وادی’’سرن‘‘

سر سبز میدان، دل کش پہاڑی چوٹیاں، برفانی گلیشئر، پیڑ، پودے سمیت کائنات کی تمام نیرنگیاں یہاں موجود ہیں

سر سبز میدان، دل کش پہاڑی چوٹیاں، برفانی گلیشئر، پیڑ، پودے سمیت کائنات کی تمام نیرنگیاں یہاں موجود ہیں

وادی سرن صوبہ خیبر پختون خواہ کی ایک سحر انگیز وادی ہے جس کے اطراف بلند وبالا پہاڑ، قدرتی آبشاریں، جھیلیں،جنگل، باغات مرغزار، گھنے صنوبر اور دیار کے جنگلات اور ان کی میں موجود ہرن سمیت مختلف چوپائے، درختوں پر کوکتی کوئل اور قدرت کی حمد و ثنا کرتے ہوئے پرندے وادی کے حسن کو نمایاں کرتے ہیں۔ یہاں پہنچنے کے لیے پہلے مانسہرہ پہنچنا پڑتا ہے۔ ایبٹ آباد سے 26کلومیٹر کے فاصلے پر صنوبر کے درختوں میں گھرا ہوا یہ خوب صورت ضلع واقع ہے، جہاں سے پاکستان کی کئی حسین وادیوں کاغان، ناران اور نلتر کی جانب راستے جاتے ہیں جب کہ شاہراہ ریشم بھی یہیں سے گزرتی ہے جس پر سفر کرتے ہوئے گلگت، بلتستان سے ہوتے ہوئے چین کے صوبے سنگکیانگ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ مانسہرہ سے ایک خوب صورت سڑک وادی سرن کی جانب جاتی ہے۔ یہاں سےبذریعہ بس شاہراہ ریشم پرسفر کرتے ہوئے 19کلو میٹر کی مسافت پر شنکیاری کا دل فریب قصبہ آتا ہے ۔ اس قصبے کو وادی سرن کا داخلی دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ شنکیاری سے نصف کلومیٹر آگے ایک پہاڑی راستے پر بنی ہوئی ایک خوب صورت سڑک، بائیں جانب خان پور دوراہا کے مقام پر الگ ہوکر وادی کے صدر مقام جبوڑی کی جانب جاتی ہے۔ یہاں سے جبوڑی تک 17کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ مذکورہ سڑک کے دونوں جانب پھلدار درخت لگے ہوئے ہیں، حد نگاہ تک گھاس کے میدان اور وسیع و عریض چراگاہیں ہیں۔ اس راستے پر سفر کرتے ہوئے سیاح، شاہ زیب جھیل،ڈاڈر ،بھوگڑ منگ کی حسین اور دلفریب چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں اور خوبصورت قصبوں سے گزر کر جنت نظیر وادی سرن کے مرکزی مقام، جبوڑی پہنچ جاتے ہیں۔ یہ چاروں جانب سے فلک بوس پہاڑوں میں گھرا ہواایک چھوٹاسا قصبہ ہے۔ یہاں سیاحوں کے لیے کئی رہائشی ہوٹل ہیں۔ اس کےمشرقی جانب سرن کی وادی کامعروف تفریحی مقام کنڈ بنگلہ ہے، جو ایک پر فضا علاقے میں واقع ہے۔ یہ سطح سمندر سے 10 سے 12ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے ۔

جبوڑی کے قصبے کی مغربی سمت میں موسیٰ کا مصلیٰ نامی بلند و بالا پہاڑہے، جو سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ اس کی سطح سمندر سے بلندی تقریباً 12000فٹ ہے۔اس کے جنوب میں ایک اورسر سبز تفریح گاہ شہید پانی واقع ہے۔ یہ بھی پہاڑوں کے درمیان ایک خوب گاؤں ہے جس کی سطح سمندر سے بلندی 9500 فٹ ہے۔جبوڑی کے قصبے کے شمالی جانب بل کھاتا ہوا دریائے سرن گزرتا ہے۔ پہاڑ کی جانب سے بہہ کر آنے والے دریا کی سرکش موجوں کا شوراور اس کا نیلگوں پانی عجب سماں پیش کرتا ہے۔اس دریا کا منبع منڈا گوچا گلیشئرہے جس کی برف پگھلنے کی وجہ سے یہ وجود میں آیا ہے۔ مقامی آبادی اسے دریائے سرن کے نام سے پکارتی ہے جب کہ مذکورہ وادی کا نام بھی اسی دریا کی مناسبت سے مشہور ہوگیا ہے۔ یہ پہاڑی وادیوں کے درمیان سفر کرتا ہوا، 130کلومیٹر کے فاصلے پر ہزارہ ڈویژن میں تربیلا کے مقام پر دریائے سندھ سے مل جاتاہے۔ جب سے سیاحوں نے سرن وادی کا رخ کرنا شروع کیا ہے، اس کی وجہ سے ضلع مانسہرہ کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے۔ جبوڑی کے قصبے کو مذکورہ وادی کے تجارتی مرکز کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ اس کے بازار میں پھل، سبزیاں، گوشت اور دیگر اشیائے خوردونوش انتہائی مناسب نرخوں پر دستیاب ہوتی ہیں۔ اس خطے کی مخصوص آبی خوراک ، منفرد ذائقے والی ٹراؤٹ اور پلہ مچھلی دریاے سرن کے پانی میں پائی جاتی ہے۔ بعض سیاح مچھلی کے شکار کے جملہ آلات سے لیس ہوکر یہاں کا رخ کرتے ہیں اور دریا کے کنارے یا کشتیوں میں بیٹھ کراس نایاب نسل کی مچھلی کا شکار کرتے ہیں ۔

