فیض عثمانی بم دھماکوں کی زد میں
آنے سے بچ گیا تو اسے دہشت گردی کی نام پرممبئی پولس نے ہلاک کردیا۔ ممبئی
بم دھماکے کا ذمہ دار کون ہے اس کے سلسلے میں یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں
کہا جاسکتا لیکن فیض عثمانی کا قاتل کون ہے اس بارے میں کسی شک شبہ کی کوئی
گنجائش نہیں ہے ۔ پولیس ایک صحتمند آدمی کو جس کا بے گناہ بھائی تین سال سے
احمدآباد میں قیدو بندصعوبتیں برداشت کررہاہے تفتیش کی غرض سے اپنے ساتھ
تھانے لے گئی اور ایک گھنٹہ بعداسے ہسپتال میں بھرتی کر دیا گیا ۔اسکے دماغ
کی رگیں پھٹ گئی تھیں اس کے باوجود نہ ہی اسے آئی سی یو کی سہولت فراہم کی
گئی اور نہ ہی دوسرے دواخانے میں منتقل کیا گیا یہاں تک کہ وہ مظلوم اس دارِ
فانی سے کوچ کر گیا ۔ پولیس کادعویٰ ہے کہ اسے کوئی جسمانی اذیت نہیں دی
گئی ڈاکٹر لہانے کہتے ہیں کہ اس کے بدن پر کوئی زخم نہیں پایا گیا ۔اس کے
باوجودڈی جی پی اجیت پرسنس نے مسلمانوں پریہ احسان کیا کہ موت کی وجوہات کا
پتہ لگانے کیلئےسی آئی ڈی جانچ کا اعلان کر دیاگویا چوروں کا پتہ لگانے کی
ذمہ داری ڈاکوؤں کو سونپ دی گئی ۔کیا پولس کے محکمہ سے کوئی مجنون شخص بھی
یہ توقع کرسکتا ہے کہ یہ لوگ خود اپنے ہی لوگوں کے آستین پر لگے خون کے
دھبے دیکھیں گے اور انہیں عیاں کرنے کی جرأت کریں گے؟ ان احمقوں کو کون
سمجھائے کہ دماغ کی رگیں جسمانی تکلیف سے نہیں بلکہ ذہنی اذیت رسانی سے
پھٹتی ہیں اوراسی جرم کاا رتکاب ممبئی پولس نے کیا ہے ۔زبیدہ نام کی ایک بے
کس خاتون کو بیوہ اور اس کے چھے معصوم بچوں کو یتیم کرنے کا گناہِ عظیم ان
ظالموں کے سرپر ہے جس کی سزا ان کو مل کر رہے گی ۔
دھماکوں کے جال میں مسلم عوام کو کس طرح پھنسایا جاتا ہے اسکی ایک زندہ
مثال بذاتِ خود فیض عثمانی کا بھائی افضل ہے ۔افضل عثمانی کواحمدآباد کے
دھماکوں کا ذمہ دار قرار دے کر گرفتار کیا گیا لیکن جب اس کی فرد ِجرم داخل
کی گئی تو اس میں کئی قسم کے تضادات اورخامیاں سامنے آئیں دراصل جھوٹ خود
اپنے خلاف گواہی دیتا ہے ۔افضل پر سو ل ہسپتال اور ایل جی ہسپتال کے قریب
ہونے والے دھماکوں کا الزام ہے ۔سوخل ہسپتال والی چارج شیٹ ایک جگہ کہتی ہے
کہ افضل نے دو عدد ویگن آر کار کی مدد سے دھماکے کئے دوسری جگہ اسی میں درج
ہے کہ ایک گاڑی توویگن آر تھی مگر دوسری کار ماروتی ۸۰۰ تھی ۔اس کے برعکس
ایل جی ہسپتال والی چارج شیٹ کے مطابق دو ویگن آر اور ایک ماروتی کا
استعمال دھماکوں کی خاطر کیا گیا ۔ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان
دونوں مقامات پر ایک ہی شخص بیک وقت کیونکر موجود تھا جبکہ دونوں دھماکے
ایک ساتھ ہوئے ؟اور اگراس کام کو ایک سےزیادہ لوگوں نے کیا تو ان میں سے
افضل کہاں تھا اور تھا بھی کہ نہیں تھا؟ان دھماکوں میں استعمال ہونے والے
اشتعال انگیز مادے کے بارے میں بھی تضاد بیانی پائی جاتی ہے ۔
احمد آباد اور سورت میں ہونے والے دھماکوں کو بنیادی وجہ کیا تھی ؟اس سوال
کا اطمینان بخش جواب دینے میں فرد ِ جرم بری طرح ناکام ہے ۔اس چارج شیٹ میں
