سیاست اور ایک منفی فکر:
آج کل عام طور سے سیا یت کا لفظ سنتے ہی افق ذہن پر یہ با تیں ابھر نے لگتی
ہیں کہ در اصل سیا ست بد عنوانی ، رشوت خوری ، مکاری وعیاری ، دھو کہ بازی
و عیب جوئی اور چغل خوری سے عبارت ہے۔سیاست کے متعلق ایسے برے تصور کی وجہ
اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ آج اکا دکا اورخال خال سیا ستداں ہی بمشکل تمام
اپنے سیا سی دامن کو داغ دھبے سے بچاپاتے ہیں،ورنہ تو بیشتر اس حمام میں
ایک جیسے ہوتے ہیں ۔چنانچہ اس کا سیدھا مطلب یہ نہیں نکلتا کہ بالذات
”سیاست“بد عنوانی اور فریب دہی سے ہی عبارت ہے ۔بات در اصل اینکہ فی نفسہ
سیا ست صاف وشفاف ہے ، تاہم سیاستدانوں کی غلط پا لیسیوں اور پھو ہڑ پن سے
وہ بدنام ہے ۔ سیاست کی شفافیت یوں سمجھئے کہ چھری کا ٹنے کا ایک آلہ ہے ،
مختلف اوقات میں مختلف چیزیں اس سے کا ٹی جاتی ہیں ، پھل فروٹ اور دیگر
اشیاءاس سے کا ٹیں تو بجا ہے ، اس کا استعمال یہاں سو فیصد صحیح ہے ،مگر
اسی سے کسی پر حملہ آور ہونا ، ناحق خون بہانا ، اس کی نوک پر رہزنی کرنا
سراسر غلط بلکہ حرام ہے ۔اس سے یہ حقیقت واشگاف ہوتی ہے کہ چھری فی نفسہ
کوئی غلط آلہ نہیں ،بلکہ اس کا غلط استعمال غلط ہے اور صحیح جگہ درست ۔بالکلیہ
اسی اصول پر سیا ست بھی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اربابِ علم بالخصوص علماءاگر سیاسی گلیاروں میں طبع آزمائی
کرتے ہیں تو بےشما رافراد ان کی زور آزمائی پر انگشت نمائی کرتے ہیں ، ان
پر تنقید کی بو چھاڑ کرتے ہیں ۔ایسا معلوم پڑ تا ہے کہ گویا ملک وملت کی
فلاح و بہبو د کے لئے ان کا سیاسی میدان میں طالع آزمائی کرنا کو ئی جر م
عظیم ہے۔ ان کے اقدام کو کسی اور تناظر میں دیکھتے ہوئے نہایت سست
کہاجاتاہے اور تو اور بہت سے بھولے بھالے مسلمان یہ کہتے شرم و عار محسوس
نہیں کرتے ہیں کہ اسلام کا سیاست سے قطعی کوئی علاقہ نہیں ، بھلا
علماءسیاسی میدان میں کیسے قدم جما پائیں گے ؟ میدان مارنے کی لیاقت و
صلاحیت ایسے افراد میں ہوتی ہیں جو میدان کے تئیں قواعد و کلیہ سے واقف ہو
ں، علماءصرف مساجد ومدارس کیلئے ہی موزوں ہیں ، بقیہ مختلف میدانوں میں وہ
کوڑے ہیں ۔حالانکہ یہ باتیں انتہائی سطحی ، غیر مناسب اور کج فہمی پر مبنی
ہیں کہ اسلام کا سیاست سے قطعی کوئی واسطہ نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و
احادیث میں سیاست کے متعلق بے شمار اصول و قواعد موجود ہیں کہ کس طرح سیاست
