اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے
مقرب فرشتوں کو جمع کیا اور حکم دیا کہ انسان کا مجسمہ بناﺅ،فرشتوں نے کہا
اے باری تعالیٰ ہم تیری عبادت و زیارت کرتے ہیں یہ انسان شر پھیلائے گا ،
اللہ کی تدبیریں سب سے اعلیٰ ترین ہے ، اللہ واحد لاشریک نے انسان کو تمام
مخلوقات سے زیادہ اشرف بنایا، اللہ تبارک و تعالیٰ قادر ِ مطلق ہے ہر کام
ہر حکم منشائے رب سے بھرا ہے جو کوئی بھی مخلوق نہیں جانتی۔اللہ تبارک و
تعالیٰ نے کائنات میں سب سے پہلے اپنے پیارے محبوب، نور مجسم، امام
الابنیائ، ختم الرسول، مولائے کل، سرور ِ کائنات، رحمت اللعالمین،غریب پرور،
یتیموں کے ملجا،شہنشاہ کائنات، شفیع الکونین، حضرت نبی کریم محمد مصطفی ﷺ
کو پیدا کیا اور دنیا میں تمام پیغمبروں کے بعد دنیا میں نازل کیا۔ آج کے
پندرہ سو سال پہلے کے زمانے پر اگر ہم نظر ڈالیں تو ہمیں جاہلیت تمام تر
دکھائی دیتی تھی، درحقیقت جاہلیت اسے کہتے ہیں جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی
وہی عمل کیا جائے جس کی اخلاقی، مذہبی منع ہو۔۔۔ ہر نبی کے جانے کے بعد اس
کے ماننے والوں نے الہامی کتابوں میں رد و بدل کرکے اس کی افادیت کھو دی۔
آپ ﷺ کے دنیا میں آنے کے بعد بدھ پرستی، عیسائیت، یہودیت کے مذہب کا دور
دورہ تھا۔ اس دور میں زبان و علم کی فصاحت و بلاغت دنیا بھر میں مشہور تھی
، بچہ بچہ شعر و شاعری سے نا صرف واقف تھا بلکہ فی البدیع شعر کہتا تھا۔
دنیا وی علم ہونے کے باوجود یہ در بھٹکے، گمراہ اور جاہلیت کی انتہا کو
پہنچے ہوئے تھے، اس زمانے میں معصوم بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا اور
عورت کو صرف اپنے ہوس کا ایک حصہ سمجھا جاتا تھا ، نہ ماں ،نہ بہن، نہ بیٹی
کی کوئی حیثت تھی۔جو سب سے زیادہ طاقتور تھا وہی حاکم بن جاتا تھا۔اسی
تاریخی آئینہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر ہم پاکستان کا تقابلی جائزہ کریں
تو ہمیں کیا نظر آئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج آزادی ابلاغ عامہ کی وجہ سے ہمیں اَن
دکھے واقعات سے آگہی حاصل ہوجاتی ہے، ابلاغ عامہ کے ذمہ دار وں نے جو حالات
پیش کیئے ہیں وہ پندرہ سو سال قبل کی اُس جاہلیت سے بھی کہیں زیادہ نظر آتے
ہیں۔۔۔۔ آئے روز روزنامے اور ٹیلیویژن ایسے حالات پیش کررہے ہیں جو مکمل
حقیقت پر مبنی ہیں ان میں معصوم بچیاں جن کی عمریں لگ بھگ دو سال سے چار
سال تک کی ہونگیں ان بچیوں کو وحشانہ جنسی تشددکا نشانہ بنا کر ہلاک کر نے
کا عمل جاری ہے اور ہمارے بے حس منتخب نمائندگان، وزراءو مشیر، اور سب سے
بڑھ کرپولیس ، عدلیہ چند رقوم کے عوض انہیں آزاد کردیتی ہیں جس سے معصوم
جانوں کے وحشی جنسی درندوں کے حوصلے بلند ہو تے جارہے ہیں اور انہیں کسی
قسم کی شرمندگی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ ۔۔۔ کہیں بھوک و افلاس سے پاکستانی
بیٹی خود کشی یا پھر گمراہی کے راستے پر چل نکلتی ہے ،کوئی بھی مسلم خاتون
ہر گز نہیں چاہے گی کہ اس کی عصمت بازار میں فروخت ہو، آج کی مہنگائی اور
بے روزگاری نے جسم فروشی پر مجبور کردیا ہے اور ان کی مجبوریوں سے سب سے
زیادہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے معاشرے میں انکار پھیلا رکھی ہے جو اثر و رسوخ
اور حرام کمائی کے حاکم ہیں جن پر نہ قانون عائد ہوتا ہے اور نہ عدلیہ سزا
دے پاتی ہے، یاد رکھیں اگر اس معمالے پر گرفت نہ کی گئی تو ایک دن خود ان
