تھوڑی دور جا کر دیکھا ایک لکڑی
کے بنے ہوئے کیبن میں ایک بوڑھی عورت اپنے سامنے ٹیبل پر مختلف کھانوں کے
پتیلے سجائے بیٹھی تھی جبکہ کیبن کے پچھلے حصے میں ایک پردے کے پیچھے سے
کسی چھوٹے بچے کے رونے کی آواز آ رہی تھی، یہ کیبن ایک بڑے برساتی نالے
پرلکڑی کی چھت ڈال کر بنایا گیا تھا جس کے نیچے گندہ پانی جمع ہونے سے مچھر
کی بھر مار تھی ، میرے پوچھنے پر بابو نے بتایا کہ کہ اس بڑھیا کا خاوند
چھیانوے کے ہنگامے میں مارا گیا گھر بھی چھن گیا مگر اس کمزور بڑھیا کا
حوصلہ اتنا مظبوط تھا کہ اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ اس نالے پر جھونپڑے میں
روکھی سوکھی کھا کر پکوڑے بیچ کراپنی بیٹیوں کو پال پوس کر بڑا کیا اور بڑی
بیٹی کی شادی ایک برمی نو مسلم سے کر دی جسے اُس کے گھر والوں نے مسلمان
ہونے کی پاداش میں گھر سے اور بدھ مت برادری سے نکال باہر کیا اب وہ بھی ان
کے ساتھ اسی کیبن میں رہتا ہے، جب وہ ہماری ٹیبل پر کھانا لے کر آیا تو میں
نے دیکھا وہ نوجوان جو شاید محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر مسلمان تو ہو گیا
مگر اُس کا چہرہ اور چال چلن سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ اسلامی ماحول میں
ابھی تک ڈھل نہیں سکا ، اُس کا مسلم نام عبدالرشید رکھا گیا تھا اور اسی کی
بچی کے رونے کی آواز پردے کے پیچھے سے آ رہی تھی، گو کہ کیبن اتنا کشادہ
نہیں تھا پھر بھی اس میں چھوٹاسا پورشن پیچھے رہائش کے لیے مخصوص کر لیا
گیا تھا، کھانا گھریلو ٹائپ اچھا تھا مگر مچھرو ں نے پاﺅں میں کاٹ کاٹ کر
آگ سی لگا دی تھی اس لیے جلدی جلدی فارغ ہو کرجب ہوٹل پہنچے تو وہاں ایک
پولیس والا ہمارا منتظر تھا جس نے مجھے گھورتے ہوئے بابو سے برمی زبان میں
کچھ کہا جس کے جواب میں بابو مسکراتے ہوئے اُس سے بات کرتے کرتے کمرے باہر
لے گیا ، تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر
میں سمجھ گیا کہ یہ پولیس والے سے ہاتھ ملا آیا ہے ، اُس نے بھی ہنستے ہوئے
بتایا کہ ایک بوتل میں کام ہو گیا، صبح اُٹھے تو لکڑی کے تخت پوش پر سونے
سے کمر بھی تختہ بن چکی تھی،دراصل بابو ہی مجھے اتنی دور لے کر آیا تھا کہ
آپ جس کوالٹی کا بانس چاہتے ہیں وہ یہاں کے علاوہ کہیں نہیں ملے گا ،یہی
کہہ کر اس نے مجھے اس بیک ورلڈ جگہ آنے پر آمادہ کر لیا ، دوسرے روزاُس
چینی عورت کے ہوٹل میں کمرہ مل گیا جو مناسب تھا ،چھوٹے قد کی چینی عورت جو
انگلش بھی بول لیتی تھی اُس نے بڑ ے خوشگوار لہجے میں ہاتھ جوڑتے ہوئے
”مینگلا با“(برمی زبان میں خوش آمدید) کہہ کر ہمارا استقبال کیا ، میرا
پاسپورٹ دیکھ کر فارم بھرنے کو دیا سات ڈالر روزانہ کے حساب سے تین دن کا
ایڈوانس لے کر ایک کمرے میں میرا سامان خود لے جا کر رکھتے ہوئے بتایا کہ