سرن تقریباً تین درجن سے زائد چھوٹے بڑے قصبات اور گاؤں پر مشتمل ایک پرفضا وادی ہے۔ اس کے خاص خاص دیہات اور قصبوں میں بھوگڑمنگ، بجنا، بانا، ڈاڈر، دیول، گیارساچن، جبار، جبوڑی، کودربالا، کودرپائین، منڈاگوچہ، کوٹل، پرانابھوگڑمنگ، پنجل، ساچن کالن، ساچن خورد، ستھیان گلی، شنکیاری، کودر، ٹانڈا، چاچا، ڈاڑھیل، سم الاہیمونگ، رچمورا، ٹمری، کنڈبنگلہ، شہیدپانی، ڈھول گلی، ٹیران، جھنگی، کالاس ، نوازآباد، سمنگ، کیاسا، میل بٹ اور نلاّ، شامل ہیں۔ وادی کے لوگ انتہائی خلیق، ملنسار اور مہمان نواز ہیں، جو تفریح کی غرض سے آنے والے لوگوں کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کرتے ہیں۔ شنکیاری کی جانب سے آنے والی سڑک پختہ اور ہموار ہے اس لیے سیر و سیاحت کے دلدادہ افراد صرف آدھا گھنٹے کے سفر کے بعد جبوڑی پہنچ جاتے ہیں، جہاں سےاسی سڑک پر وادی سرن کا آخری مقام منڈی ریسٹ ہاؤس واقع ہے۔ یہاں سے ایک اور خوب صورت اور دل فریب مناظر والے قصبے کنڈ بنگلہ تک کا پیدل سفر دو سے ڈھائی گھنٹے کا ہے۔اس سیاحتی مقام پر محکمہ جنگلات کا ایک ریسٹ ہاؤس بھی موجودہے،جہاں محکمے کے اعلیٰ افسران اور ان کے اہل خانہ کے علاوہ اندرون و بیرون ملک سے آنے والے سیاح بھی خصوصی اجازت نامہ لے کر یہاں شب بسری کرتے ہیں۔ 8اکتوبر 2005کے زلزلے سے ریسٹ ہاؤس کی مذکورہ عمارت بھی تباہ ہوگئی تھی جسے از سر نو تعمیر کیا گیا ہے۔کنڈ بنگلہ کی بلندیوں سے سیاح ایک طرف وادی کاغان، دوسری طرف وادی پکھل اور سرن کے علاقے کے حسین مناظر کا نظارہ کر سکتے ہیں ۔ پہلے لوگ جیپ کے ذریعے سفر کرتے ہوئے وادی کے قابل دید سیاحتی مقامات سراں،شہید پانی،شدل گلی، ندی بنگلہ ، موسیٰ پہاڑ کا مصلّٰی تک پہنچتے تھے لیکن لینڈ سلائیڈنگ کے باعث مذکورہ جیپ ٹریک کا وجود مٹ گیا ہے، جس کے بعد محکمہ سیاحت کی جانب سے اس کی بحالی کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔
تفریح کی غرض سے آنے والے سیاح اور مہم جو لوگ اس وادی کے مذکورہ مقامات کی شہرت کی وجہ سے اسی مخدوش ٹریک پر پیدل سفر کرتے ہوئے مذکورہ تفریح گاہوں تک پہنچتے ہیں۔ راستے میںسایہ دار درختوںکی چھاؤں میںسستاتے اور فطرت کی رنگینیوں سے محظوظ ہوتے ہوئے، آٹھ گھنٹے کا دشوار گزار سفر طے کر کے سراں کے قصبے، ، ندی بنگلہ، اور موسی کا مصلیٰ پہنچتے ہیں۔ جبوڑی سے ایک دوسرے راستےپر بذریعہ جیپ ایک مخصوص مستقر پر اتر جاتے ہیں، کیوں کہ اس سے آگے جیپ کا راستہ مسدود ہے اس لیے وہاں سے تین گھنٹے کا پگڈنڈیوں پر بلندی کی جانب پیدل چلتے ہوئے شہید پانی کے سیاحتی مقام تک پہنچتےہیں۔ یہاں بھی محکمہ جنگلات کا ریسٹ ہاؤس موجود تھا۔ لیکن اس کی عمارت بھی زلزلے سے تباہ ہو گئی ۔ یہاں آنے والے سیاح اس علاقے میں مکمل تیاریوں کےساتھ آتے ہیں اور شب بسری کے لیے لائے گئے خیموں میں رات گزارتے ہیں۔

