کوئٹہ ' بغیرپانی کے بانجھ شہر
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشاور سے کوئٹہ کا سفر اگر گاڑی میں ہوں اور رات کا سفر ہوںتو پتہ تو نہیں چلتا کیونکہ بیشتر بڑے شہروں کے مابین چلنے والی گاڑیوں کے مابین ریس لگی ہوتی ہیں اور مسافر سیٹوں کے مابین اتنا سامان ڈال دیا جاتا ہے کہ اگر کہیں پر گاڑی رک جائے تو مسافر کو گاڑی سے نکلتے ہوئے بھی پندرہ منٹ لگتے ہیں کیونکہ سامان کو پھلانگ کر جانا بڑا مسئلہ ہوتا ہے اور ہاں اگر کہیں پر کھانے کیلئے گاڑی روک دی جائے تو مخصوص ہوٹلوں پر گاڑی روک دی جاتی ہیں جہا ں ڈرائیور او ر کنڈیکٹر کو تو وی آئی پی پروٹوکول ملتا ہے لیکن گاڑی کے مسافر "دا قربانی گڈے وی"یعنی قربانی کے بکرے ہوتے ہیں" جنہیں ہوٹل مالکان اپنی مرضی سے ذبح کرتے ہیں.شائد خیبر پختونخواہ فوڈ اتھارٹی کی رسائی وہاں تک نہیں یا پھر اس ادارے کے اہلکاروں کو سڑک کنارے بننے والے ان ہوٹلوں کے بارے میں معلومات ہی حاصل نہی |
|
اگرآپ کسی جگہ پر مہمان ہوں اور کھانے کا پروگرام چل رہا ہو لیکن کھانے کے دوران پانی دستیاب نہ ہوں اور جب پانی کی ڈیمانڈ کی جائے تو جواب ملے کہ پانی کی سپلائی کرنے والے ٹینکر کو پویلس نے پکڑ لیا ہے اور پانی کیلئے انتظار کریں ایسے میں اگر کا نوالہ پھنسا ہوا ہو تو اسے کس صورتحال کا سامنا ہوگایہ تو نوال پھنسنے والے افراد ہی بہتر بتا سکتے ہیں لیکن کوئٹہ میں گذشتہ دنوں پیش آنیوالے واقعے میں جس میں راقم بھی موجود تھا نے راقم کو پانی کی اہمیت مزید بڑھا دی ہے تقریبا یہی صورتحال پورے کوئٹہ کی ہیں جہاں پر پانی کی شدید قلت ہے گذشتہ دنوں کوئٹہ کے بیوٹم یونیورسٹی میں آٹھویں نیشنل آرچری چیمپئن شپ کی کوریج کیلئے جانے کا اتفاق ہوا.اور یوں اندازہ ہوا کہ کوئٹہ میں پانی کی قلت سے چلنے والی خبروں میں کتنی حقیقت ہے. پشاور سے کوئٹہ کا سفر اگر گاڑی میں ہوں اور رات کا سفر ہوںتو پتہ تو نہیں چلتا کیونکہ بیشتر بڑے شہروں کے مابین چلنے والی گاڑیوں کے مابین ریس لگی ہوتی ہیں اور مسافر سیٹوں کے مابین اتنا سامان ڈال دیا جاتا ہے کہ اگر کہیں پر گاڑی رک جائے تو مسافر کو گاڑی سے نکلتے ہوئے بھی پندرہ منٹ لگتے ہیں کیونکہ سامان کو پھلانگ کر جانا بڑا مسئلہ ہوتا ہے اور ہاں اگر کہیں پر کھانے کیلئے گاڑی روک دی جائے تو مخصوص ہوٹلوں پر گاڑی روک دی جاتی ہیں جہا ں ڈرائیور او ر کنڈیکٹر کو تو وی آئی پی پروٹوکول ملتا ہے لیکن گاڑی کے مسافر "دا قربانی گڈے وی"یعنی قربانی کے بکرے ہوتے ہیں" جنہیں ہوٹل مالکان اپنی مرضی سے ذبح کرتے ہیں.