باتھ روم رائیٹ ہینڈ پر کونے میں ہے باقی شرائط ایک لٹکتے بورڈ کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے کہا، فالو دِس، جس پر انگلش میں کچھ شرائط لکھی تھیں جن
میں نو سموکنگ اور شراب نوشی وغیرہ پروہیبٹڈلکھا تھا بعد میں بابو نے مجھے
بتایا کہ ہوٹل تو ایک اور بھی ہے جہاں غیر ملکی ٹھہر سکتے ہیں مگر وہاں کا
ماحول اتنا خراب ہے کہ میں نے آپ کو اُس کے بارے میں بتایا ہی نہیں، میں نے
دیکھا کہ وہ ادھیڑ عمر کی عورت اکیلی ہوٹل سنبھا لتی ہے ، اور جب اُس سے
پوچھا کہ تمہارا خاوند کہاں ہے تو اُس نے ایک رٹے رٹائے انداز میں جواب دیا،
وہ رنگون میں سروس کرتا ہے اور ایک بیٹا ہے وہ بھی وہیں پڑھتا ہے، اُس کا
کہنے کا انداز ایسا تھا کہ جس میں مزید سوال کرنے کی گنجائش نہیں تھی لہذا
میں نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا، ہوٹل کے ساتھ ہی ایک سونے چاندی کے
زیورات کی دوکان تھی جو اُس کے بھائی کی تھی ہوٹل میں اُس کے ساتھ ایک اور
عمر رسیدہ خاتون جو چلنے پھرنے سے بھی معذور لگتی تھی اُسے وہ اپنی آنٹی
کہتی تھی اور ایک پاگل سی لڑکی جس سے وہ ہوٹل کی صفائی وغیرہ کا کام لیتی
تھی، شاید ہوٹل کا کرایہ زیادہ ہونے کی وجہ سے مسافر بھی اس میں کم ہی
ٹھہرتے تھے ۔
اس کام سے فارغ ہو کر میں اور بابو بانس کی خریداری کے لیے نکلے کچھ دور
مین روڈ کے کنارے ایک مارکیٹ دیکھی جس میں صرف بانس اور ”پتے“ کے ڈھیر لگے
دیکھے ، پتے کے بارے میں بابو نے بتایا کہ یہ بانس کے گھروں کی چھت بنانے
کے کام میں آتا ہے ،جو عام طور پر دیہات میں لوگ بناتے ہیں ، یہ تقریباً
تین سے چار فٹ لمبا اور چوڑ ا خودرو جنگلی پتہ ہے جس کو چھت پر بانس کا جال
بنا کر اوپر نیچے ترتیب سے رکھ کر باندھ دیا جاتا ہے جو سورج کی گرمی اور
بارش کے پانی سے محفوظ رکھتا ہے،دو تین سال بعد یہ گل جاتا ہے تو پھر نئے
پتے جو بہت سستے دام میں مل جاتے ہیں بدل دیے جاتے ہیں، ہم لوگ جس دوکان
میں گئے وہاں ایک بوڑھی عورت نے جو بابو کو پہلے سے جانتی تھی خوش آمدید
(مینگلا با) کہا اس کے پیچھے پیچھے اُس کا خاوند بھی آ گیا،یاد رہے کہ برما
کی عورتیں ہی زیادہ تر کاروبار کو سنبھالتی ہیں اکثر مرد تو بس شراب اور
جوئے کے رسیا ہوتے ہیں۔
ہمیں جس چھت کے نیچے بیٹھایا گیا وہ بھی پتے سے بنی ہوئی تھی اور موسم گرم
ہونے کے باوجود وہاں بیٹھ کر ایک راحت سی محسوس ہوئی، اللہ کریم کی شان
کریمی ہے کہ غریبوں کو ائر کنڈیشنڈ سے بہتر ٹھنڈک پہچانے کا ایک سستا اور
صحت مند نظام عطا کر رکھا تھا جہاں بیٹھ کر بجلی کے پنکھے کی بھی ضرورت
نہیں تھی ،میرے منہ سے بے اختیار سبحان اللہ نکلا تو بابو نے میری طرف چونک
کر دیکھا جو اُس بڑھیا سے برمی زبان میں نہ جانے کیا کیا پلان بنا رہا تھا،
میں نے اُسے اپنی بات جاری رکھنے کو کہا اور ساتھ ہی پوچھا کہ جو مال ہمیں
چاہیے وہ یہاں پر دیکھا تو ہے مگر اس میں سے سلیکٹ کر کے سائز بنانے پڑیں