کی بیٹیاں بھی فروخت ہونگی کیونکہ اللہ سے جنگ بہت بھاری پڑتی ہے ۔۔۔بیمار
عوام اسپتالوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کے دم توڑ رہے ہیں کیونکہ جنھیں میسحا
کہتے ہیں وہ بھی کرائم سے باہر نہیں انھوں نے بھاری رقم عائد کر رکھی ہے
اور صحت کو ایک کامیاب کاروبار بناکر دولت لوٹنے میں کسی سے کم نہیں۔۔۔۔ تو
کہیں عطائی ڈاکٹر موت کے سوداگر بن کر موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں ، حیرت ہے
کہ انتظامیہ ، پولیس، عدلیہ اور خاص کر منتخب نمائندوں نے چپ سادھ کیوں لی
ہے اور ایسے لوگوں کے خاتمے اور روک تھام کیوں نہیں کرتے۔۔۔۔۔؟؟ خلفائے
راشدین کے خلیفہ دوئم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ
اگر میرے دور حکومت میں ایک جانور بھی بھوکا سوگیا تو میں روز قیامت کے دن
رب العزت کو کیا جواب دونگا اور اللہ کی پکڑ سے کس طرح بچ پاﺅنگا۔ آپ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ وہ ہستی ہیں جنہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا ہی میں
جنتی ہونے کا اعلان فرمایا ۔تو پاکستانی حکمران یہ کیوں نہیں سوچتے کہ وہ
کس ڈکٹیشن پر عمل پیرا ہیں جبکہ سبق ِ ریاست اور حکومت آنحضور ﷺ اور آپ کے
مقدس خلفائے راشدین نے اللہ اور اس کے رسول مقبول ﷺ کے بتائے ہوئے احکامات
پر عمل کرکے ہمارے لیئے راہ ہموار فرمائے اور بتایا کہ کامیاب ترین حکومت
کس طرح کی جائے، ہمارے پاس آج سے چودہ سو سال پہلے ہی ریاست پر حکومت کرنے
کا منشور اور ایجنڈا آچکا ہے، پھر بھی ان یہود و نصارا کی ڈکٹیشن کیوں ، ہم
بحیثیت مسلمان اور پاکستانی منشور کے تحت جب اسلامی ادوار میں رہ کر حکومت
کرنے کے پابند ہیں تو آئین کی خلاف ورزی کیوں ۔۔۔۔۔؟؟ جبکہ آنحضور ﷺ نے
واضع فرمادیا کہ یہود و مشرکین ہر گز ہرگز تمہارے دوست نہیں ہوسکتے ،آپ ﷺ
کا ہر لفظ اور بیان مقدس اور اعلیٰ ترین ہے۔ آپ ﷺ کے احکامات کی نفی نہ صرف
دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی رسوائی کا سبب بنتی ہے۔۔۔۔۔ ہمیں تو سیاست ہو
یا معاشرہ، معیشت ہو یا سفارتی تعلقات، تہذیب و تمدن ہو یا روایات گو کہ
مکمل کامیاب ضابطہ حیات آپ ﷺ نے دے دیا ہے پھر یہ بھٹکنا کیسا۔۔۔۔۔!! اللہ
تبارک و تعالیٰ نے روئے زمین پر شہدائے معروض پاکستان کے صدقے میں اتنی
دولت کے انبار عیاں کردیئے کہ اگر نیت نیتی اور سچائی کے ساتھ انہیں
استعمال کیا جائے تو پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ امیر ترین ملک ہوگا۔
پاکستانی عوام اب جان چکی ہے کہ اگر ہمارے منتخب نمائندوں اور حکمرانوں نے
ہوس و لالچ،حرص و متاع، خود غرضی سے بازنہ آئے تو انہیں یہی عوام نیست
ونعبود کردیں گے کیونکہ پاکستان اسلام کے نام پر معروض وجود میں آیا ہے اور
لاکھوں معصوم جانیں، عصمتیں قربان ہوئی ہیں ، اس پاکستان کا حامی و ناظر
اللہ ہی ہے اور اللہ کا غضب بہت بڑا ہے۔پاکستانی سیاستدان رونا روتے ہیں کہ
انہیں جمہوریت کو پروان چڑھانے کیلئے مکمل وقت نہیں دیا جاتا ، اس بار
انہیں مکمل وقت دیا جارہا ہے مگر یہ ہوش کے ناخن نہیں لے رہے بلکہ آپس میں
دست و گریباں ہوئے چلے جارہے ہیں اور ان کی توجہ ایک عام آدمی کی ضروریات
سے بالکل خالی ہے۔ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور
مسلم لیگ نون اور دیگر جماعتوں پربھی یہ شدید ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ
پاکستان میں سیاسی استحقام کو پیدا کرنے کیلئے ذاتیات پر نہ اتریں بلکہ