ویسے تو انڈین مجاہدین کی جانب سے ایک ای میل کے ذریعہ دھماکوں کی ذمہ داری
قبول کرنے کا ذکرہے جس میں کہا گیا تھا کہ دھماکے گجرات فسادت کا بدلہ لینے
کیلئے کروائے گئے لیکن چارج شیٹ کا دعویٰ اس سے مختلف یہ ہے کہ اسلامی
حکومت کو قائم کرنے کیلئے یہ دھماکے برپا کئے گئے ۔ بم دھماکوں کی وجہ بدلے
کی کاروائی تو کسی حد تک قرین قیاس ہے لیکن نظام حکومت کے قیام کی بات جس
پر فردِ جرم میں اصرار کیا گیا ہے مسلمانوں کو تو کجا ہندو دانشوروں کے گلے
سے بھی نہیں اتری ۔ماہرین کی رائے ہے کہ اس فرد ِ جرم میں اصل وجوہات پر
روشنی ڈالنے کے بجائے اشتعا ل انگیز تقاریر کرنا اور سی ڈی تقسیم کرنا جیسے
الزامات کو بلاوجہ بار بار دوہرایا گیا ہے ۔
جولائی۲۰۰۸ میں احمدآباد بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ کو سرکاری گواہ بنانے
لینے کا دعویٰ گجرات پولس نے بڑے طمطراق سے کیا تو تہلکا جریدے کی رعنا
ایوب نے کالج کےاس نوجوان طالبِ علم سے ملاقات کی اور اس گفتگو میں چند
ناقابل یقین حقائق سامنے آئے جسے ہر کوئی تہلکہ کی ویب سائٹ پر پڑھ سکتا ہے
۔ اس گواہ نے اعتراف کیا کہ وہ بم دھماکوں کی سازش اور تیاری میں شریک تھا
۔ اسے فسادات کی کیسٹ دکھلا کر اس کام کے لئے تیار کیا گیا تھا ۔ دھماکوں
میں ان کے گروہ کاسرغنہ عالم زیب تھا جو ایک بیرونی خفیہ گروہ (جس کا
احمدآباد سے کوئی واسطہ نہ تھا) کی نگرانی میں کام کرتا تھا ۔اس گروہ کا
دین ِاسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ وہ لوگ جدید طرز کا لباس پہنتے تھے اور
خوب سگریٹ پیتے تھے ۔عالم زیب نے اپنے تمام ساتھیوں کو سیمی سے خاص طور پر
دور رہنے کی تاکید کر رکھی تھی اور اس گواہ کے مطابق اگر وہ سیمی کے سابقہ
ارکان سے ملتے تو وہ انہیں اس کا روائی میں ملوث ہونے سے منع کرتے ۔
ابتدا میں ان سے کہا گیا تھا کہ سنگھ پریوار کے دفاتر اور فسادات کے مجرمین
مثلاً بجرنگی وغیرہ کو نشانہ بنایا جائیگا لیکن آخری دن اہداف کو تبدیل کر
دیا گیااور بموں کو عام مقامات پر نصب کرنے کا حکم دیا گیا جس سے بدظن ہو
کر اس گواہ نے اپنے آپ کو اس کاروائی سے الگ کر لیا اس کے باوجود پولس نے
اسے گرفتار کرکے بری طرح زدوکوب کیا اور جب وہ ٹوٹ گیا تو اسے سیمی کے سابق
ممبران کی فہرست پکڑا دی گئی جن کو موردِ الزام ٹھہرا کر اس نے اپنی گردن
چھڑائی ۔اس نوجوان نے صاف کہا کہ انڈین مجاہدین جیسی کسی چیز کا کوئی وجود
نہیں ہے ۔ایسے میں یہ سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے کہ وہ کون لوگ تھےجن کے
اشارے پر دھماکے کئے گئے اور جن کا بال بیکا نہیں ہوا ۔پولس اور انتظامیہ
نے ان کی جانب سے پوری طرح صرفِ کرتے ہوئے ان مجرمین کے بجائے کبھی انڈین
مجاہدین تو کبھی حزب الجاوہدین کے نام کا شور مچایا اور افضل و شہزاد جیسے
لوگوں کو بلی کا بکرہ بنا کر گرفتار کر لیا ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ
درمیان میں شہزاد کہاں سے آگیا؟
شہزادگجرات پولس کے کا ایک تازہ شکار ہے جسے حال میں نہایت مضحکہ خیز
اندازکے اندرگرفتار کرلیا گیا ۔ ممبئی کے حالیہ بم دھماکوں کے دودن بعد
