2018میں نوتھیہ کے مقام پر صداقت علی عباسی کا ایک
انتخابی جلسہ کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں مجھے بھی مدوعو کیا گیا تھا وہ
اپنی تقریر میں کہہ رہے تھے کہ یار میں بہت مجبور ہوں اتنے زیادہ لوگ مجھ
سے رابطہ کر رہے ہیں ایک دن میں 8تا 10جلسے منعقد ہو رہے ہیں عوام مجھے اور
میری پارٹی کو بہت زیادہ پسند کر رہے ہیں حلقہ کے عوام میں میری مقبولیت
اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ آنکھ جھپکنے کا وقت نہیں مل رہا ہیجب اس طرح کی
باتیں سنی تو دل میں تھوڑا شکوک پیدا ہو گیا کہ ہم نے پچھلی زندگی تو
اندھیرے میں گزار دی ہے سب ہمیں لارے لپوں والے سیاستدان ملتے رہے ہیں اصل
لیڈر تو ہمیں اب ملا ہے یہی سیاستدان ہماری محرومیوں کا ازالہ کرے گاالیکشن
ہوئے الﷲ پاک نے ان کو بہت بڑی کامیابی سے ہمکنار کیا عوام حلقہ نے حقیقی
معنوں میں خدا کا شکر ادا کیا کہ لالی پاپ دینے والے روایتی سیاستدانوں سے
ان کی جان چھوٹ گئی ہے اور اب صداقت عباسی ان کے دکھوں کا مداوہ بنیں گئے
تقریبا ایک سال معاملات تھوڑے بہتر چلے پھر اچانک ان کے زہن میں ایک سوچ نے
حملہ کیا کہ میں تو بہت بڑا اور مقبول سیاستدان بن چکا ہوں مجھے کسی کی
ضرورت نہیں ہے میں تو عوام کے ووٹوں سے نہیں بلکہ کسی اور طریقے سے کامیاب
ہوا تھا یہیں سے انہوں نے میدان غلطان میں قدم رکھتے ہوئے سب سے پہلے اپنے
ان محسنوں جنہوں نے ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا ان کے کھڈے
لائن لگانے سے غلطیوں کا آغاز کیا قریبی ساتھیوں کے سمجھانے پر ان کا جواب
تھا کہ کسی ایک یو سی میں اگر چند بندے خلاف ہو جائیں تو کوئی فرق نہیں
پڑتا ہے اتنا بڑا حلقہ ہے اور مل جائیں گئے اس کے بعد چنگاریاں آستہ آستہ
شعلوں کی شکل اختیار کرتی گئیں تحریک انصاف تبدیلی کے خواہاں رہنماء ،کارکن
اور عام عوام کو کلرسیداں اور ساگری سرکل میں اقتدار کے باوجود ترقیاتی اور
انتظامی امور میں کوئی خاص اہمیت نہ ملنے پر مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں
صداقت علی عباسی کلرسیداں اور ساگری سرکل میں کوئی بڑا منسوبہ دینے میں
بدستور ناکام ہیں تحصیل کلرسیداں میں تحریک انساف کے ٹکٹ ہولڈر امیدوار ایم
پی اے کی ناکامی بھی پی ٹی آئی کلرسیداں کی سیاست کو لے ڈوبی ہے بلکل اسی
طرح ساگری سرکل میں پی پی 10تحریک انصاف کی ہار کے باعث پی ٹی آئی گھٹنوں
کے بل چل رہی ہے اور اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ صداقت علی عباسی کا
شمالی پنجاب کا صدر ہونا بھی پارٹی کیلیئے سود مند نہیں رہا ہے ہر طرف سے
آوازایں اٹھ رہی ہیں کہ ان کو شمالی پنجاب کی صدارت سے ہٹایا جائے تنظیمی
امور میں عہدوں کی تقسیم پر مشاورت نہ ہونا اور ان کو پارٹی کے قواعد ضوابط
کے تحت نہ کرنا بھی گروپ بندی کو فروغ دے رہا ہے رہی سہی کسر تب نکل گئی جب
ضلع راولپنڈی کے صدر شہر یار ریاض کو بغیر کوئی نوٹس دیئے ان کے عہدے سے
فارغ کر دیا گیا ہے اور ان کی جہگہ واثق قیوم کو نیا صدر مقرر کر دیا گیا
ہے عہدے تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن جس توہین امیر طریقے سے ان کو ہٹا گیا ہے
اس کی کہیں کوئی مثال نہیں ملتی ہے ان کے اس اقدام سے حلقہ میں ان کوپوزیشن
بہت زیادہ کمزور ہو کر رہ گئی ہے پوٹھو ہار ٹاؤن میں کرنل اجمل صابر راجہ