شائد خیبر پختونخواہ فوڈ اتھارٹی کی رسائی وہاں تک نہیں یا پھر اس ادارے کے اہلکاروں کو سڑک کنارے بننے والے ان ہوٹلوں کے بارے میں معلومات ہی حاصل نہیں. پشاور سے کوئٹہ ' کراچی یا دیگر شہروں کو جانیوالی گاڑیوں میں یاتو مسافر نہیں ہوتے اور اگر ہوں بھی تو مالکان کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ مسافر کس حالت میں ہیں بس گاڑی کے درمیان والی سیٹوں میں کمبل ڈال کر سو جاتے ہیں او ر اس کیلئے موقف یہ پیش کیا جاتا ہے کہ جی ڈرائیور اور کنڈیکٹر نے ڈیوٹی کرنی ہے اور آپ کو حفاظت سے پہنچانا ہے اس لئے دوسری شفٹ میں سونے والے ڈرائیور کی نیند کا خیال کریں. انہیں اس سے کو ئی غرض نہیں کہ ان کے لیٹنے سے مسافروں کو کتنی مشکلات پیش آتی ہیں آنے جانے میں اور خصوصا خواتین مسافروں کو ' جنہیں گاڑی کے درمیان پڑے ڈرائیور اور کنڈیکٹروں کو پھلانگنا پڑتا ہے. پشاور سے کوئٹہ تک کے سفر میں رات گئے کم و بیش چار سے زائد جگہوں پر سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں نے روکا ' شناختی کارڈ طلب کیا ' ان سیکورٹی اہلکاروں کا رویہ مسافروں کیساتھ ایسا تھا جیسے ایران کے راستے ترکی اور وہاں سے یورپ جانے کے خواہشمند ہوں ' ان سیکورٹی اہلکاروں کا رویہ اور پھر شناختی کارڈ طلب کرکے سوال و جواب کرنا ایسا لگ رہا تھا کہ یہ مسافر کہیں غیر قانونی طور پر جارہے ہوں ' داڑھی والے مسافروں کیساتھ ان کا رویہ بہت ہی خصوصی تھا جیسے سارے دنیا میں دہشت گرد صرف داڑھی والے ہی ہوں.اورحیرانگی کی بات یہ ہے کہ جو بھی سیکورٹی اہلکار گاڑی میں تلاشی کے نام پر داخل ہوا اس نے کنڈیکٹر اور ڈرائیور سے لازما سوال کیا کہ ایک مسافر کیلئے سیٹ چاہیے ' جواب اگر نفی ملا تو پھر سیکورٹی اہلکاروں کی سختی ' اور اگر انہیں جواب دیا کہ جگہ نہیں یا پھر سیٹ نہیں تو پھر کیا ہی بات ہے. شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد بھی پوچھتے ہیں کس لئے جاتے ہوں ' بھائی پاکستان ہے اگر کوئی روزگار کیلئے جاتا ہے ' چکر کیلئے جانا چاہیے تو اسے کیا بھارت کی طرح اپنے ہی ملک میں لیٹر جمع کرانا ہوگا.خیبر پختونخواہ کی حدو د میں کالے ورد ی والے ایف سی اہلکار تو پھر بھی بہتر تھے لیکن بلوچستان کی حدود میں شامل ہونے کے بعد وردی والے سیکورٹی اہلکارآسمانی مخلوق ہے جس کے سامنے ہر کوئی جی جی تو کرتا ہے لیکن پیٹھ پیچھے کیا باتیں ہوتی ہیں یہ ان اہلکاروں کے منہ پر طمانچہ بھی ہیں. پشاور سے شام چار بجے شروع ہونیوالا سفر دوسری صبح چھ بجے کوئٹہ کے شہر پر اختتام پذیر ہوا لیکن اڈے میں پہنچ کر پتہ چلا کہ یہاں بھی ماشاء اللہ لوڈشیڈنگ جاری ہے ' جس اڈے پر اترے تھے وہاں پر نماز کیلئے وضو کرنے پر بھی دس سے بیس روپے وصول کئے جارہے تھے نماز پڑھ کر پتہ چلا کہ کوئٹہ شہر میں دسمبر میں چلنے والی ہوائیں کس طرح جسم میں سوراخ کرتی ہیں.