گے اور ہمیں تو بہت سارا مال چاہیے جبکہ یہاں تو اتنا نظر نہیں آ رہا، اس
پر بابو نے مجھے بتایا کہ میں ان سے یہی بات کر رہا ہوں، یہ لوگ کہتے ہیں
کہ آپ آڈر دینے سے ہفتے دس دن میں مال پہاڑ سے کٹوا کر منگوا لیں گے جہاں
ان کے سپلائر موجود ہیں، میں نے کچھ سوچتے ہوئے بابو سے کہا کہ جتنے دن یہ
بتا رہے ہیں اس کو دو سے ضرب دینا ہو گا اور کیا اتنے دن آپ یہاں رک سکیں
گے ؟ بابو نے فکر مند لہجے میں جواب دیا ،یہ تو ممکن نہیں اس سے رنگون میں
میرا اپنا کام متاثر ہوگا، ہاں ایسا ہے کہ میں آپ کو ایک ترجمان کا بندوبست
کر دوں گا جو آپ کے ساتھ لیبر سے آپ کی مرضی کے مطابق کام کروا سکے گا،میں
نے کہا ٹھیک ہے میں آپ کے کام کا حرج نہیں چاہتا آپ ان سے بات طے کر کے جلد
سے جلد مال کی آمد کا انتظام کروائیں اور ترجمانی کرنے والے کو مجھ سے ملوا
کر آپ واپس چلے جائیں ،میں انشااللہ یہاں کا کام سنبھال لوں گا آپ روزانہ
فون کر کے مجھ سے رابطہ رکھنا ، بابو نے اُن سے پندرہ دن میں دو کونٹینر
مال تیار کرنے کا وعدہ لیا اور انہیں کچھ ایڈوانس دے کر ہم لوگ واپس ہوٹل آ
گئے،جہاں مجھے بٹھا کر بابو ترجمان کے لیے چلا گیا، کوئی ایک گھنٹے بعد جب
وہ واپس آیا تو اُس کے ساتھ ایک دبلا پتلا سانولے رنگ کا تقریباً پینتس
سالہ ہندو جس کا نام اُس نے بابو نرئن داس بتایا جو اردو میں بات کر سکتا
تھا میں نے اس کے کام کے بارے میں پوچھا تو بابو نے بتایا کہ یہ دودھ بیچنے
کا کام کرتا ہے جو صبح کے وقت ہوتا ہے اس کے بعد یہ سارا دن آپ کے ساتھ رہے
گا، نرائن داس کے بے رونق سے چہرے پر غربت کے آثار نمایاں تھے، میرے پو
چھنے پر اُس نے بتایا کہ میرے دو بڑے بھائی ہیں ہم لوگ اپنے بوڑھے باپ کے
ساتھ یہاں رہتے ہیں، ہم لوگ برہمن ہیں اور نتائجوں میں اکیلے رہ گئے ہیں
اور کوئی ہماری جاتی کا یہاں نہیں ہے ،ہمرے باپ دادا سے گائے پالنے اور
دودھ بیچنے کا کام چلا آ رہا ہے،میںنے کہا عمر تو تمہاری کافی لگتی ہے شادی
نہیں کی اب تک ،تو اُس نے بڑے مغرورانہ لہجے میں کہا، صاب ہم لوگ برہمن ہیں
اور دوسری کسی جاتی میں شادی نہیں کرتے،میں نے تعجب سے زور دے کر کہا، چاہے
ساری عمر کنوارہ رہنا پڑے، ؟ تو اُس نے اپنی چھاتی پر ہاتھ مارتے ہوئے جواب
دیا، ہاں صاب ہم لوگ اونچی جاتی کے ہیں اور اپنی جاتی میں دوسری کسی جاتی
کو مکس نہیں ہونے دیتے چاہے ساری جندگی اکیلے ہی کیوں نہ گجارنا پڑے، ہمرے
بڑے بھائی کی شادی یہاں سے دو سو کلومیٹر دور ایک قصبے میں ہماری جاتی میں
ہوئی تھی جو ایک سال بعد ہمارے بھائی کو چھوڑ کر چلی گئی تب سے ہم سب ایک
ایسے گھر میں رہتے ہیں جہاں عورت نام کی کوئی چیز نہیں ہمرے باپ بہار(انڈیا
) سے ہیں آپ سے اردو میں بات کر کے بہت کھوس ہوں گے آپ کو میں اپنے گھر لے
جاﺅں گا، میں ہامی بھرتے ہوئے کہا ہاں بھئی ضرور چلیں گے ابھی تو تم کو
میرے ساتھ گودام پر چلنا ہے۔ |