک و عوام کے وسیع تر مفاد میں احتجاج
نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ ایم کیو ایم کے احتجاج کے نتیجے میں پندرہ قیمتی
جانوں کا ضیاع ،دس ارب سے زائد معیشت کو خسارہ، اور پینتالیس گاڑیاں نذر
آتش ہوئی ۔ سنیئر وزیر کی شعلہ بیانی صرف قائد تحریک تک محدود نہیں تھی ان
کا کہنا تھا کہ جب گورنر کو گورنر بنا یا گیا تو وہ اس وقت ملک سے فرار تھا
کیونکہ وہ کئی مقدمات میں مطلوب تھا ۔ اگر دوبارہ گورنر صاحب نے ذمہ داریاں
سنبھالنی تھی تو پھر احتجاج کرنے کی کیا ضرورت تھی اور احتجاج کے دوران
جانی و مالی نقصان کا ذمہ دار کون؟ ایم کیو ایم یا پیپلز پارٹی آپ خود بہتر
طور پر تجزیہ کرسکتے ہیں۔ |