کوئٹہ کے خشک پہاڑوں سے نکلنے والی سورج اور سڑک کو دیکھ کر پہلا لفظ جو ذہن میں آیا وہ بانجھ کا تھا جو اگلے ایک ہفتے میں ثابت بھی ہوا.ٹریفک کو کنٹرول کرنے والے تمام سڑکوں کے اہلکار ماشاء اللہ صحت مند ہیں اتنے صحت مند کہ سمجھ نہیں آتا کہ انہوں نے اپنے موٹے اور بھرے پیٹ کو کس طرح بیلٹ سے کنٹرول کیا . اڈے سے ایوب سٹیڈیم کا سفر کس طرح ہوا یہ الگ داستان ہے لیکن یہاں آکر پتہ چلا کہ 1961میں بننے والے اس سٹیڈیم میں کرکٹ ' فٹ بال ' بیڈمنٹن ' والی بال سمیت ہر قسم کے کھیلوں کی سہولیات کیلئے میدان تو موجود ہیں لیکن صفائی کی صورتحال انتہائی ابتر ہے مین گیٹ سے لیکر مختلف گرائونڈ پربلوچستان کے نامی گرامی سیاستدانوں کے نام ہیں لیکن . لڑکے ایوب سٹیڈیم کے مین گیٹ پر گندگی کے ڈھیروں پر کھیلنے میں مصروف تھے. انہیں دیکھ کر سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی انتظامیہ کو دل ہی دل میں شاباش بھی دی کہ کم از کم اس طرح کی صورتحال پشاور میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں نہیں .مسائل یہاں بھی ہیں مگر کم از کم صفائی اور انتظامات کے حوالے سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ نمبر ون کی پوزیشن پر ہیں.جس کا اعتراف نہ کرنا ظلم ہوگا . کوئٹہ میں ہماری رہائش کا عارضی انتظام پی ایس بی کے ہاسٹل میں کیا گیا تھا جہاں پر ٹوٹے پھوٹے بیڈ ' بدبودا ر اور گندگی سے بھرے میٹریس ہی تھی ساتھ میں پورے ہاسٹل میں سوئی گیس اتنی بدبو تھی کہ دماغ پھٹا جارہا تھا لیکن کسی کو اس کی پروا تک نہیں تھی یہ تو شکر ہے کہ ہمارے انکار کے بعد میزبان نے اپنے ایک دوست کی جگہ پر ہمیں منتقل کردیا جہاں پر میزبان نے دوست نے ہر طرح سے بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن کچھ معاملات ان کے ایسے تھے کہ ایک دن گزارنے کے بعد دوسری جگہ منتقل کیا گیا ,وہاں جا کر پتہ چلا کہ سوئی گیس کی لوڈشیڈنگ کوئٹہ جیسے شہر میں بھی ہوتی ہیں ساتھ میں کوئٹہ کی خشک سردی کا احساس بھی ہوا.تین دن ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی اور آخر کار ہوٹل میں جگہ دینے پر ہماری جان چھوٹ گئی لیکن ان سفروں سے کوئٹہ شہر کے آدھی آبادی دیکھنے کا سرسری سا موقع ملا. غریب اگر کوئی ہے تو انتہا درجے کا ' اور اگر کسی کے پاس پیسہ ہے تو بھی انتہائی درجے کی ' انتظامی امور کے سلسلے میں باہر جانے کا اتفاق ہوا اور زندگی میں پہلی مرتبہ دوسرے شہر میں آکر احساس ہوا کہ واش روم ہونا بھی کتنی بڑی نعمت ہے.پشاور سے کوئٹہ جاتے ہوئے راستے میں رات کے کھانے میںدیگر لوگوں کیساتھ کھانے والے ٹینڈوں نے ہمیں بھی ٹینڈا کردیا تھا.