کی جائے گی؟کیسی سیاست معاشرہ کے لئے سود مند ہے اور کیسی مضرت رساں ؟سیاست
کے اہل کیسے افراد ہو سکتے ہیں ؟سیا ست میں کن کن پہلوؤں کو ترجیحا ت حا صل
ہوں ؟۔
اس بات کو بھی سپر د ِ قلم و قرطاس کرنا منا سب معلوم پڑ تاہے کہ اسلام کی
ترجمانی آج اس پیر ایہ میں کی جاتی ہے ، جس سے معلوم پڑتا ہے کہ فی الحقیقت
اسلام چند عبادات کے مجموعوں کا نام ہے ۔ اسلام میں وسعت نہیں ، اسلام
تنگدست ہے ،اسلام تو بہت سے بہت عبادات وریاضت کے تئیں زریں اصول رکھتا ہے
تاہم معاملات و معا شرت کا کوئی اہم درس نہیں ۔ نماز ، روزہ ، زکوة ، حج
وغیر ہ کے احکام و اصول بدرجہ اتم اس میں موجو ہیں مگر شعبہ جات زندگانی کے
لئے قابل قدر اصول فراہم نہیں کرتا۔ ظاہر بات ہے کہ علماءاسلام ہی مالہ وما
علیہ اسلام کی ترجمانی کر سکتے ہیں ، جب یہی طبقہ اسلامیا ت کو زمان و مکان
کے حصار میں محدود کردیں گے ، چند عبادات کو اپنے بیا نات کے لئے موضو ع
سخن بنائیں گے ، معاملات و معاشرت سے قطع نظر کریں گے تو اسلام سے غیر آشنا
کے لئے اسلام کے تئیں غلط تصورات قائم کرنا چنداں تعجب خیز نہیں ۔آقاءمدنی
محمد ﷺ اور خلفائے راشدین جس طرح عبادا ت کی بجا آوری میں ہمہ تن منہمک
تھے، اسی طرح معاملات و معاشرت کے تئیں فعال و متحرک ،بلکہ بسااوقات عبادات
پر معاملات غالب رہتے تھے۔ چنانچہ ہمیں بھی معاملات کی طرف توجہ کرنے
چاہئے۔
پارٹی کا قیا م عمل :
ولا یحسبن الذین کفروا سبقو ا لا یعجزون وا عدو لھم مااستطعتم من قوةومن
رباط الخیل تر ھبون بہ عدو اللہ و عدوکم و اٰخرین من دونھم لا تعلمونھم
اللہ یعلمھم وما تنفقو ا من شی فی سبیل اللہ یوف الیکم وانتم لا تظلمون
(الانفال:۹۵،۰۶)
”اور تم لوگ، جہا نتک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیا دہ طاقت اور تیا ر بندھے
رہنے والے گھو ڑے ان کے مقابلہ کے لئے مہیا رکھو ،تا کہ اس کے ذریعہ اللہ
اور اپنے دشمنو ں کو اور اس دوسرے اعداءکو خوف زدہ کردہ ، جنہیں تم نہیں
جانتے مگر اللہ جانتا ہے ، اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کروگے اس کا پورا
پورا بدل تمہاری طرف پلٹا جائے گااور تمہارے ساتھ ظلم نہ ہوگا۔“
سیاست کے تعلق سے ان آیا ت کو سمجھنے کے لئے ذیل کی چند اصولی باتوں کو مد
نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے ، ورنہ ایسا معلوم پڑے گا کہ ان سے قطعی سیاست
کا کوئی تعلق نہیں۔
بنیادی اصول :
(۱)قرآن مجید کا سمجھنا بالکلیہ شان ِنزول پر موقوف ہے اور نہ ہی عمل کے
