سرکاری افسران کی رہائش گاہیں تعلیمی اداروں میں تبدیل کی جائیں

 ملک میں ہر جگہ ناانصافی معاشی ناہمواری ناچ رہی ہے سرمایہ دار،جاگیردار اقتداراور اختیار والے ملکی وسائل پر پوری طرح قابض جبکہ غریب روٹی کپڑااور مکان کے چکر میں بری طرح رُ ل رہا ہے محنت مزدوری کی کمائی سے اسکا کوئی بچہ پڑھ لکھ بھی جائے تو نوکری نہیں ملتی تعلیم اورصحت کی سہولتیں تو درکنار عام آدمی کے پھیپھڑے تک گندا پانی پی پی کر گل سڑ جاتے ہیں مگر صاف پانی تک نہیں ملتا حکومتوں اور بڑی بڑی کرسیوں پر براجمان آنکھوں والے اندھوں کو عوام کا یہ حال نظر نہیں آتاگوجرانوالہ شہر میں یہ حالت ہے کہ یہاں سرکاری اراضی کا قحط ہے کوئی عوامی منصوبہ بنانا ہو صاحب اقتدار اور بابو لوگوں کو سرکاری اراضی ہی نہیں ملتی چنانچہ اب شہریوں کی سہولت کا کوئی بھی منصوبہ شہر کے اند ر فراہم کرنا ناممکن ہو چکا ہے ماضی قریب میں گوجرانوالہ میڈیکل کالج کو شہر سے اٹھا کر گوندلانوالہ گاؤں کے پیچھے پھینک دیا گیا جہاں شہر سے طلبا ء وطالبات کا پہنچنا انتہائی مشکل تھا مگر منصوبہ سازوں نے غریبوں کے بچے بچیوں کی مشکلات کا نہیں سوچا مزید ستم ظریفی یہ کہ گوجرانوالہ شہر کے لئے 500بستر کے نئے اسپتال کا منصوبہ بھی اسی میڈیکل کالج کے ساتھ شروع کر دیا گیا جو پہلے ایک بااثرپراجیکٹ ڈائریکٹر کی نااہلی اور مبینہ کرپشن کی نذر ہوا اور موجودہ حکومت کی بے توجہی کی وجہ سے ابھی تک فعال نہیں ہوسکا اور اسکا تخمینہ کئی گنا بڑھ چکا ہے وہ چل بھی جائے تو شہر کے اندر سے لوگوں کا علاج کے لئے وہاں پہنچنا آسان نہیں ہوگا ، موجودہ حکومت میں ترقیاتی منصوبے ویسے ہی خواب بن کر رہ گئے یوں تو تبدیلی زدہ حکمران قبضہ مافیا کے خلاف ا پنے عزم کو گاہے بگاہے دوہراتے رہتے ہیں اور حالیہ تقریر میں وزیر اعظم ایک بار پھر لینڈ مافیا پر چڑھ دوڑے ہیں لیکن سرکاری اراضی پر قابض مافیاکے خلاف کہیں بلا امتیاز کارروائیاں نظر نہیں آتیں سیاسی انتقام کی مثالیں البتہ موجود ہیں شہر میں تجاوزات کا معاملہ اتنا گمبھیر ہوچکاہے کہ ساراجی ٹی روڈ سمٹ کر رہ گیا ہے منتخب نمائندوں اور سرکاری فلاسفروں نے شہر کے اندر جہاں سے گزرنے کا رستہ تک نہیں بچا وہاں بھی سڑ ک کے درمیان چھوٹی گرین بیلٹ قائم کر کے سڑک مزید تنگ کی ہوئی ہے جبکہ سٹی فلائی اوور نے آسانی کی بجائے نیچے سے گزرنے والے عوام کے لئے مصیبت کھڑی کر رکھی ہے اور شہر سے گزرنا عذاب بن چکا ہے مگر افسوس کہ میٹنگز میں بیٹھ کر’’ اگر مگر چونکہ چنانچہ‘‘ کرتے ان افسران اور نام نہاد عوامی خادموں کے پاس شہری مسائل کا کوئی حل موجود نہیں ہے تازہ احوال یہ ہے کہ شہر میں حسب سابق سرکاری یونیورسٹی کے لئے اراضی نہیں ملی تو سیاسی نا اہل اور بابو لوگ مل کر اس منصوبے کو گھسیٹ کر شہر سے باہر ایمن آباد تک لے گئے ہیں اورمیڈیکل کالج گوندلانوالہ کی طرح یونیورسٹی کو شہر سے دور لے جایا جا رہا ہے جبکہ شہر میں کہیں جگہ نہیں کا راگ الاپنے والے ڈی سی کمشنر آر پی او اپنے سرکاری گھروں پر نظر ڈالیں تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے جہاں کی اراضی کئی درجن ایکڑ پر محیط ہے بلاشبہ یہ اراضی ان کی ذاتی جاگیر نہیں افسران آتے اور جاتے رہتے ہیں جبکہ انکی فیملیز بھی چند افراد سے زیادہ پر مشتمل نہیں ہوتیں کیا انکی رہائش گاہوں کے نام پر قائم یہ سلطنتیں ختم نہیں کی جاسکتیں اور یہاں عوام کے مفاد کے منصوبے قائم نہیں کئے جاسکتے ،ان افسران کی پر تعیش اور شاہانہ طرززندگی سے عام آدمی کو کیا پیغام دینا مقصود ہے کیا گوجرانوالہ شہر کے بچے بچیوں کے مستقبل کی خاطر ان بابوؤں کو چند ڑے اور عالیشان بنگلوں میں منتقل نہیں کیا جاسکتا ، کیا چند افسران اور انکا شاہانہ طرز زندگی عوام کی بنیادی ضروریات سے بھی زیادہ اہم ہے وقت آگیا ہے کہ ان صاحب لوگوں کو جنکی خدمات بھی قابل ذکر نہیں ہیں یہاں سے باعزت طریقے سے نکالا جائے اور بنگلوں کوٹھیوں میں منتقل کر کے یہ ساری اراضی اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے قیام کے لئے استعمال کی جائے افسوس کہ حکومتی جماعت کے ٹکٹ ہولڈروں اور دیگر سیاسی لوگوں کو ان افسران کی خوشامد سے فرصت نہیں ملتی کیونکہ انہیں جائز ناجائز کام لینے ہوتے ہیں وزیر اعظم عمران خان نے گورنر ہاؤسز کی جگہ یونیورسٹیاں بنانے کا اعلان کیا تھا مگر عمل نہ ہواگوجرانوالہ کے ان افسران کے گھر خالی کرائے جائیں تو کئی یویورسٹیاں میڈیکل کمپلیکس اور دیگر عوامی فلاحی منصوبے مکمل کئے جاسکتے ہیں یہ بات صاحب اقتدار اور بابو لوگوں کو ناگوا ر گزرے گی یہ آواز طاقت اور اقتدار والوں کو ہمیشہ بُری لگتی ہے ۔۔سیاسی لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر بابو لوگ سرکاری اراضی کی عدم دستیابی کا ماتم کرتے ہوئے اپنے منجی تلے ڈانگ نہیں پھیرتے۔۔ ان افسران اور عوام کی زندگی میں اتنا فرق کیوں ہے عوام کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کب تک کیا جاتا رہے گا کب تک عوام کاحق مارا جاتا رہے گا۔۔ اور پھر آخر ملک قوم کے لئے ان افسران نے کون ساایسا کارنامہ انجام دے دیا ہے جس کی بدولت یہ ایکڑوں کے گھروں میں رہیں اور عام لوگوں کے بچے بچیاں تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ نہ ہوسکیں اسپتالوں سکولوں اور عوامی فلاحی منصوبوں کے لئے کوئی جگہ نہیں بچی جبکہ دو دو افراد کی ان افسران کی فیملیز کے لئے شہروں میں سلطنتیں قائم ہیں یہ سب بے شرم بن کرعیش کر ر ہے ہیں اور اس ملک کے قرضے بڑھا رہے ہیں جسکی بنیادوں میں لاکھوں بے گناہوں کا خون شامل ہے جس ملک کو دنیا کی عظیم ترین مملکت بننا تھا اسے بھکاری بنا رہے ہیں دن بدن اسکا کشکول بڑا کررہے ہیں

