دنیاکے مہذب ملکوں میں قانون پر
سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے اور انتظامیہ، عدلیہ کو آزاد رکھا جاتا ہے
۔۔پاکستان تین ستونوں پر مشتمل ہے ،ایک قانون ساز اسمبلی(یعنی صوبائی و
قومی اسمبلی) جہاں عوامی منتخب نمائندے عوامی فلاح و بہبود کیلئے قانون
بناتے ہیں ،دوسرا انتظامیہ یعنی پولیس اورایجنسیاں جن کے فرائض میں شامل ہے
کہ وہ قانون پر عمل کرائیں اور قانون شکنی کرنے والو ں کو گرفتار کرکے
عدلیہ کے سامنے پیش کریں ،تیسرا عدلیہ اس کے فرائض میں شامل ہے کہ تمام
رموز واقعات اور حقائق کو جان کر قانون کے مطابق فیصلہ کریں۔۔۔۔۔پاکستان کو
معروض وجود میں آئے تقریباً چونسٹھ سال بیت چکے لیکن ملک پاکستان میں کسی
طور پر بھی کہیں بھی نظام درست نظر نہیں آتا۔عوامی مینڈیٹ سے کامیاب ہونے
والے سیاستدان ایوانوں میں پہنچ کر خود کو اعلیٰ نسل، اعلیٰ منصب اور
شہنشاہ کے تصور میں گم ہوجاتے ہیں اور تمام قسمیں و وعدے، عہد و پیماں،
نفیس تقاریر، بلند و بالا بیانات ان سب کو ان دیکھے خواب کی طرح بھول جاتے
ہیں ، اور ایوان میں آپس میں ملکی خزانے کو لوٹنے کیلئے ساز بازیاں کرتے
رہتے ہیں ، حکومتی ممبران اپنے مخالف گروپس کو چند مراعات و آسائش دیکر
خاموش کرالیتے ہیں اور یوں ایک بار پھر عوام کو دلاسوں ، بیانات تک محدود
کردیتے ہیں ، اگر عوامی سطح پر کوئی مخلص ان کے خلاف اٹھ کھڑا بھی ہو جاتا
ہے تو یہ اسے مروا بھی دیتے ہیں ۔۔۔۔انتظامیہ کو اپنی حفاظت کیلئے مخصوص کر
لیتے ہیں اور انتظامیہ میں براہ راست مداخلت جاری رکھتے ہیں اپنی من پسند
افسران کو انتظامی عہدوں پر فائز کرکے قانون کے شکنجے سے محفوظ بنا لیتے
ہیں ، پاکستان میں جب سے صحافت کو آزادی حاصل ہوئی ہے انہیں یہ گوارا نہیں
اسی لیئے کسی نہ کسی موقع پر کہیں نہ کہیں صحافی کی شہادت کی خبر سامنے آتی
ہے کیونکہ یہ نہیں چاہتے کہ کوئی صحافی حقائق کو پیش کرسکے بلکہ ان کی
ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ وہ اس صحافتی ادارے کو بھی خرید کر اپنی من پسند
خبروں کی بارش پیش کرسکیں اور صحافی حضرات ان کی تعریفوں کے بند باندھیں۔۔۔۔لیکن
الحمد للہ یہ سیاستدان اس ادارے سے مایوس نظر آتے ہیں اور ہمارے صحافی
حضرات اور ادارے کے مالکان سیاستدانوں کے آگے جھکے دکھائی نہیں دیتے۔ اب
بات ہے انتظامیہ کی کہ جب من پسند افسر تعینات کردیا جائےگا تو ظاہر ہے وہ
اس لیڈر کے ہر حکم کو بجا لائے گا چاہے جائز ہو یا نا جائز؟ اسی طرح
عدالتوں میں ججز کی تعیناتی سیاسی بنیاد پر کی جائے گی تو ظاہر ہے انصاف
کہاں میسر ہوگا؟ گزشتہ روز کراچی میں پیش آنے والے واقعات کی اصل وجہ بھی
یہی ہے کہ ہمارے ملک کا سسٹم ،کوئی سسٹم نہیں ، جو طاقتور ہے اسی کا راج ہے
،پولیس افسران کا کہنا ہے کہ ہم اگر قانون کے تحت کوئی عمل کر بیٹھیں تو
وزراء و اعلیٰ افسران کی جانب سے سسپینڈ کے احکامات جاری ہوجاتے ہیں ، افسر
کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم ایک کٹ پتلی کی طرح ہیں ہمیں قانون نہیں بلکہ
اپنے اعلیٰ افسر اور سیاسی لیڈر کے احکامات کو پاس رکھنا لازمی ہوتا ہے
چاہے اس میں قانون کے خلاف ہی جانا پڑے۔۔۔۔۔ اسی قدر عدلیہ کا نظام بھی
سیاسی دباﺅ کے باعث کمزور اور ناقص ہوگیا ہے ۔۔۔آج کل سرے عام ڈکیتی و لوٹ
مار کا بازار گرم ہے ، تو کہیں ٹارگٹ کلنگ کا عمل تیز ہے، بیروزگاری، بھوک
و افلاس انتہا کو پہنچ چکی ہے تو ضرورت اشیاءکی کمی انتہا کو پہنچ گئی،ملکی
باڈروں کے سودے ہونے لگے تو فورسس کے جوانوں کی لاشوں پر قہقے لگنے
لگے،ملکی توانائی بد سے بد تر جا پہنچی، تعلیمی ادارے کاروباری منڈی بن
بیٹھے، احساس کا جنازہ نکلنے لگا لیکن یہ سیاسی نمائندے پھر بھی بے حس بنے
رہے۔۔۔۔۔اشیاءاجناس کی کوئی قیمت نہ ٹھہری، بچے بھی دودھ کو بلک اٹھے، گوشت
کھانا محال ہے ، دال و سبزی کو بھی ترس اٹھے، ضرورت امر کی ہے کہ پاکستان
میں تین محکموں کو اگر درست کردیا جائے تو انشا ءاللہ حالات سازگار ہوسکتے
ہیں ،ان میں الیکشن کا جدید کمپیوٹرائز نظام جس میں ووٹرز کو اسکینک کے عمل
سے گزارا جانا ممکن بنایا جائے تاکہ غلط ووٹ غلط امیدوار کو نہ مل سکیں،
دوسرا انتظامیہ کو مکمل آزاد اور قانون کا پابند کردیا جائے اس محکمہ کو
بھی جدید خطوط کے تحت کمپیوٹرائز کرکے جدید سمعی و بصری آلات سے بھی مستفیض
کردیا جائے تا کہ مجرم تک پہنچنے میں آسانی حاصل ہوسکے ۔ تیسرا عدلیہ کو
بھی مکمل آزاد کردیا جائے اور اسے بھی جدید خطوط کے تحت کمپیوٹرائز کرکے
کیسوں کی فائلیں ترتیب دیتے ہوئے فی الفور فیصلوں کا عمل رکھا جائے تاکہ بے
گناہ شخص اپنی زندگی کے دن قید میں نہ بسر کرے۔۔۔۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا
عوام میری اس بات کو سمجھیں گے ؟ کیا مخلص سیاستدان میری اس بات کو سمجھ
لیں گے یہاں میں کہتا ہوں کہ کاش اتر جائے تیرے دل میں میری یہ بات۔۔ |