نیتی آیوگ کی رپورٹ : دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی

بھارتیہ جنتا پارٹی نے جب سے مرکز میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی ہے، وہ ہر صوبےکے اندر انتخابی مہم میں ’ڈبل انجن‘ سرکار پر زور دیتی ہے۔ یعنی اگر ریاست میں بھی اسی پارٹی سرکار ہو جو مرکز میں اقتدار پر فائز ہے تو ترقی کی رفتار دوگنا بلکہ کئی گنا بڑھ جائے گی۔ مرکزی حکومت کے تحت کام کرنے والے ایک سرکاری ادارے کا تحقیق و تفتیش کے بعد اعدادو شمار کی بنیاد پرپیش کیا جانے والا جائزہ اس دعویٰ کی قلعی کھول دیتا ہے اور الفاظ کے فریب کو بے نقاب کردیتا ہے۔ وطن عزیز میں بی جے پی کی سرکار کارکردگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اشتہار بازی کے پہیوں پر چلتی ہے ۔ دنیا کی سب سے امیر پارٹی کے لیے فی زمانہ یہ کام بہت آسان ہوگیا کیونکہ مختلف زبانوں اور ہندی کے ہی کئی علاقائی چینلس کا شمار کیا جائے تو کم و بیش تین درجن کی ملکیت اکیلے مکیش امبانی کی کمپنی ریلائنس کےپاس ہے۔ اس کے علاوہ دودرجن چینل مودی نواز ’’زی‘‘ گروپ کے ہیں جو چاپلوسی میں سرکاری چینلس سے آگے نکل گیا ہے۔ آنندبازار پتریکا گروپ کےاے بی پی نیوز جیسے چینل پر کنچن گپتا جیسا سنگھ پریوار کاوفاداراپنا اثرو رسوخ رکھتا ہے اوردور درشن وآل انڈیا ریڈیو کا تو فرضِ منصبی ہی سرکار کا ڈنکا پیٹنا ہے کیونکہ آج کل اپنی ملازمت کو خطرے میں ڈالنے کا خطرہ کوئی مول نہیں لیتا ؟ بکاو صحافیوں کا تو یہ حال ہے؎
دولت کے بدلے میں ہم تو بیچ دیں اپنا چینل تک
کوئی ملے تو قلم کا گاہک کوئی بھاو لگائے تو

اتر پردیش کی یوگی سرکار ذرائع ابلاغ پر کس طرح پانی کی طرح روپیہ بہاتی ہے اس کا اندازہ ایک آر ٹی آئی کے تحت پوچھے جانے والے سرکاری جواب سے کیا جاسکتا ہے۔ پچھلے معاشی سال یعنی اپریل 2020 سے مارچ کے 2021 درمیان یوپی سرکار نے اشتہار بازی پر 160.31 کروڈ روپئے خرچ کیے ۔ ان میں سے نام نہاد قومی چینلس کی جیب میں 88.68 کروڈ روپئے گئے اور علاقائی چینلس کے حصے میں 71.63 کروڈ روپئے آئے ۔ ایسے میں اگر یہ چینلس اگرکوئی چینل والا سروے کرکے یوگی ادیتیہ ناتھ کو ملک کا سب سے فعال اور قابل وزیر اعلیٰ قرار دے اور ان کو مقبول ترین رہنما کے تمثہ سے نوازے تو حقِ نمک ادا کرنا ہی کہلائےگا۔ اس مالِ مفت کی تقسیم بھی دلچسپ ہے کہ سب سے زیادہ 28.82 کروڈ امبانی سیٹھ کو ملے یعنی ٹیکس بچا کر جو چندہ انہوں نے بی جے پی کو دیا اسے دوسرے راستے سے وصول کرلیا ۔ اس کے بعد زی میڈیا کے آگے 23.48 کروڈ ڈالے گئے۔ اے بی پی جو تھوڑا بہت تنقید بھی کردیتا ہے صرف 18.19 کروڈ کا حقدار بنا۔ آج تک کے انڈیا ٹوڈے گروپ کو کو10.64 کروڈ پر اکتفاء کرنا پڑا۔جہاں ارنب جیسا وفادار پانچویں نمبر پر ہو وہاں بیچارہ این ڈی ٹی وی تو ساتویں نمبر تک شمار میں ہی نہیں ہے۔ موجودہ ہندوستان میں یہ ہے غیر جانبداری اورسچ دکھانے کی قیمت۔ اس کے باوجود این ڈی ٹی وی کے مالک پرنوئے رائے اور رویش کمار جیسے لوگ قابلِ مبارکباد ہیں ۔ وہ دلیر لوگ اس شعر کی مصداق ہیں ؎
سنی سنائی بات نہیں یہ اپنے اوپر بیتی ہے
پھول نکلتے ہیں شعلوں سے چاہت آگ لگائے تو