اقتدار اور طاقت والوں کی عیاشیوں نالائقیوں اور بے توجہی سے ملک میں ظلم نا انصافی اور معاشی ناہمواری اسقدر بڑھ گئی ہے کہ ایک طرف چند لوگوں کے پاس دولت کا انبار لگا ہواہے دوسری طرف غریب کے گھر میں ایک کلو آٹے کے لئے پیسے نہیں ہیں سرمایہ دار کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ اس سوچ میں ڈوبا رہتاہے کہ پیسہ کہاں انویسٹ کروں جبکہ غریب کی بچی جہیز اور باراتیوں کو کھانا کھلانے کا انتظام نہ ہونے کے باعث ماں باپ کی دہلیز پر بیٹھی بوڑھی ہوجاتی ہے ناانصافی بے حیائی اور بے شرمی معاشرے میں گھر کر گئی ہے اخلاقی اقدار ختم ہوتی جارہی ہیں لوگ رشتے داروں کی شادی پر کھانا کھانے نہیں انتقام لینے جاتے ہیں دل میں دوسروں کی ناک کٹتی دیکھنے کی خواہش مچل رہی ہوتی ہے ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جواپنی دولت کے پہاڑ میں سے پوری زکوٰۃ دینا بھی گوارا نہیں کرتے بے سہارا بیوہ اور حالات کی ماری عورتیں جعلی عوامی خادموں کے ڈیروں پر جائیں تو وہ امداد کرنے کی بجائے بستر کی زینت بنانے اور انکے جسموں کوکاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں ۔۔۔ ہندوؤں کی رسومات اور کلچر میں لتھڑے ہوئے ہمارے معاشرے میں بیواؤں سے نکاح پر نوجوان تو کیا کوئی بوڑھاشخص بھی آمادہ نہیں۔۔۔اسے بھی اپنے لئے دلہن بیٹی کی عمر کی ہی چاہئے ۔۔۔آئیں ہم سب اپنے اﷲ سے ڈریں کہ یوم حساب بالکل قریب ہے جوکسی صورت ٹل نہیں سکتا ہمیں مالک حقیقی کے سامنے پیش ہونا ہی ہے، ذرا سوچیں روز محشر جب ہم انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے تو اپنے رب کوکیا منہ دکھائیں گے




 

Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 67165 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.