احمدآباد پولس نے شہزاد رنگریز کواحمدآباد میں ڈانی لمڈا نامی مقام سے دس
بموں کے ساتھ گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا پولس کے مطابق اس نے یہ بم رتھ
یاترا کے وقت دھماکہ کرنے کی غرض سے بنائے تھے لیکن سخت انتظامات کے باعث
وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکا ۔ممبئی کے بم دھماکوں نے اس کے حوصلوں
کو بلند کر دیا تھا ۔اس بار پھر دھماکوں کی کوئی معقول وجہ ندارد ہے ۔نہ تو
ممبئی پولس اور نہ ہی گجرات اس سوال کا کوئی اطمینان بخش جواب دے پارہی ہے
۔ اسکے باوجود ذرائع ابلاغ ان بے سر پیر کی خبروں کو زور شور سے اچھالنے
میں لگا ہوا ہے ۔
شہزاد کی گرفتاری کی کہانی بھی نہایت دلچسپ ہے ۔ہو ایوں کہ شہزاد اپنی
دوسری بیوی ریشماں کے پاس رات شراب پی کر آیا تو میاں بیوی کے درمیان لڑائی
ہو گئی ریشماں اپنے شوہر کی شکایت لے کر پولس تھانے پہنچی تو پولس نے شہزاد
کو سبق سکھلانے کے عوض ریشماں کو شہہ دی کہ وہ شہزاد پر بم بنانے کا الزام
تھوپ دے۔اپنے خصم سے ناراض ریشماں پولس کے جھانسے میں آگئی اوررپورٹ درج
کرائی کہ شہزاد نے اسے بم سے اڑا دینے کی دھمکی دی اور اس طرح اسے پتہ چلا
کہ شہزاد کے پاس بم ہے ۔ پولس نے چھاپہ مارکر ایک بم اسی کمرے سے بر آمد
کر لیا جس میں ریشماں رہتی لیکن اسے اس بم کے بارے میں لڑائی سے پہلے پتہ
نہ تھا۔یہ ایک ایسی احمقانہ بات ہے کہ بالی ووڈ والے بھی اسے بتلانے کی
جرأت نہیں کر سکتے لیکن ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں سب کچھ کھپ جاتا ہے ۔
پولس شہزاد نامی شرابی کو انڈین مجاہد قرار دے دیتی ہے اور اخبارات میں
اسکی تصاویر چھپ جاتی ہیں ۔ پولس کے مطابق اس کے گھر پر ایک اور چنڈولہ
جھیل کے کنارے سات بم و دیگر سازوسامان پکڑا گیا جن کی مددسے شہزاد بم
بناتا تھا ۔دو دن بعد پولس نے یونس نامی ایک شخص کو گرفتار کیا اس پر الزام
ہے کہ اس نے یہ بم شہزاد کو دئیے تھے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بم کس
نے بنائے یونس نے یا شہزاد نے؟ پولس نے ریشماں کی تعریف میں یہاں تک کہہ
دیا اس نے چار سال قبل بھی ایک بنگلہ دیشی کی مدد سے شہزاد کے بم بنانے کی
اطلاع پولس کو دی تھی اگر یہ صحیح ہے تو پولس نے شہزاد کی نگرانی کیوں نہیں
کی اور اس کو دوبارہ بم بنانے سے قبل گرفتار کیوں نہیں کیا؟
دنیا بھر میں تو یہ ہوتا ہے کہ کئی دھماکوں کو ذمہ داری کسی ایک تنظیم کے
سر تھوپ دی جاتی ہے ویسے اس صورتحال کو بالکل بھی خارج از امکان قرار نہیں
دیا جاسکتا کہ کوئی ایک تنظیم مختلف دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہو
مثلاً سی آئی اے یا موساد جنکی دہشت گردی کا شمار مشکل ہے لیکن ہندوستان کو
اس سے بر عکس یہ سعادت حاصل ہے کہ یہاں ایک ہی دھماکے کی ذمہ داری مختلف
لوگوں کے سر تھوپ دی جاتی ہے اور ان حیرت انگیزواقعات پر کسی کو تعجب نہیں
ہوتا ۔اس طرح کے واقعات کی ایک مشہور مثال تو ۲۰۰۶ میں ہونے والا وارانسی
کا دھماکہ ہےجس کے الزام میں انتظامیہ نے پھولپور اعظم گڑھ کے ولی اللہ کو