مذکورہ اعداد و شمار کورونا دور کے ہیں۔ اس لیے اگر کسی کو یہ خوش فہمی ہے کہ یہ سرمایہ عوام میں وباء سے متعلق بیداری پیدا کرنے پر صرف کیا گیا تو اس کے ہاتھ مایوسی لگے گی کیونکہ اس کام پر تو صرف 6.3کروڈ روپئے خرچ کیے گئے۔ مودی جی کے خودکفیل ہندوستانی کا جھوٹ پھیلانے کی خاطر 160 کروڈ روپئے پھونک دیئے گئے۔ اتر پردیش میں کس ڈھٹائی کے ساتھ کذب بیانی کی جاتی ہے اس کی مثال جیور میں بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے 25 نومبر کو دہلی سے سٹے اترپردیش میں ایشیا کے سب سے بڑے جیور انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا افتتاح کیا ۔ انتخاب کے سبب یہ کام اس قدر جلد بازی میں کیا گیا کاغذ پر اس کا نقشہ تک موجود نہیں تھا ۔ عصر حاضر میں چونکہ لوگ پڑھنے پڑھانے کے بجائے تصاویر دیکھتے دکھاتے ہیں اس لیے تقریباً سبھی وزراء نے پڑوسی ملک چین کے بیجنگ میں واقع ہوائی اڈے کی تصویر بلا تکلف ٹویٹ کردی ۔ اس پرایک چینی اہلکار نے اعتراض جتاتے ہوئے لکھا کہ :’’مجھے یہ جان کر حیرانی ہو رہی ہے کہ حکومت ہند کے افسران کو اپنی حصولیابی گنانے کی خاطر چین کے ڈیکسنگ انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی تصاویر کا سہارا لینا پڑ رہا ہے‘‘۔ اس ٹویٹ کے ساتھ سرپیٹتا ہوا’ اموجی‘ بھی شیئر کیا گیا جو بی جے پی کے لیے شرمناک ہے لیکن غالب سے معذرت کے ساتھ؎
ووٹ کس منہ سے مانگو گے یوگی
شرم تم کو مگر نہیں آتی

اترپردیش میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ ڈھائی ماہ قبل انڈین ایکسپریس جیسے موقر اخبار میں یوگی جی کا اشتہار چھپا تو اس میں مغربی بنگال کا پُل نظر آگیا ۔ اس بھول چوک کے اخبار والوں نے معافی مانگی لیکن کیا یوگی اور ان کے عملہ نے اسے نہیں دیکھا اور کیوں ان پر کارروائی نہیں کی گئی۔ اس وقت اکھلیش یادو نے طنز کرتے ہوئےلکھا تھا ، ’’وزیر اعلیٰ یوگی کے جھوٹ کی پھر پول کھل گئی ہے۔ اشتہارات میں عوام کا پیسہ پانی کی طرح بہانے والوں کے پاس دکھانے کے لئے اپنا کیا ہوا کوئی کام نہیں ہے، تو کولکاتا میں تعمیر شدہ فلائی اوور کی تصویر چھاپ کر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ یہ شرمناک ہے اور بی جے پی حکومت جھوٹ بولنے میں نمبر ایک ہے۔‘‘عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے بھی یوگی حکومت کے اشتہار پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ٹویٹ کیا تھا، ’’ایسا وکاس نہ سنا ہوگا نہ دیکھا ہوگا۔ کولکاتا کا فلائی اوور کھینچ کر لکھنؤ لے آئے ہمارے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ جی۔ بھلے ہی اشتہار میں لے آئے لیکن لائے تو۔‘‘ اس اشتہار پر عندلیب شادانی کا یہ شعر من و عن صادق آتا ہے؎
کیوں یہ مہرانگیز تبسم مد نظر جب کچھ بھی نہیں
ہائے کوئی انجان اگر اس دھوکے میں آ جائے تو