لئے اسی پر اس کا انحصار ۔یہ واضح ہو کہ اس کی اہمیت و افادیت کی یکسر نکیر
مقصود نہیں ، بلکہ بسا اوقات افہا م و تفہیم کے لئے نزول کے پس منظر کی
وضاحت نا گزیر ہو تی ہے،نزول کے بغیر باتیں واضح نہیں ہو پا تی ہیں ۔یہ بھی
ایک حقیقت مسلم ہے کہ شانِ نزول پر تکیہ کرلینے سے آیات سے مسائل اس وقت کے
لئے مستنبط کرنے میں انتہائی دشواری پیش آتی ہے جبکہ ہم تدبر و تفکر کررہے
ہوں ۔قرآن ایک آفاقی ، لافانی اور لا ثانی کتاب بلکہ ضا بطہ حیات ہے،جس سے
ہمہ زمانہ مسائل مستنبط کئے جائیں گے اور وہ ہر وقت رہنما اصول ہمیں فراہم
کرتا رہے گا۔
(۲)جہاد اور سیا ست کے اغراض و مقاصدمیں یک گونہ ہم آہنگی ہے ۔بنیا دی
مقاصد ِجہاد میں نمایاں طور پر یہ کارفرما ہوتے ہیں ،’ظلم و تعدی کا خاتمہ
، حفاظت ِ امن ، مظلوموں کی حمایت و نصرت ، دشمنو ں کا استیصال‘۔اب ذرا
سیاسی پا رٹیوں کے منشور یعنی اغراض و مقاصد کو مد نظر رکھیں کہ وہ کیا کیا
ہوتے ہیں ؟غور وفکر کے بغیرہی یہ حقیقت واشگاف ہوگی کہ ان کے منشور میں
مذکورہ باتیں نمایاں ہوتی ہیں ۔ چنانچہ ان اغراض ومقاصد کے پیش نظر جہاداور
سیا ست میں یک گونہ یگانگت ہے ۔
(۳)قرآن دلیل کے اعتبارسے نص قطعی ہے ، اسلام کا ماخذ ، منبع و سر چشمہ ہے
۔ نص کی چار قسمیں ہیں۔ ۱،عبارة النص ۲،اشارة النص ۳، دلا لة النص
۴،اقتضاءالنص ۔ یہ وا ضح ہو کہ یہ چاروں نص قطعی ہیں نہ کہ ظنی الثبوت ۔ اس
کے بعد اس کی وضاحت بھی قطعی ضروری ہے کہ یہاں صرف عبار ة النص اور دلا لة
النص ہی مو ضو ع ِ بحث ہیں ، چنانچہ یہی دونوں مع تعریفات وامثال پیش کئے
جائیں گے۔
عبار ة النص : ”فھو ما سیق الکلام لاجلہ“ کسی غرض و مقصد کے لئے بالقصد
کلام کیا جائے۔
مثال:”ثم اتمو االصیام الی اللیل“(البقرہ )روزہ رات تک پو ری کرو۔ قرآن کی
آیت کے اس ٹکڑے سے یہ بات بالکل دو دو چار کی طرح عیاں ہے کہ صبح سے شام تک
اکل و شرب اور جماع سے اجتناب و احتراز کا نام روزہ ہے اور یہاں کلام اسی
واسطے لایا گیا کہ صبح سے شام تک روزہ رکھنا مشروع ہے۔
دلالةالنص:”فھی ما علم للحکم المنصوص علیہ لغة ولا اجتھا داولا استنبا
طا“بلا کسی اجتہاد و استنبا ط کے بر بنائے لغت جو’ علت‘معلوم ہو جائے وہ
دلا لة النص ہے۔
مثال: ”فلاتقل لھما اف ولا تنھر ھما “ان (والدین) کو اف تک کہو اور نہ ہی
انہیں جھڑ کو ۔اس آیت میں والدین سے غایت درجہ حسن ِ سلوک کا حکم دیا گیا
ہے کہ اور تو اور انہیں”اف “تک نہ کہو۔ لفظ اف پر یہ سوال معرض وجود میں
