شگر، ضلع اسکردو کی ایک حسین وادی ہے، جہاں خوب صورت اور
دل کش قدرتی مناظر، سر بہ فلک پہاڑ ، دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹیاں،
لہلہاتے کھیت، قدرتی چشمے اور پہاڑی جھرنے سیاحوں کو اپنی گرفت میں لے لیتے
ہیں۔ یہ سطح سمندر سے 7600فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس کے شمال کی طرف دنیا
کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اور برفانی گلیشیر واقع ہیں۔ اس کی سرحدیں
مشرق میں خپلو، مغرب میں سوندر، نگر اور گلگت، جنوب میںاسکردواور شمال میں
چین سے ملتی ہیں۔ وادی شگرتک پہنچنے کے لیےسیاّح پہلے اسلام آباد جاتے
ہیں، جہاں سے ہوائی جہاز کے ذریعے گلگت پہنچتے ہیں لیکن اکثریت شاہراہ
قراقرم کے ذریعےزمینی سفر کو ترجیح دیتی ہے۔ اس سڑک پر سفر کرنا بھی ایک
دلچسپ تجربہ ہوتا ہے۔بل کھاتے اور عمودی صورت میں افق کی جانب اٹھتے ہوئے
پہاڑی راستے، اندھے موڑ، قدم قدم پر گہرے کھڈ اور کھائیاں، لینڈ سلائڈنگ،
کی وجہ سے یہ سفر ہیبت ناک لگتا ہے لیکن مذکورہ شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے
وادی شگر تک ،حسین اور دل فریب مناظر فطرت ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اسلام
آباد سے سفرکے دوران، پشاور روڈ پر 48کلومیٹر کے فاصلے پرحسن ابدال آتا
ہے جو سکھوں کے مقدس مقام گردوارہ پنجہ صاحب کی وجہ سے عالمی شہرت کا حامل
ہے۔ اس سے دائیں جانب سفر کرتے ہوئےحویلیاںآتا ہے۔ یہاں سے شاہراہ قراقرم
کی حدود شروع ہوتی ہیں۔ اس کے بعد ایبٹ آباد اور پرفضا مقام ٹھنڈیانی آتا
ہے، جہاں سے ایک خوب صورت گزرگاہ نتھیا گلی سے ہوتی ہوئی مری کی جانب جاتی
ہے۔ ایبٹ آباد سے 26کلومیٹر کے فاصلے پر صنوبر کے درختوں میں گھرا ہوا
مانسہرہ کا شہر ہے۔ اس سے 100کلومیٹر کی مسافت پر بٹ گرام کے بعد تھاکوٹ کا
عظیم الشان پل آتا ہے جو دریائے سندھ پر اس شاہراہ کا پہلا پل ہے۔ تھاکوٹ
سے عظیم دریائے سندھ بل کھاتا ہواشاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ گلگت تک
بہتاہے۔ یہاں سے آگے بعض مقامات پر دریائے سندھ اور سڑک کے درمیاں گہرائی
اتنی بڑھ جاتی ہے کہ یہ عظیم دریا نشیب میں بہتا ہوا ایک پتلی سی لکیر کی
مانند نظر آتا ہے۔ تھاکوٹ کے بعد 28کلومیٹر کے فاصلے پر بشام کا قصبہ
آتا، یہاں پر سڑک سے ایک تاریخی قلعہ کے آثار بھی نظر آتے ہیں۔
بشام کے بعد پٹن، کومیلا اور سازین کے دشوار گزار علاقے آتے ہیں، جن سے
گزر کر دریائے سندھ کے دونوں طرف آباد ضلع کوہستان میںپہنچتے ہیں۔ یہاں کے
لوگ اپنے روایتی لباس زیب تن کیے روزمرہ کےمعمولات نمٹاتے نظر آتے ہیں۔
کوہستان کا علاقہ بھی حسین قدرتی مناظر سے مالامال ہے اور لکڑی سے بنے
گھراور دوکانیں عجب سماں پیش کرتے ہیں۔ کوہستان میں جگہ جگہ، بلندیوں سے
نشیب کی جانب بہتے ہوئے ندی، نالے سفر کوخوش گوار بناتے ہیں۔ کوہستان کے
بعد چلاس آتا ہے۔ یہ علاقہ خشک اور بنجر پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ پہاڑی
بلندیوں پر مختلف مقامات پر سرسبز چراہ گاہیں ہیں ، جہاں یاک ، مارخور اور
دوسرے چوپائے پھرتے ہوئے نظر آتے ہیںلیکن شاہراہ قراقرم کے ساتھ کا زیادہ
ترعلاقہ بھورے رنگ کے پتھریلے پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ یہاں قدیم دور میں