اتر پردیش کاغذی اور حقیقی ترقی کا فرق حال میں ایک سڑک افتتاح کے وقت سامنے آگیا۔ اتر پردیش کے ضلع بجنور میں محکمہ آبپاشی کے ذریعہ نہر کی پٹری پر کڑاپور، جھالپور، الیڈھا اور ہیم پور دیپا کو جوڑنے کے لیے ا یک 7 کلومیٹر طویل سڑک بنانا پیش نظر تھا ۔ ابھی محض 700 میٹر کا ہی کام ہوا تو مقامی رکن اسمبلی موسم چودھری بھی مودی جی کی طرح افتتاح کرکے الیکشن کا فائدہ اٹھا نے پہنچ گئیں۔ رام راج میں سب سے پہلے پوجا پاٹ ہوتا ہے۔ موسم چودھری نے اپنی خاوند ایشوریہ چودھری کے ساتھ پوجا کے بعد جیسے ہی ناریل کو سڑک پر توڑ کر افتتاح کرنے کی کوشش کی، تو ناریل ٹوٹنے کے بجائے وہاں کی سڑک ہی ٹوٹ گئی۔ ساتھ ہی بجری اکھڑ کر اِدھر اُدھر بکھر گئی۔ یہ دیکھ کر ناراض رکن اسمبلی نے سڑک افتتاح کا پروگرام ملتوی کر دیا۔ گاؤں والوں کی شکایت پر سڑک کے معیار کی جانچ کرانے کے لیے رکن اسمبلی وہیں دھرنا دے کر بیٹھ گئیں۔ اس طرح بدعنوانی کے انکشاف نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا اور نہ کھاوں گا نہ کھانے دوں گا کی پول کھل گئی۔ رکن اسمبلی موسم چودھری نےاعتراف کیا کہ اس سے ہماری حکومت کی شبیہ خراب ہو رہی ہے اور جانچ کے بعد اس معاملے میں کارروائی کا یقین دلایا۔ اب بھلا بجنور کے لوگ کولکاتہ کا پُل دیکھ کر بی جے پی کو ووٹ کیسے دیں گے؟

یہ معاملہ صرف سڑک تک محدود نہیں ہے ۔ نیتی آیوگ نے پچھلے سال اپنی رپورٹ شائع کی تو اس وقت بہار کے اندر سب سے زیادہ بچے عدم غذائیت کے شکارہوتے تھے اور بڑی ریاستوں میں خون کی کمی کی شکار حاملہ خواتین سب سے زیادہ بہار میں تھا مگر اس سال یوگی کے اتر پردیش نے اس کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور وہ پہلے نمبر پر آگیا ہے۔ اتر پردیش میں ملک میں سب سے زیادہ 4 لاکھ غذائی قلت کے شکار بچے ہیں۔ اتر پردیش کی 60 سے زیادہ اسمبلی حلقوں میں غذائی قلت کی صورتحال خوفناک ہے۔ خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں چھ ماہ سے چھ سال کی عمر کے 9.27 لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ان میں سے 3.98 لاکھ بچے اتر پردیش میں ہیں۔ یہی نہیں ایودھیا میں پانچ سال سے کم عمر کے پچاس فیصد سے زیادہ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہر سال دیوالی کے موقع پر کروڈوں روپئے چراغاں کرنے پر پھونک دیئے جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نیتی آیوگ کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے حزب اختلاف کے رہنما اکھلیش یادو نے کہا کہ اترپردیش کی بی جے پی کے لیے غریبی پر آئے نتائج ایک شرمناک تمغہ ہے ۔ اترپردیش کو غربت میں ڈھکیلنے والے کیا کسی کی آمدنی دوگنا کریں گے؟ یوگی جی کی جعلی ترقی پر غالب کا یہ شعر من و عن صادق آتا ہے؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)





 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448896 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.