کراچی کے حالات اس وقت انتہائی
دگرگوں ہیں ہر آتے لمحے میں کوئی نہ کوئی بڑی اور بری خبر سننے کو مل رہی
ہے مسلح افراد نہتے اور غریب لوگوں کا خون بہا رہے ہیں، چند دن کسی اگلے
سودے بازی کے لیے خون کی یہ ہولی رکتی ہے تو پھر کسی بات پر مفادات کی یہ
جنگ شروع ہو جاتی ہے، مرتا کون ہے ؟ غریب آدمی ۔ یہ مسئلہ صرف کراچی کا
نہیں ہے بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ
ہمارے ہاں پیسہ اور زور چلتا ہے جس کے پاس جتنا پیسہ یا جتنا زور ہے وہ
اتنا ہی کامیاب ہے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز کی سیاسی
جماعتیں بھی انہیں دو باتوں پر انحصار کرتی ہیں اور ہم آئے روز اپنی آنکھوں
سے ایسے ایسے مظاہرے دیکھتے ہیں جہاں ان جماعتوں کو سیاسی جماعت کہنے کو دل
نہیں کرتااسی لیے ہم نے انہیں بہت پہلے سے سیاسی کمپنیاں کہنا شروع کر دیا
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ سیاسی پارٹی سے زیادہ سیاسی کمپنیوں کی تعریف
پر پورا اترتے ہیں ۔
کراچی میں حالات کی خرابی اپنی جگہ لیکن اس کی وجوہات اپنی جگہ ایک معمہ
ہیں آج تک حکومت سے لے کر اپوزیشن تک حتیٰ کہ وہ بھی جن کی کوئی پوزیشن
نہیں اس مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کی بات کرتے رہے جب کہ سیاسی پارٹیاں
دوسروں پر الزام جب کہ اپنے آپ کو اس خون ریزی سے بری الذمہ قرار دیتی
رہیں۔آج تک پولیس یا کسی دوسری ایجنسی نے ایسے ٹھوس شواہد پیش نہیں کئے جن
میں کسی غیر ملکی ہاتھ کے ملوث ہونے کا ثبوت ہو لیکن اب وزیر داخلہ کا کہنا
ہے کہ پکڑا جانے والا اسلحہ اسرائیلی ساختہ ہے تو ایک عام شہری اس کا کیا
مطلب نکالے کہ جس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کیا جا رہا تھااور اب تک اس پر
کام ہو رہا ہے وہ سیاسی پارٹیاں اسرائیلی آشیر باد سے مملکت خداد میں
اقتدار کے حصول کی رسہ کشی میں اس حد تک گر گئی ہیں کہ وہ اسرائیل جیسے
مسلمان کش ملک کی آلہ کار بن کر اپنے ہی ملک کے غریب لوگوں کا خون بہا رہی
ہیں؟
کراچی میں عوامی نمائندگی رکھنے والی تمام جماعتیں اس خون ریزی کی ذمہ دار
ہیں اور وہ سیاسی جماعتیں بھی جو وجود تو رکھتی ہیں لیکن کراچی میں ابھی تک
عوامی نمائندگی سے محروم ہیں۔محض یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی کہ
کوئی بھی سیاسی جماعت اس میں ملوث نہیں ہے بلکہ کچھ عناصر اس شر انگیزی میں
ملوث ہیں۔ کیا وہ عناصر ان جماعتوں کا حصہ نہیں ہیں؟اور اگر حصہ نہیں ہیں
تو قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں پر ان سیاسی جماعتوں کے دباؤ کا اثر یہاں
اسلام آباد تک کیوں محسوس کیا جاتا ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی بد امنی میں سیاسی جماعتیں بھی بقدر جثہ اپنا حصہ ڈالتی
رہتی ہیں اور قانون کی پامالی کی کئی مثالیں قائم کرتی جا رہی ہیں شاید یہ
سوچے بغیر کے عوام ان واقعات کا اثر لیتے ہیں اور ایک عام آدمی جو پندرہ سے
اٹھارہ گھنٹے کام کر کے بھی اپنے گھر والوں کے ضروریات پوری نہیں کر پاتا ،
بلآخر وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ جہاں پر قوانین کی اس قدر پامالی
ہو رہی ہے وہاں اگر وہ بھی کوئی چھوٹا موٹا قانون توڑ دیتا ہے تو اس سے
کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
اب اگر کوئی مزدور اپنا رکشہ اس لئے جلا دیتا ہے کہ تیل کے آئے دن بڑھتے