آتا ہے کہ اس آب و گل کے چمن کے کسی علاقہ میں ”اف“کہنا دلجوئی اور اچھے
کلام سے عبارت ہو تو کیا وہاں بھی والدین کویہ کہنا ممنوع ہوگا ؟ اسے بس یو
ں سمجھئے کہ اف کہنے کی ممانعت فی الحقیقت دلآزاری کی وجہ سے ہے ۔لب لبا ب
اینکہ بحث لفظ”اف “سے نہیں بلکہ اس میں جو علت ”دلآ زاری “ہے اس کے باعث
ممنوع ہے ۔
آیت کی تشریح جنگ وجہا دکے تناظر میں :
یہ آیا ت در اصل بمو قعہ غزوہ بدر نازل ہو ئیں ، غزوہ بدر گویا کفار کے لئے
عذا بِ الہی تھا ، بہت سے مشرکین شریکِ جنگ ہوئے اور چند پیچھے رہ گئے یعنی
جنگ میں شر یک نہ ہوئے ۔شریک ِ جنگ نہ ہونے والے تو درکنار بلکہ جو آئے تھے
ان میںسے بہت اپنی حالت دگر گوں اور پتلی ہو تی دیکھ کر بھاگ نکلے اور اس
وہم وگمان میں مبتلاءتھے کہ اللہ انہیں عذاب چکھانے سے عاجزو قاصر ہے
۔(نعوذبااللہ)چنانچہ اللہ نے فرمایا ولا یحسبن الذین کفرو ا سبقو ا لا
یعجزونکہ بھا گنے وا لے اور پیچھے رہنے والے خام خیا لی میں مبتلا نہ
رہیں۔پھراللہ نے مذکورہ آ یا ت میں جنگی ہتھیارکی تیاری کا حکم دیتے ہوئے
فرمایا ”و اعدو ا لھم ما استطعتم “یعنی بقدر ِ استطاعت جنگ کے سازو سامان
اس طرح مہیا کرو کہ غیر اقوام تم سے خائف رہیں ۔ وہ اللہ کے دشمن اور
تمہارے دشمن جنہیں تم نہیں جانتے سوائے اللہ کے ،سب خائف رہیں ۔ تاکہ وہ
تمہیں اقلیت و کمزور تصور کر کے کچلنے کی کو شش نہ کرے بلکہ ان کے دلوں میں
ایسی دھا ک بیٹھ جائے کہ تم سے علانیہ دشمنی تو کجا ، تمہا رے تئیں اس طرح
تدبیریں بھی کرتے ہوئے وہ خوف زدہ رہیں ”ترھبون بہ عدو اللہ و عدو کم“۔
اسلام کی عالمگیریت کی وا ضح مثال یہ بھی ہے کہ قر آن نے لفظ ”قوة“کے ساتھ
جنگ کی تیا ری کا حکم دیا ہے ، جو کہ ہر زما نہ پر محیط ہے ، خواہ وہ فقط
تیر اندازی کا زمانہ ہو یاترقی یافتہ وہ دور جس میں جنگو ں کے لئے بے شمار
جدید آلات موجود ہوں ۔ لفط قوة تو تیروں ، دبابو ں ، ہوائی جہازوں ، راکٹوں
، میزائل کی تما م قسموں اور آب دوز کشتیوں پر یکساں محیط ہے کہ مسلمانوں
کے لئے حالات کے پیش ِ نظر ان کا استعمال باعث ِ عار نہیں بلکہ انتہائی
ضروری ہے۔ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں پر یہ حقیقت بھی کھو ل دی گئی کہ ان جنگی
سازوسامان کی فراہمی میں تم جوسرمایہ صرف کرو گے وہ یوں ہی ضائع نہیں ہوگا
بلکہ در حقیقت وہ تمہیں واپس ملے گا،دنیا میں مال غنیمت وغیرہ کی شکل میں
مزید آخرت میں جزاءکے بھی مستحق ہو گے۔
ان آیات کی تشریح کے بعد ماقبل میں ذکر بنیا دی اصولوں میں سے مقاصد ِ جہاد