سرغنہ قرار دے کر اپریل۲۰۰۶ میں گرفتار کر لیا۔اس واقعہ کے ایک ماہ بعد
باغپت کے رہنے والے ابوزبیر کپوارہ میں ہلاک کرکے یہ دعویٰ کر دیاگیا کہ
وارانسی بم دھماکے کا اصل مجرم وہی تھا اوروہ فرار ہو کر پاکستان جارہا تھا
کہ پولس مڈ بھیڑ میں مارا گیا ۔ان دونوں متضاد خبروں کو ذرائع ابلاغ بے
دھڑک شائع کرتا رہا کسی نے رک پوچھنے کی زحمت نہیں کہ آخر سچ کیا ہے؟
ولی اللہ کے اہل خانہ ان کے معصوم ہونے کی دہائی دیتے رہے اور وکلاء نے ان
کےخلاف محاذ آرائی شروع کردی ۔عدالتی دہشت گردی کا یہ عالم تھا کہ کسی وکیل
کو ان کی پیروی کی اجازت نہیں تھی جو کوئی آگے آتا تو اسے دھمکی دی جاتی
بلکہ ایک مرتبہ عدالت کے احاطے میں وکلاء نے ملزم پر حملہ بھی کر دیا ۔
دوسری جانب فاسٹ ٹریک عدالت میں پولس انسپکٹر ترپاٹھی مسلسل آٹھ پیشیوں میں
حاضر نہیں ہوئےیہاں تک کہ جج نے ولی اللہ کو رہا کرنے کی دھمکی دے دی تب
جاکر مقدمہ آگے بڑھا ۲۰۰۸میں ولی اللہ کو ملک سے بغاوت جیسے سنگین الزامات
سے بری کر دیا گیا مگرغیر قانونی اسلحہ رکھنے اور سازش کرنے کا الزام لگا
کر دس سال کی سزا پھر بھی سنائی گئی ۔ اس مقدمے کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے
مسلمانوں کے ساتھ پولس اور انتظامیہ کس طرح کا معاملہ کرتا ہے ۔جن الزامات
کا اعتراف اسیمانند کر چکا ہے آج بھی ان کے کیلئے انڈین مجاہدین اور حرکت
الجہاد کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے ۔اس سے زیادہ افسوسناک بات اور کیا
ہو سکتی ہے کہ کرنل پروہت اور سادھوی پرگیہ کے خلاف اس قدر شواہد کے موجود
ہونے کے باوجود بے گناہ مسلم نوجوانوں کو ہنوزرہائی سے محروم ہیں۔
سیاسی جماعتیں اور انتظامیہ اپنی گوناگوں مفادات کے پیش نظر دھڑلے کے ساتھ
اس طرح کا ظلم و زیادتی کرتےرہتے ہیں اس لئے کہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ عوام
کی یادداشت پوری طرح غارت ہوچکی ہے انہیں ماضی کی کوئی بات یاد نہیں رہتی
اور وہ ہر قسم کی کذب بیانی پر ایمان لانے کیلئے وہ ہر دم تیار بیٹھے ہیں
ورنہ یہ نہ ہوتا کہ جس روز فیض عثمانی کا بہیمانہ قتل ہوا اس روز ممبئی کے
سب سے بڑے اور معتبر سمجھے جانے والے اخبارٹائمز کے ٹیلی ویژن چینل سے حرکت
الجا د کے جنوبی ہند کےنام نہادکماندار محمد یوسف کا اقبالیہ بیان نشر ہو
رہا ہوتا ۔ اس شخص کو ڈیڑھ سال قبل گرفتار کیا گیا اور ۲۰ جنوری۲۰۱۰ کو یہ
فلم ٹائمزناؤ سے نشر ہو چکی ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اقبالیہ بیان کی
فلم ٹائمز کو ملی کیسے ؟ پولس نے اسے کیوں ذرائع ابلاغ کے حوالے کیا؟ اور
اس فلم میں جس شخص کو دکھلایا گیا وہ کون ہے؟ اور گزشتہ ڈیڑھ سالوں کے
درمیان اس کا مقدمہ کہاں تک پہنچا ؟ یہ سب بتلانے کے بجائے اسے اس طرح نشر
کیا جارہاتھا گویا موجودہ دھماکوں میں اس شخص کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ اس کے
علاوہ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اچانک اس طویل عرصے کے بعد ٹائمز کو اس
فلم کو نشر کرنے کا خیال اس موقع پر کیوں آیا نیز اس عرصے میں سنگھ پریوار