پتھروں پر کھدائی کر کے بنائی گئی مختلف تصاویر اور تحریریں موجود ہیں۔ یہ
اشکال اس تاریخی راستے سے گزرنے والے تاجروں، فوجیوں اور مختلف مذاہب کے
پیروکاروں نے بنائی تھیں۔ انسانوں اور جانوروں کی تصاویر، تکونی اورگولائی
کی صورت میں ہیں، جن کی وجہ سے یہ چٹانیں زیادہ تر سیاحوں کی دلچسپی کا
باعث ہیں۔ چلاس کے قصبے کو دیامرکا نام بھی دیا گیا ہے اور اس کی وجہ دیامر
نامی بلند پہاڑی چوٹی ہے جس کا شمار دنیا کی بلند چوٹیوں میں ہوتا ہے۔سطح
سمندر سے بلندی کے لحاظ سے اس کا نمبر نواں ہے لیکن یہ دنیا کی سب سے
خطرناک اور مشکل چوٹی ہے۔ شاہراہ قراقرم سے اس چوٹی کا منظر دیکھنے سے تعلق
رکھتا ہے۔رائی کوٹ کا پل اس سڑک کاوہ مقام ہے جہاں سے نانگاپربت اور فیری
میڈوز جانے کے لئے جیپیں ہروقت ملتی ہیں۔
چلاس کے بعد گلگت کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس کا پہلا قصبہ جگلوٹ ہے جو
شاہراہ قراقرم کا ایک اہم مقام ہے، جہاں سے استور، دیوسائی ، بلتستان اور
نانگاپربت کے راستے نکلتے ہیں۔ اسی جگہ عین شاہراہ قراقرم پر ایک ایسا مقام
بھی ہے جہاں دنیا کی تین عظیم ترین پہاڑی سلسلوں کا سنگم ہے۔ ایک سفید رنگ
کی یادگار اس جگہ پر قراقرم ، ہمالیہ اور ہندوکش کے ملاپ کی نشاندہی کے لئے
تعمیر کی گئی ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے اس مقام پر کھڑے ہو کر تینوں پہاڑی
سلسلوں کو بیک وقت دیکھا جا سکتا۔ یہاں سے ایک سڑک، جو گلگت اسکردو روڈ کے
نام سے مشہور ہے، شاہراہ قراقرم سے الگ ہو کر بلتستان کی طرف جاتی ہے، جہاں
مہم جو حضرات کی دل چسپی کے لیے بے شمار مقامات موجود ہیں، جن میں ٹریکنگ
اور اسکیٹنگ کی جاتی ہے۔ اسکردو کے مقام سے متصل شگر کی وادی واقع ہے جو
وادی کے صدر مقام اشکول تک 170 کلومیٹرکے رقبے پر محیط ہے۔ یہاں کوہ قراقرم
کی طرف جانے والا ایک پہاڑی ٹریک بھی ہے۔ شگر پہلے ضلع ا سکردو کے زیر
انتظام قصبہ تھا لیکن اب یہ خود ایک انتظامی ضلع بن گیاہے۔گلگت بلتستان کی
اس جنت نظیر وادی کا نام دریائے شگر کی مناسبت سے رکھا گیا ہے جو وادی کے
درمیان بہتا ہے۔ دریائے شگر کا پانی بلتورو اور بیافو گلیشیر کے پگھلنے سے
حاصل ہوتا ہے، یہ دریائے سندھ کا ایک معاون دریا بھی ہے جو وادی ا سکردو کے
مقام پر اس دریا میں مل جاتا ہے۔ اسکے کے علاوہ اس وادی کو دو اور معاون
دریا سیراب کرتے ہیں جو باشو اور برالڈو کے نام سے معروف ہیں۔
شگر مل علاقائی سینٹر ہے جہاں اسپتال، کالج، ہائی اسکول واقع ہیں ۔ دریائے
شگر کے دونوں جانب پرفضا قصبے ہیں جن میں چھورکاہ، الچوڑی، وزیر پور، گلاب
پور تسر باشہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔شگر سے تقریبا 30 کلومیٹر کے فاصلے پر
مشرق کی سمت پہاڑی نالوں کو عبور کرنے کے بعد ایک ہرے رنگ کا پہاڑ ہے جسے
مقامی زبان میں پزول کہتے ہیں۔اس کے رنگین چٹانی پتھر عام پتھروں کی نسبت
نرم ہوتے ہیں جن کی مدد سے مختلف اقسام کے برتن اور گھروں کے لیے آرائشی
اشیا بنائی جاتی ہیں۔مذکورہ پتھر سے بنے ہوئے برتنوں کی سب سے اہم خاصیت یہ
بتائی جاتی ہے کہ اگر ان میں زہر ملا کر کھانا ڈالا جائے تو یہ کھانا خود
بہ خود ابلنے لگتا ہے اور زہر کا اثر زائل ہوجاتا ہے۔ اگر کسی شخص کو
زہریلی شے کھلا دی جائے یا اسے سانپ ڈس لے تو اس پتھر کے ٹکڑے زہرہ مہرہ کی