اور سیاست کو پیش ِ نظر رکھیں اورانہیں سیاست پر منطبق کریں ۔جہاد کے
بنیادی مقاصد میں امن کی حفاظت ، ظلم و تعدی کا خاتمہ، مظلوموں اور مفلوک
الحال لوگوں کی حمایت انتہائی نما یا ں ہوتے ہیں ۔ بعد اس کے سیا سی پا
رٹیوں کو مد نظر رکھیں کہ اکثر و بیشتر پا رٹیاں کن کن اغراض و مقاصد کی
تکمیل کے لئے سیا سی گلیا روں میں آتی ہیں ، بالفاظ دیگر ان کے منشو ر کیا
کیا ہو تے ہیں ؟پا رٹیوں کے اغراض و مقاصد پر طائرانہ نظر ڈا لنے سے یہ بات
وا ضح ہو تی ہے کہ مذ کورہ مقاصد ان کے منشور میں بدرجہ اتم موجود ہو تے
ہیں ۔ہاں ! یہ دیگر بات ہے کہ سراً ان کے مقا صد مختلف ہوتے ہیں ۔اب وہ
آیتیں مد ِ نظر ہوں جو اول اول ذکر کی گئیں ہیں ۔ ان میں جہاد کی تیا ری کا
حکم ہے،جنگی آلا ت کی فراہمی اور اس کی تیاری کا ذکر ہے ، اب سیا ست میں
دیکھیں وہی علتیں پا ئی جا تی ہیں جو جہاد میں ہیں ، لہٰذا ان مقاصد کے مد
نظر بھی فقہی اصول دلالة النص صا دق آتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ اسی علت کی بنیا
د پر”سیا سی پا ر ٹی “کے قیا م ِ عمل کی با ت واضح ہو تی ہے۔گو یا یہ آیت
”واعدولھم الخ“جنگی آلات کی تیاری و فراہمی میں عبارة النص ہے اور سیا سی
پارٹی کا قیا م ِ عمل دلالة النص سے ثابت ہے۔مذ کو رہ اصو ل کی تعریف مع
امثال اپنی جگہ نظرثانی کرلی جائے۔
سیا سی پا رٹی کے قیام عمل کی صراحت اس سے بھی زیا دہ ا س علت سے ہوگی کہ
جنگی آلا ت کی تیا ری وفراہمی کی اجازت اس آیت میں کس بنیا د پر دی گئی ؟
کیاعلت جنگی سازو سامان مہیا کرنے میں پا ئی جاتی ہے؟ قرآن ان سوالو ں کا
دو ٹو ک جواب دیا ہے کہ اللہ کے اور تمہارے دشمنوں کے دلوں میں تمہاری دھا
ک بیٹھ جائے ، تمہارے خوف سے وہ تم پر حملہ آور نہ ہو ، بلکہ اس کے متعلق
سوچنا تک وہ چھو ڑ دے۔ اب ذرا تصور کریں کہ اگر مسلمانوں کی کوئی منظم و
مستحکم سیا سی پا رٹی ہو گی تو دیگر پارٹیا ں اور مسلمانو ں کی دشمن غیر
اقوام ان سے خوف نہیں کھا ئیں گی؟ کیا ان کے دلوں ان کی دھا ک نہیں بیٹھے
گی؟
پہلی مثال میں بر بنائے مقاصد جہا د ،سیا ست میں ”علت“موجو د تھی مگر موخر
الذکرمثال میںطاقت وقوت اور شان و شوکت کی علت موجود ہے۔ ہاں ! یہ بھی واضح
ہو کہ صرف سیا سی پا رٹی کا قیا م عمل ہی نہیں بلکہ ان تمام ذرائع کا
اپنانا جن میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا را ز کا رفرما ہو ، اسی زمرہ
میں آئے گا ۔اور ایک با ت یہ بھی ملحو ظ نظر رہے کہ ان آیا ت کو سمجھنے کے