ہوئے نرخوں کی وجہ سے وہ اپنے گھر والوں کا پیٹ اس مزدوری سے نہیں پال سکتا
تو یہ حکومت سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ عوام کی فلاح و
بہبود کے لئے کوئی مربوط حکمت عملی بنائے کہ کم از کم غریب کا پیٹ بھر سکے،
نہ کہ گرینڈ الائنس کی تیاریوں یا راضی ناموں میں وقت ضائع کیا جائے کیوں
کہ اس سے غریب کا پیٹ نہیں بھرے گا۔بات صرف مہنگائی اور غربت تک ہی محدود
ہوتی تو شاید کوئی صورت نکل ہی آتی لیکن نا اہلی کی انتہا تو یہ ہے کہ عوام
کو میسر سہولتیں بھی ایک ایک کر کے واپس لی جا رہی ہیں۔ بجلی کی عدم
دستیابی ایک لاوے کی شکل اختیار کر رہی تھی تو ریلوے بھی بقول وزیر موصوف
انشاءاللہ دم توڑنے کو ہے۔ سی این جی کی بندش ایک اور دو دن سے بڑھا کر تین
دن ہو چکی ہے، عین ممکن ہے کل کو اس محکمے کا وزیر بھی کھڑا یہ اعلان کر
رہا ہو کہ انشاءاللہ آج کے بعد سی این جی کسی کو بھی نہیں ملے گی اور یہ
صرف سیاستدانوں کے ذاتی استعمال کے لئے ہو گی۔
اعلیٰ عدلیہ کے سوموٹو ایکشن اپنی جگہ درست لیکن عوام کے نزدیک ان کی حیثیت
بھی اخبار کی ایک شہ سرخی سے زیادہ نہیں رہ گئی ہے۔ ہماری اشرافیہ قانون کے
مطابق چلنے سے زیادہ قانون کو اپنے مطابق چلانے پر یقین رکھتی ہے اور اسی
بات کو دیکھتے ہوئے عوام میں بے یقینی کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔اس کیفیت
کو دور کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت
ڈال کر عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جس طرح انہوں نے
پاکستان میں جمہوریت کو قائم رکھنے کے لئے یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے، گو کہ
یکجہتی کے اس مظاہرے کے پیچھے بھی سیاسی جماعتوں کے اپنے مفادات ہی کار
فرما ہیںلیکن اگر وہ جمہوری عمل پر عوامی اعتماد بحال کرنے میں ناکام رہتے
ہیں تو پھر عبدالستار ایدھی یا پیر پگاڑا سمیت عوام فوج یا کسی بھی دوسرے
آپشن پر غور کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
کراچی میں بدامنی کا مسئلہ اگر سیاسی ہے تو وہ سیاسی جماعتیں جو اس معاملے
میں فریق نہیں ہیں انہیں چاہیے کہ وہ بیان بازی اور آگ لگاؤ پالیسی سے ہٹ
کر ثالث کا کردار ادا کریں اور متاثرہ جماعتوں کو پر امن طریقے سے امن و
محبت کے لئے قائل کرنے کی کوشش کریں، تاکہ کراچی کا امن بحال ہوسکے ، گزشتہ
کی قتل غارت گری چاہے وہ کسی بھی طرف سے ہوئی ہو اگر اسے بنیاد بنا کر مزید
قتل غارت کا سامان کیا جاتا رہے گا توکوئی بھی ایسا گروپ یاایسے سیاسی
عناصر جو پس پردہ ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں اپنے آپ کو سیاسی
جماعت کہلوانے کا حق نہیں رکھتے اور پاکستانی عوام کسی بھی ایسے گروپ کو
زیادہ دیر برداشت نہیں کریں گے۔
حکومت ہو یا اپوزیشن بقیہ سال گننے کے اور عوام کوسہانے خواب دکھانے کے
بجائے اپنی اپنی کمزوریوں کو دور کریں ۔ وقت ریت کی طرح ہاتھ سے پھسلتا جا
رہا ہے عوام مجبور سے مجبور تر ہوتے جا رہے ہیں اگر عوام نے سوموٹو ایکشن
لے لیا تو پھر ان سیاسی خانوادوں کے پاس کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں بچے گا۔
سیاسی جماعتوں کو اگر وطن کی تعمیر و ترقی سے کوئی غرض ہے تو وہ عوامی
سوموٹو ایکشن سے بچیں۔ کیونکہ جو قوم سب کچھ کر سکتی ہو وہ یہ بھی کر سکتی
ہے۔ |