صورت میں اس کے تریاق کا کام کرتے ہیں۔ مذکورہ شخص کے جسم میں زہر پھیلنے
سے قبل اس پتھر کا ٹکڑا پیس کرپانی میں حل کر کے متاثرہ شخص کو پلادیا جائے
تو قے ہونےکے بعد سارا زہر باہر نکل جاتا ہے اور وہ صحت یاب ہوجاتا ہے۔
وادی کے مقامی افراد بلتی زبان بولتے ہیںجس کے بارے میں مشہور ہے کہ مذکورہ
زبان تبتی زبان کی ایک قدیم شکل ہے جب کہ اردو اور انگریزی کو بھی ثانوی
حیثیت حاصل ہے۔یہاں کی آبادی مختلف رنگ و نسل کے افراد پر مشتمل ہے، جن
میں تبتی، منگولین، انڈو ایرانیان اور وسط ایشیا کے لوگ قابل ذکر ہیں- اس
وادی کے لوگ مہمان نواز، بہادر اور جفاکش ہیں۔ ان کا پیشہ کاشت کاری اور
مویشی پالنا ہے۔ آبادی کے بہت کم لوگ ملازمت کرتے ہیں۔وادی شگر سے
آگے،وہاں کی خانقاہِ معلیٰ ہے جس کے صحن میں سینکڑوں برس قدیم چنارکے درخت
ہیں جو ایک خواب ناک منظر پیش کرتے ہیں۔ یہاں کے قابل دید مقامات میں
17ویںصدی میں تعمیر کردہ ایک خوب صورت قلعہ ہے ۔ اسے وادی شگر کے اماچہ
خاندان کے راجہ نے تعمیر کرایا تھا۔جسے مقامی زبان میں ’’فونگ خار قلعہ‘‘
کے نام سے پکارا جاتا ہے، اردو میں اس کے معنی ’’چٹانی محل‘‘ کے ہیں۔ اب
مذکورہ قلعے کو ایک رہائشی ہوٹل میں بدل دیا گیا ہے لیکن اس کے ایک حصے میں
عجائب خانہ بنایا گیا ہے۔یہاں کے دیگر قابل دید مقامات میں بدھا کی چٹانیں،
سدپارہ، امر کچورجھیل، شانگل جھیل اور دیوسائی کا سطح مرتفع شامل ہیں۔
یوں تو پوری وادی شگرسر سبز میدانوں، لہلہاتے کھیتوں، برف پوش پہاڑی
چوٹیوں، پھلوں سے لدے باغات ، خوش رنگ اور مہکتے پھولوں، بلند و بالا سلسلہ
کوہ کی وجہ سے ایک دیومالائی سرزمین لگتی ہے ۔ اس میں کئی گاؤں آباد ہیں،
جن میںاستک، ٹارمک، اسکورو، باشو اور برالڈو قابل ذکر ہیں۔ باشو کی وادی
شگر ضلع کی سب سے طویل وادی ہے جو اشکول کے مقام سے شروع ہوتی ہے اوربرالڈو
کے پارک سے گزرتی ہوئی ہاراموش گلیشیر کے اختتام پر شگر اسپیٹنک کی چوٹی سے
چند کلومیٹر آگے جاکر اس کا اختتام ہوتا ہے۔دوسرے نمبر پر برالڈو کی وادی
ہے، جو دریائے برالڈو اور بلتورو گلیشیر کےساتھ واقع ہے۔ اس وادی کو سیاحوں
میں خاصی مقبولیت حاصل ہے کیوں کہ یہاں دنیا کی 8000فٹ سے زائد چاربلند
چوٹیوں کا بیس کیمپ بھی ہے، اس لیے ٹریکنگ کے شائقین اور کوہ پیماؤں کے
لیے یہ علاقہ پرکشش حیثیت رکھتا ہے۔ اسٹیک وادی کا شمار شگر کی مختصر
وادیوں میں ہوتا ہے۔ یہاں کی زمین اور پہاڑ سر سبز گھاس،لہلہاتے کھیتوں اور
باغات سے ڈھکی ہوئی ہے۔
وادی شگر اپنے رسیلے اور ذائقہ دار پھلوں کے حوالے سے بھی مشہور ہے اور
وادی کے زیادہ تر رقبے میں خوبانی، سیب، ناشپاتی، انگور، آلوبخارا اور
شہتوت کے باغات لگے ہوئے ہیں۔ یہاں کے جنگلات میں مختلف اقسام کی قیمتی جڑی
بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں، جن سے ادویات تیار ہوتی ہیں۔ وادی کے پہاڑ بھی
قدرتی عطیات سے مالامال ہیں۔ ان میں سلاجیت، سنگ خارا، سنگ مرمر، سونے،
نیلم، فیروزہ اور پھٹکری کے ذخائر موجود ہیں۔ مختلف مقامات پر گرم چشمے بھی
ہیں جن میں چھون اور سہل مشہور ہیں۔ ان چشموں کا پانی مختلف جلدی امراض کے
لیے شفا بخش ہے۔ وادی میں ٹریکنگ کے لیے جون، جولائی اور اگست کے مہینے
سازگار ہوتے ہیں۔ اس دوران پوری وادی سیاحوں سے بھری ہوتی ہے۔
|