اختلافات کو دور کرتے ہوئے تمام پارٹیوں کو حزب جماعت اور حزب اختلاف کو
ایک میز پر جمع کرکے پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کیلئے لائحہ عمل تیار
کریں اور کم وقت میں عوامی فلاح و بہود جن میں صحت، تعلیم، روزگار، برآمدات،
صنعت و تجارت کے بہتر سے بہتر بناکر خوشحال پاکستان بنائیں ، اور پاکستان
میں موجود معدنی ذرائع سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں۔اس بھاری مینڈیٹ سے
حاصل جمہوری حکومت نے چار سال افراتفری میں گزار دیئے ہیں جن میں تمام
سیاسی جماعتیں شامل ہیں اور سب یکجا ہوکر انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت پیش
کررہے ہیں یوں لگتا ہے جیسے پاکستان میں جمہوری حکومت نہیں ہونی چاہیئے
کیونکہ جب جب جمہوری حکومتیں بنیں تب تب ان میں ہمیشہ لوٹ کھسوٹ اور سیاسی
اقربہ پروری پروان چڑھی ، کچھ جماعتیں اپنے مفادات کو حاصل کرنے کیئے
حکومتوں کو بلیک میل کرتے رہے تو کچھ نے حکومت کے ناجائز احکاموں پر اپنی
آنکھیں بند کرلی گویا ہر پاکستانی چاہے چھوٹی ہو یا بڑی سب کی سب جماعتیں
ناکام اور بےکار ہیں کیونکہ ۸۲ فروری ۸۰۰۲ءکو سے جمہوری حکومت آئی ہے تب سے
تمام سیاسی جماعتوں نے نورا کشتی کھیلنا شروع کردی ہے اور صرف اور صرف غریب
عوام کی لاشیں کہیں نہ کہیں سے اٹھائی جارہی ہیں کیا اسے جمہوری حکومت کہتے
ہیں یقیناً یہ منصوبہ بندی کے ساتھ عمل پزیر ہورہا ہے ، عدلیہ، انتظامیہ،
قانون اور افواج پاکستان سب کی سب بے بس و لاچارگی کا چہرہ بنائے بیٹھی ہیں
آخر اس قدر بے بسی کیوں؟؟ اور امریکہ کی مسلسل اندرونی و بیرونی اور دفاعی
مداخلت کوئی بہتر شگون کا پیش خیمہ نہیں ہے آخر عوام الناس کو اندھیرے میں
کیوں رکھا جارہا ہے ، اب تو پاکستان میں دفاعی علاقے، دفاعی سامان اور غیر
محفوظ کو ظاہر کیا جارہا ہے آخر اس میں کیا راز چھپائے جارہے ہیں ؟؟
پاکستان کے مستقبل کو تار تار کیوں کیا جارہا ہے؟؟ یقیناً ان سب باتوں کا
جواب سیاستدانوں ، حکمرانوں اور افواج پاکستان کے اعلیٰ افسران کے پاس ہے
پھر بھی ان کی خاموشی کیا معنی رکھ رہی ہے؟؟؟ اللہ پاکستان کا خیر کرے بہتر
ہے کہ اب آنے والے الیکشن میں سیاسی نظام میں بہتری لانے کیلئے سیاسی نظام
میں سختی برتی جائے اور پاکستان الیکشن کمیشن اگر واقعی پاکستان اور عوام
کیلئے مخلص ہے تو اسے اپنے الیکشن سسٹم میں ابھی سے تبدیلی کرنی پڑے گی تا
کہ حقدار جنہیں عوام چاہتے ہیں منتخب کرنا وہ آگے آسکے۔ اب دور جدید آگیا
ہے ، پاکستان میں نادرا نے کمپیوٹر کے ذریعے شناختی کارڈ تو بنادیئے لیکن
الیکشن کمیشن کو بہتر پروجیکٹ نہ دے سکا۔ الیکشن ۳۱۰۲ءکو الیکشن کمیشن
ووٹنگ کا سسٹم کچھ اس طرح یا اس سے بہتر تیار کرلے۔ پہلے مرحلے میں حلقہ
وازتمام ووٹرز لسٹیں کمپوٹرائز کردی جائیں ۔ ووٹنگ کے دن۔ دوسرے مرحلے میں
ایک ایسا سوفٹ ویئر بنایا جائے جس میں انگوٹھا، آنکھ، اور چہرے کا اسکین ہو۔
تیسرے مرحلہ میں انک یعنی سیاہی کا استعمال۔ ۔۔ چوتھے مرحلے میں کمپیوٹر
میں ہی منتخب نمائندوں کے نشان و تصویر پر بٹن کلک کرنا۔ اس نئے پروجیکٹ سے
یہ ہوگا کہ بوگس اور جعلی ووٹ کا انشاءاللہ خاتمہ ہوجائیگا اور مورثی سیاست
کا دم بھی نکل جائے گا تا کہ نئے نسل با عزم لوگ ملکی بھاگ ڈور سنبھالتے
ہوئے وطن عزیز اور عوام کیلئے نہ صرف سوچیں گے بلکہ اس پر عمل پیرا بھی
ہونگے ۔ میری دعا ہے کہ پاکستان سے غربت اور بے روزگاری کا ہمیشہ کیلئے
عملی خاتمہ ہو۔ آمین |