قبض کو دور کرنے کیلئے کیلے بھی لیکر کھائے لیکن اللہ کی شان ہے کہ اس سفر میں ہونیوالا قبض ساری عمر یاد ہی رہے گا. ہمیں کوئٹہ میں ایسے میزبان سے واسطہ پڑا تھا جو دن گیارہ بجے سے پہلے فون اٹھانے کے عادی نہیں تھے جس کی وجہ سے انہیں خود ہی بعض جگہوںپر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا.کوئٹہ میں رات کو سخت خشک سردی اور دن کو عجیب سی گرمی ہوتی ہیں لیکن یہ گرمی دن بارہ بجے کے بعد چلنے والی ٹھنڈی ہوائیں ختم کرتی ہیں .اس شہر کے مکین اپنے روایات سے پیار کرنے والے ہیں سڑکیں بڑی اور کھلی ہیں ' ٹریفک اہلکار بڑے بڑے چوکوں میں نظر آتے ہیں ' ہارن بجانابھی نہیں ہاں ڈرائیوروں میں بے صبر ی بھی نہیں . کوئٹہ واحد شہر ہے جس کے پراٹھے میٹھے ہوتے ہیںجس کا اندازہ ہمیں کوئٹہ جا کر ہوا کہ آخر کیوں پشاور میں کوئٹہ کے لچھے دار پراٹھے اور چائے مشہور ہیں ' دوستوں کیساتھ کوئٹہ کی چائے وائے تو پی لی تھی لیکن پشاور میں کہیں بیٹھ کر پراٹھے کھانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا .کوئٹہ جانیوالی خیبر پختونخواہ کی ٹیم کیساتھ زندگی کی ایک بڑی خواہش بھی پوری ہوگئی کہ چلو کوئٹہ تو دیکھ لیں گے ' پاکستان کے بیشتر علاقے بشمول کشمیر تک دیکھ لئے تھے لیکن کوئٹہ دیکھنے کی خواہش اللہ تعالی نے حال ہی میں پوری کردی. ساتھ میں صبح ناشتے میں ملنے والے میٹھے پراٹھے اور چائے ' یہ کوئٹہ والے بھی شائد شوگر نامی بیماری سے نااشنا ہے' تبھی تو ہر جگہ اتنی چینی ڈالتے ہیں . کوئٹہ جا کر احساس بھی ہوا کہ ڈیپارٹمنٹ کے کھلاڑی بشمول آرمی کے کیوں ٹاپ پر ہیں ' وقت پر تربیتی سیشن اور ہر قسم کی سہولیات کی فراہمی ' ایسے میں اگر کوئی پوزیشن نہ لے تو پھر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے جبکہ اس کے بہ نسبت بلوچستان کی آرچری ٹیم اور خیبر پختونخواہ کی آرچری ٹیمیں سہولیات کی ناپید ہونے کی شکایات کرتی ری. ہمارے جانے کے بعد فیصلہ ہوا کہ مقابلے بیوٹم یونیورسٹی میں ہی کروائے جائیں ' جس کے مین گیٹ پر" گو مارخور " کا بڑا سائن لگایا گیا تھا اس یونیورسٹی میں داخل ہوتے وقت اندازہ ہوتا تھا کہ جیسے ہم جی ایچ کیو میں جانے کے خواہشمند ہوں ' پوچھنے پر پتہ چلا کہ یونیورسٹی کے طلباء نے احتجاج کیا اور احتجاج بھی دو طلباء کے مسنگ ہونے پر کیا ہے اس لئے اب انتظامیہ اس حوالے سے الرٹ ہے ' خیر کھیلوں کے مقابلے تو جاری رہے لیکن یہاں آکر پتہ چلا کہ اس شہر میں زیادہ تر تعلیمی اداروں سمیت روزگار اور بڑے کاروبار سے وابستہ ہزارہ کے لوگ ہیں ' یہاں کے نوجوان نسل خصوصا خواتین چار فٹ سے زائد کی قد نہیں رکھتی کہیں اکا کا لمبا قد بھی دیکھنے کو مل جاتا ہے البتہ مرد حضرات کا قد خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہے ' وی آئی پیز کیساتھ آنیوالے سیکورٹی اہلکاروں نے مخصوص انداز