کے درینہ ساتھی راجہ عبدالوحید قاسم کا کرنل اجم صابر اور راولپنڈی کے
ناراض قائدین کے ساتھ اظہار یکجہتی اور کرنل اجمل صابر کا صداقت علی عباسی
کے فیصلوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا بھی صداقت عباسی کی مقبولیت میں کمی
کا سبب بنا ہے وہی کرنل اجمل صابر جنہوں نے ان کی کامیابی میں بہت بڑا
کردار ادا کیا تھا اور ا کا شمار ان کے قریبی ساتھیوں میں بھی ہوتا ہے
صداقت عباسی نے آج ان کو پارٹی قواعد و ضوابط کے برعکس تنظیمی فیصلوں کے
باعث گنوا دیا ہے حلقہ کے عوام کی چکی تلے پس کر رہ گئے ہیں بیروزگاری نے
مکمل ڈیرے جما لیئے ہیں اور حلقہ تعمیر و ترقی سے بھی محروم ہو کر رہ گیا
ہے دوسری طرف عوام حلقہ کے غصے کی انتہا اس وقت نہ رہی جب ان کے پڑوسی حلقہ
کے ایم این اے اور وفاقی وزیر غلام سرور خان نے مختلف دیہات میں سوئی گیس
کے افتتاح کیئے اور ساتھ ہی جھٹہ ہتھیا ل کے مقام پر گرلز ڈگری کالج کا سنگ
بنیاد رکھ دیا ہے دوسری طرف صداقت عباسی ساگری گرلز ڈگری کالج اور گیس کے
منصوبوں کے حوالے سے تاریخ پر تاریخ ڈال رہے ہیں عوام میں اس بات پر شدید
غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے کہ ان کے ساتھ والے حلقے میں گیس بھی لگ رہی ہے
کالج بھی بن رہے ہیں مگر ان کے ایم این اے نے کلرسیداں اور ساگری سرکل کو
ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے لیکن اس کے باوجود ساگری سرکل سے پوٹھو
ہار ٹاؤن کے میڈیا کوآرڈینیٹر سردار محمد بشارت کو داد دیتے ہیں جو اپنے
چند مخلص دوستوں کی مدد سے بغیر تیل کے چراغ کو جلائے ہوئے ہیں اور عوام
علاقہ کو اب بھی طفل تسلیاں دینے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں کہ ساگری
ڈگری کالج سمیت گیس کے تمام منصوبے پائپ لائن میں ہیں اور انشاء اﷲ عوام
بہت جلد اس بارے خوشخبری سنیں گئے ساگری سرکل سے ہی نوجوان اعلی تعلیم
یافتہ مقامی قیادت راجہ عمر سلطان ،راجہ عمران، محمود الحق کیانی اور راجہ
راشد علی ایم این اے صداقت علی عباسی کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور
مذکورہ منصوبوں پر عملدرآمد کروانے کیلیئے بھر پور کوشش کر رہے ہیں اسی طرح
کلرسیداں سے بھی چند دوست جن میں صدر لیبر ونگ راجہ فیصل زبیر ،ملک سہیل
اشرف اور ان کے چند دیگر ساتھی بھی پی ٹی آئی کی کشتی کو بغیر پانی کے دھکے
لگائے ہوئے ہیں بیشتر رہنماء اور کارکن تو پس پردہ جا چکے ہیں خاص طور پر
ایسے رہنماء جن کو کوئی پارٹی عہدے دیئے گئے تھے ان کے پاس اپنے ایم این اے
کے دفاع کیلیئے کوئی مواد ہی موجود نہیں ہے وہ چھپتے پھر رہے ہیں مقامی
سیاسی فضاء میں ان کے خلاف باقاعدہ مہم شروع ہو چکی ہے جس کے زمہ دار وہ
خود ہیں اگر وہ بروقت ایکشن لیتے اپنے اندر موجود خامیوں کو دور کرتے تو آج
ان کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھتی لیکن اب جو آگ ان کے خلاف بھڑک اٹھی ہے اس
کو بجھانا شاید ان کے بس میں نہ رہے بلدیاتی الیکشن سر پر پہنچ چکے ہیں اگر
انہوں نے معاملات کو سدھارنے میں اپنا کردار ادا نہ کیا تو ان کے ساتھیوں
کو بہت سی نا ممکنات کا سامنا کرنا پڑے گامخلص ساتھیوں کا روٹھ جانا کسی
المیہ سے کم نہیں ہے ان کو اپنی پالیسیوں پر نظر چانی کرنا ہو گی بصورت
دیگر سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا
|