لئے کیاشان نزول بھی ممد ومعاون ثابت ہوا؟۔
اب جبکہ یہ ثابت ہو چکا کہ اسلا می نقطہ نظر سے مسلم سیا سی پا رٹی کا قیا
م یہ نہ کہ صر ف صحیح بلکہ حالا ت کے پیشِ نظر ضرو ری اور نا گزیر ہے
۔چنانچہ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی با ک نہیں کہ ان پا رٹیو ں کے قیا م کے
لئے غور و فکر کرنے والے عند اللہ ما جو ر ہو ں گے ، کیونکہ ان کا اس طرح
کا اقدام کرنا فی الواقع حق بہ جانب ہو گا۔
حکیم الامت حضرت مولا نا اشرف علی تھا نوی ؒ سے منسوب کرتے ہو ئے مولا نا
عبد الماجد دریا بادی ؒ اس آیت کے ضمن میںیو ںرقم طراز ہے:”ان آیتوں میں جو
تدابیر حرب و سیا ست بتائی گئی ہیں ، ان سے صاف دلا لت اس امر پر ہو رہی ہے
کہ سیا سی تدبیریں بڑے کمالات باطنی کے بھی منا فی نہیں ، جیسا کہ غالی و
نا قص صو فیا ءنے خیال کر رکھا ہے“۔(تفسیر ماجدی، ج:۲،ص:۹۰۳؛)
کتنی پا رٹیا ں سود مند ؟:
دلا لة النص سے یہ واضح ہو گیا کہ ازرو ئے شرع اسلام سیا سی پا رٹی کا قیام
ِ عمل حق بہ جانب ہے اور اس پر اجر وثواب کے استحقاق کی قندیلیں دلوںمیں
فروزاں کرنا بھی بجا ہے ۔سیا ست میں اس زاویہ نگا ہ سے اجر وثواب ہے ،دلکشی
ہے اور قدرے لطف بھی۔ان خصوصیا ت کی بنیا د پر مسلم سماج کے بے شمار افراد
کا میدان سیاست کی طرف میلان ایک فطری عمل ہی ہو گا اور پا رٹی کے قیا م
عمل کے تئیں متفکر ہو نا بھی۔ چنا نچہ قلب و با طن میں ان سوالات کا گردش
کرنا چنداں تعجب خیز نہیں کہ غیر مسلم اور جمہوری ممالک میں کتنی سیا سی پا
رٹیا ں ہو ں ِ؟ کتنی پا رٹیوں کا قیا م مسلمانو ں کےلئے حق بہ جانب ہو گا؟
کتنی پا رٹیا ں ہوں گی تو مسلمانوں کی سا کھ میدانِ سیا ست میں بر قرا ر
رہے گی ؟ فی الواقع یہ اور ان کے مماثل دیگر سوا لات انتہائی اہم ہیں ۔ان
کا تشفی بخش جواب دینا ناگزیر ہے ۔ ان کے جوابات کے لئے مندر جہ ذیل باتیں
انشاءاللہ ممد ومعاون ثابت ہوں گی۔
(۱)مذکو رہ آیا ت قرآنی میں یہ ٹکڑا ”ترھبون بہ عدواللہ وعدو کم“ان سوالات
کے جوابات کے لئے کا فی شافی ہے، بایں طور کہ حق جل مجدہ نے تیا ری جہاد
میں جن اسبا ب و محرکات کو پیش نظر رکھا ہے ان میں سب سے زیادہ نمایا ں یہ
ہے کہ اللہ کے دشمن اور تمہارے (مسلمانوں)کے دشمن خوف کھا ئے ، ان پر
مسلمانو ں کی دھاک جم جائے ، اب یہیںسے یہ حقیقت طشت ازبام ہو تی ہے کہ فی
الحقیقت اجر و ثواب کی امیدیں اتنی پا رٹیوں پر کی جائے گی جن سے غیروں پر
مسلمانوں کی دھا ک جم جائے ، غیر مسلم اور جمہوری ممالک میں و ہ اپنے حقوق