کے جن دہشت گردوں نے جھوٹ پکڑنے والی مشین کے آگے بیانات دئیے ہیں پولس
انہیں ذرائع ابلاغ کے حوالے کیوں نہیں کرتی اور ٹائمز والے ایسے مواقع پر
سوامی اسیمانند کا اقبالیہ بیان کو کیونکر پوری طرح بھلا دیتے ہیں ۔ اسے
بھی نشر کرکے اپنے غیر جانبدار ہونے کا ثبوت کیوں پیش نہیں کیا جاتا ؟ یہ
تمام سوالات اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ نام نہاد آزاد میڈیا دولت
کی غلامی میں اندھا ہوچکا ہے اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے
۔بقول شاعر
حادثہ شہر میں کل تو کوئی ایسا نہ ہوا
یہ تواخبار کے دفتر کی خبر لگتی ہے
ٹائمز ناؤ کی ایک صحافی اس روز بہار کے کشن گنج ضلع میں پاؤ کھالی نام کے
گاؤں میں بھی پہنچ گئی جہاں ریاض السرکار نامی بنگلہ دیشی کوبم دھماکوں
میں ملوث ہونے کے شبہ میں پولس نے گرفتا ر کرلیا اس صحافی ریاض کے مکان
مالک مہتاب عالم کا انٹرویو نشر کیا ۔ ریاض السرکار کے بارے میں بتلایا گیا
کہ وہ حرکت الاہرد سے تعلق رکھتا ہے اور پولس اس کے انڈین مجاہدین اور سیمی
سے تعلقات کا پتہ لگا رہی ہے ۔ ویسے ریاض اپنے آپ کو ہندوستانی بتلاتا ہے۔
اسے ہندی اور انگریزی کے علاوہ کنڑزبان پر بھی ملکہ حاصل ہے اورپولس کے
مطابق اسکی ڈائری میں مراٹھی زبان کے اندراجات بھی پائے گئے ہیں۔ یہ کیسا
بنگلہ دیشی ہے جو بنگلور اور ممبئی جیسے شہروں میں رہنے بعد کشن گنج میں جا
بسا ہے؟ جبکہ اسکے نشانے پریہی بڑے شہر ہیں ۔
رات گئے تک ٹائمز ناؤ کی یہ اوٹپٹانگ خبریں دیکھتے دیکھتے میری آنکھ لگ
گئی تو خواب میں۲۶ نومبر کوممبئی شہر پر ہونے والے حملے کی فلم چل پڑی میں
نے دیکھالیوپولڈ کیفے سے دہشت گرد بیئر کی کئی بوتلیں چڑھا کر باہر نکلے
اور سی ایس ٹی ریلوے اسٹیشن پر آکر اندھا دھند گولیاں برسانے لگے اس کے
بعد وہ باہر آکر ٹائمز کی عمارت میں گھس گئے اور ٹائمز ناؤ کے دفتر کو
تہس نہس کر ڈالا ۔میں خواب میں ٹیلی ویژن کا چینل بدل کرآج تک پرجا
پہونچاجہاں شوخ او چنچل انامیکا ٹائمز کی تباہی پر افسوس کا اظہار کر رہی
تھی۔ ٹائمز والوں نے اس حملے کے بعد اپنی نشریات ہمیشہ کیلئے بند کرنے کا
فیصلہ کر لیا تھا۔اس خبر کو سناتے وقت انامیکا کا چہرہ خوشی سے تازہ گلاب
کی مانند کھل گیا تھا۔ اس خبر پر تبصرے کی خاطر انامیکا نے فون سے آندھرا
کے جنگلوں میں بیٹھے نکسلی رہنما تنگا راؤ سے رابطہ قائم کیا جن کی کردار
کشی حال ہی میں ٹائمز ناؤ چینل نے کی تھی ۔جب ان سے ٹائمز کے بند ہو جانے
اپنی رائے کا اظہاردینے کیلئے کہا گیا تو تنگا راؤ بولے‘‘ یہ تو گینگ وار
ہے۔ کرائے کے صحافی جو مائک ہاتھ میں لے کر ہر روز عوام کواپنی دہشت گردی
کا شکار کرتے ہیں بالآخر وہ کرائے کے دہشت گردوں کے ہاتھ مارے گئے۔ معمولی
سے توقف کے بعد تنگا راؤ نے آگےکہابھئی میں تو پیپلس وار کا آدمی ہوں
مجھے اس گینگ وار میں نہ کوئی دلچسپی ہے اور نہ اس پر کسی قسم کا افسوس ہے
۔اچانک میری آنکھ کھلی تومیں نے اپنے آپ کو ٹٹولا مجھے بھی کوئی افسوس
نہیں تھا اورمجھے یقین ہے کہ جب عوام کی آنکھ کھلے گی تو اسے بھی کوئی
افسوس نہیں ہوگا ۔ |