میں چہرے چھپائے ہوئے ہوتے ہیں یا پھر مونچھوں کی دھار بنا کر اپنے آپ کو منفرد کیا ہوتا ہے. بیو ٹم یونیورسٹی میں خیبر پختونخواہ سے آکر سکالرشپ میں پڑھنے والے طلباء کی تعداد زیادہ ہے اسی طرح بلوچستان ایف سی سمیت سیکورٹی اداروں میں پشتونوں کی بڑی تعداد موجود ہے جنہں صرف یہ پتہ چلا تھا کہ پشاور کی ٹیم آئی ہے اور صرف پشتو زبان کی بدولت ہمیں کثیر تعداد میں طلباء اور اہلکاروں سے ملنے کا اتفاق ہوا .اپنے علاقوں سے دور ان طلباء اور سیکورٹی اہلکاروں کی اپنے علاقے سے وابستگی اتنی تھی کہ ہر کوئی ہمیں مہمان بنانے کے لئے تیار تھا ساتھ میں شہر بھی دکھانے کو تیار ' لیکن برا ہو سخت شیڈول کا جس کی وجہ سے بہت سارے لوگوں سے اچھا تعلق تو بن گیا مگر وقت نہیں دے پائے. ہمارے ایک ساتھی جنہیں پیار سے میجر صاحب کہا جاتا ہے انتہائی زندہ دل آدمی ہے ' کھانے پینے کی جگہوں کے بارے میں ان کی معلومات زیادہ تھی ساتھ میں ونڈو شاپنگ کے ماہر بھی 'ان کی وجہ سے کوئٹہ میں "دم پخ" سمیت چپلی کباب کھانے کا بھی اتفاق ہوا. یہ الگ بات کہ ہم ان دونوں چیزوں کو کھانے کیلئے اپنی ہوٹل سے بہت دور تک گئے تھے سوات سے تعلق رکھنے والے ایک شہری نے کم و بیش تین دہائی قبل توغی روڈ پر چپلی کباب کی دکان کھولی تھی جسے اب وہاںپر ایک منفرد نام اور مقام حاصل ہے ایک ہزار روپے کلو کباب کھانے کے بعد احسا س ہوا کہ کوئٹہ جیسے شہر میں ایک ہزار روپے فی کلو کباب اب بھی کم قیمت ہے ' کیونکہ اس شہر میں زیادہ تر بڑے جانور دستیاب نہیں ' البتہ بھیڑ اوربکریوں کی گوشت کی دکانیں آپ کو مختلف جگہوںپر دیکھنے کو ملیں گی. ایک ہفتے کے دوران کہیں پر بھی پانی کا بڑا ذخیرہ یا سڑک کنارے نلکا نہیں دیکھا ' ہمارے ہاں تو پشتو میں ہر کوئی نلکا لگانا اپنا حق سمجھتا ہے اور ساتھ میں ضائع کرنا بھی ' لیکن کوئٹہ میں کم از کم ایسی صورتحال نہیں ' پانی ایک نایاب شے ہیں یہاں کے لوگ پہلے مرحلے میں تو سرد مہر رویہ رکھتے ہیں ' شائد یہ سنگلاخ چٹانوں کی سرزمین کے لوگوں کا خاصہ ہو لیکن جب تعلق بن جائے تو پھر جس گرم جوشی سے مہمانوں کا استقبال کرتے ہیں اور تعلق نبھاتے ہیں وہ قابل تحسین ہی ہے.کھیلوں کے مقابلے تو جاری رہے لیکن اس ایک ہفتے میں ہمیں کہیں پربھی مخصوص افراد جسے عرف عام میں معذور ہی کہ جاتا ہے کیلئے کہیں پر بھی کوئئی انتظام دیکھنے کو نہیں ملا' سرکاری ادارے ہو یا ہوٹل یاکوئی اور ادارہ معذور افراد کیلئے کوئی انتظام نہیں ' یہی صورتحال ٹرانسپورٹ سروسز کی بھی ہیں ' کہیں پر ایسا انتظام نہیں جس میں معذور افراد بغیر کسی اضافی مشقت کے عام لوگوں کی طر ح آ جاسکیں جو کہ سپیشل پرسنز کا بنیادی حق بھی ہے ان چیزوں کی طرف حکومتی اداروں کی توجہ بھی ضروری ہے.
|