حا صل کر لیں ۔ ظاہر با ت ہے کہ اگر مسلمان کی متعدد پا رٹیاں افق سیا ست
پر درخشندہ ہوں گی ، سب مختلف منشور کے پیشِ نظر سیا سی گلیاروں میں طبع
آزمائی کرے گی تو ان کی فلاح و بہبو د متصو ر نہیں ۔ مسلمانوں پر سے زبوں
حالی کے بادل چھٹیں گے اور نہ ہی غیروں کے دلوں پر مسلمانوں کا خوف ہو گا ۔
سارے مسلمانوں تتر بتر ہوں گے اور تذبذب کے بھنور میں پھنسے بھی۔ لہذا نتا
ئج غیر متوقع بر آمد ہوں گے اور مسلمانوں کی کا میا بی و ظفر مندی تو کجا ،
غیر ان کے حقوق تلف کرنے کے لئے برسر پیکا ر نظر آئیں گے ۔ ان کی حالت ما
قبل کی بہ نسبت اور دگرگوں ہو گی۔ حاصل کلام اینکہ کوئی ایک منظم و مستحکم
پا رٹی ہو تب کہیں جاکر اس سے بھلائی متصور ہو گی۔ بصورت دیگر مسلمان اپنی
حالت زار پر یو ں ماتم کنا ں ہوں گے ۔
بھٹکتے ہیں یوں بے سہارا کہ جیسے مسافر بھٹکتا ہے تا ریکیوں میں
کو ئی شمع منزل ہمارے لئے نہیں ہے کوئی کا رواں بھی ہما را نہیں
(۳)قرآن لاثانی ضابطہ حیات ہے۔ ان میں قواعد و ضوابط موجود ہیں کہ کس کس
طرح منظم پارٹی قائم کی جا سکتی ہے؟ کن کن اسباب و علل کو ملحوظ نظر رکھ کر
اتحاد کی مثال قائم کر سکتے ہیں۔ ہمارے لئے اس ضمن میں اس سے بڑھ کر اور
کیا رہنما و زریں اصول ہو سکتے ہیں؟ مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو
مضبوط و مستحکم، انہیں باہم مر بوط و متفق کرنے اور انہیں نا قابل تسخیر
بنا نے کے لئے کون سا نسخہ اکسیر ہوسکتا ہے؟ بس یہی نا !
چنانچہ قرآن یوں نغمہ سنج ہے:
”واعتصموا بحبل اللہ جمیعاًو لا تفرقوا “ (آل عمران ، ۳۰۱)
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقہ میں نہ پڑو ۔
اللہ کی رسی کیا ہے؟ حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
”کتاب اللہ ہو حبل اللہ الممد من السماءوالارض“ ( ابن کثیر)
کتاب اللہ در اصل اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین پر لٹکی ہوئی ہے۔
دوسری جگہ ہے:
”واطیعوا اللہ ورسولہ ولا تنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم واصبروا ان اللہ مع
الصابرین(الانفال : ۶۴)
اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے
اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو۔
ان آیات کے پس منظر سے قطع نظر ان میں یہ حقیقت مسلم ہے کہ افتراق و انتشار
سماج و معاشرہ کے لئے سم ِقاتل ہیں۔ افتراق کے مرض میں مبتلا کوئی معاشرہ
اقبال و عروج کے منازل طے نہیں کر سکتا۔ افتراق پسندی قعر مذلت اور ذلت و