شہید پانی میں ایک دن قیام کے بعدمسافر حضرات شدّل گلی، سونہڑیں داسر ، ندی بنگلہ ، کوہ مصلیٰ جیسےقدرت کے حسین مناظر سے مالا مال مقامات کا رخ کرتے ہیں۔ اس سے دوسری سمت میں جبوڑی کے قصبے سے ایک پختہ سڑک پر بذریعہ کار یا جیپ، سچاں، نواز آباد،میل بٹ، جبڑ منڈی ریسٹ ہاؤس تک با آسانی پہنچا جاسکتا ہے۔ منڈی ریسٹ ہاؤس میں ایک شبگزارنے کے بعدزیادہ ترسیاح صبح تازہ دم ہو کر پیدل سفر کرتے ہوئے آرام گلی،کھنڈا گلی سے کوہ مصلیٰ ,مالی، ڈھور، کوہ پلیجہ، کھوڑی جسیے دل کش اور سرسبز مقامات کی سیر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان مقامات پر خوش رنگ اور مہکتے ہوئے جنگلی پھول، پھلوں سے لدے درخت، صنوبر اور دیار کا جنگل،سر سبز مرغزار اور ان میں گھاس چرتی اور چہلیں کرتی ہوئی بھیڑ، بکریوں کے ریوڑ، سیاحوں کی نگاہوں کے سامنے انتہائی دل کش مناظر لیے ہوئے سامنے آتے ہیں۔ ہرے بھرے درختوں کے درمیان پہاڑی نالوں کے ساتھ خوب صورت چوبی عمارتیں، آبشار ، پہاڑی جھرنوں کا شور، کوئل سمیت دیگر پرندوں کی مسور کن آوازیں، ایک جادوئی ماحول پیش کرتی ہیں۔حسین مناظر والی وادی سرن کے جنت نظیر مقامات کی سیاحت کے لیے مئی سے ستمبر تک کے مہینے مناسب ہیں کیوں کہ اس دوران موسم معتدل ہوتا ہے۔

سرن وادی کا جنگلاتی علاقہ 1700میٹر کے رقبے پر محیط ہے، جسے ڈومل کے جنگلات کہا جاتا ہے۔ یہاں پر دو پہاڑی سلسلے ہیں جن میں سے دانا نام کا پہاڑ سطح سمندر سے 7602فٹ بلنداور روڑی پہاڑ 9294فٹ بلندہے۔ اس وادی میں دو پہاڑی درّے ہیں ،جن میں سے درّہ شدال گلی9309فٹ اور میرانو گلی 6908فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہاں4137فٹ کی بلندی پر، غازی بابا نام کے ایک بزرگ کی درگاہ ہے۔ اس کے گردو نواح کے مناظر بے انتہا حسین ہیں ، زیارت کے لیے جانے والے لوگ ان کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے بعد گردو نواح کے ماحول سے محظوظ ہوتے ہیں۔ یہاں سیاحوں کی دل بستگی کے لیے ایک مصنوعی جھیل بھی بنائی گئی ہے ، جو دادر، بھوگڑمنگ روڈ پر شنکیاری کے قصبے سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ اس میں دریائے سرن سے پانی لیا گیا ہے۔ جھیل کے اطراف میں بے پناہ حسین مناظر بکھرے ہوئے ہیں، سر سبز میدان، دل کش پہاڑی چوٹیاں، برفانی گلیشئر، پیڑ، پودے سمیت کائنات کی تمام نیرنگیاں یہاں موجود ہیں۔ اس جھیل کے خوب صورت ماحول کی وجہ بیرونی سیاحوں کے علاوہ مقامی لوگ بھی پکنک منانے کی غرض سے یہاں آتے ہیں۔ یہاں پیراکی اور غسل کرتے ہیں جب کہ خواتین اور بچوں کی دل چسپی کے بھی یہاں سامان موجود ہیں۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 191600 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.