رسوائی سے عبارت ہے۔ اقبال مندی او رخوش اقبالی کے لئے اتحاد و اتفاق اور
صبر ایک ناگزیر اکسیر ہے۔ بھلا تصور کیجئے میدان سیاست میں مسلمان اتحاد و
اتفاق کو بالائے طاق رکھ کر کوئی تاریخ رقم کر سکیں گے؟ اپنی پارٹیوں سے
بھی ان کا مطلقاً کوئی فائدہ ہوگا؟ ان کی کوئی ساکھ بر قرار رہ پائے گی؟اب
فیصلہ آپ کے ہاتھوں کہ کتنی مسلم پارٹیاں مسلمانوں کے حق میں سود مند ؟۔
جتنی مسلم پا رٹیاں میدان سیا ست میں طالع آزمائی کرتی ہیں یا کریں گی ۔
تقریباً بظا ہر ان سب کا مطمع نظر علاوہ اس کے کچھ اور نہیں کہ وہ مسلمانوں
کی فلاح و بہبو د کے لئے کو شاں ہیں ۔ وہ یہی راگ الاپتے ہوئے سیاست میں
آتی ہے کہ ہمارے دلوں میں ملک و قوم کی خدمت کا دا عیہ ہے ۔ خصو صا ً
مسلمانوں کے حقوق کی پا ما لی ہمارے لئے قا بل ِ تشویش ہے ، اس کی با زیا
فت ہما را مقصود و منشور ہے ۔ شہرت و نمود اور دیگر اسبا ب وعلل ہمارے حا
شیہ خیا ل میں بھی نہیں۔ہمیں تسلم صد فیصد تسلیم کہ ان کا مطمع نظر اور
منشور در اصل وہی ہے جس کے وہ قائل ہیں ، تاہم اتنا کہنے کا حق ہمیں بہم
پہو نچتاہے کہ جب تما م مسلم سیا ستدانوں اور پا رٹیوں کے صدور کا منشا
ءمختلف نہیں ، سب ایک ہی منشورکے محور پر گھو متے ہیں ، تو کسی ایک بڑی پا
رٹی پر مکمل اعتماد کیوں نہیں کرلیتے ؟ کیوں نہیں سب ایک ہی کومنظم و
مستحکم بنا نے کی سعی کرتے ؟ کیوں کہ ایک حلقہ سے مختلف سیا ستدانوں اور
مختلف پا رٹیوں کا قیام عمل مسلم ووٹروں کو تذبذب میں ڈالتا ہے ۔ وہ کوئی
قطعی فیصلہ نہیں لے پا تے کہ کس کو ووٹ کرنا ہے ؟لہٰذا نتا ئج غیر متوقع بر
آمد ہو تے ہیں ۔سیاست کی دھما چوکڑی و ہر بونگ میں مسلمانوں کا سرمایہ پانی
کی طرح بہہ جاتا ہے ،مگر سب لاحاصل اورفضول خرچی پرمبنی ہوتاہے ۔ یہ حقیقت
ہی ہے کہ ایسے نازک حالت میں زیادہ پارٹی کے قیا م کی طرف توجہ نہ دینے پر
بلکہ ایک کو ہی مستحکم بنانے پر مسلم قوم کا بہی خواہ ہی سوچ سکتاہے ۔وہی
اپنی پا رٹی نہ اتار کر ایک پر ہی اعتماد بحال کرے گا اور اسے نہایت منظم و
مستحکم بنانے کے لئے حتی المقدور سعی بھی ۔ کیونکہ ذاتی اغراض و مقاصد
والوں کاعوام کی منہ بھر ائی اور حکومتوں کی مراعات حاصل کرنا ہی مطمع نظر
ہو تا ہے ۔ ابن الوقت اورمفاد پرست ایسی صورتحال میں از خود نمایا ں ہو ں
جائیں گے ۔ان تمام باتوں کے بعد قطعی اس کی ضرورت نہیںاس کی وضاحت کی کہ
کتنی پا رٹیاں ہو ں اور کتنی مسلمانوں کے حق میں سودمند ؟۔ |