اگلے روز دونوں بابو میرے ساتھ
گودام میں مال کی کٹائی اور پیکنگ میں ساتھ دیتے رہے یہاں ایک بات واضع
کرتا چلوں کہ میرے ایک کاروباری دوست نے مجھے ایکدفعہ کہا تھا کہ برما میں
کام کرنے سے کسی ہندو کے ساتھ کرنا ، میں نے کہا وہ کیوں ! اپنے مسلمان
بھائی کو چھوڑ کر میں ہندو کو فائدہ کیوں پہنچاﺅں، تو اُس نے بڑے اعتماد سے
جواب دیا کہ ،ہندو کا پیٹ چھوٹا اور لالچ کم ہوتا ہے وہ تمہیں فائدہ دینے
کی کوشش کرے گا جبکہ مسلمان بھائی تم سے فائدہ اُٹھانے کی زیادہ سے زیادہ
کوشش کرے گا، اور اس بات کا مجھے اچھا خاصہ تجربہ بھی ہو چکا تھا،لہٰذا میں
نے اس دفعہ ہندو ایکسپورٹر سے کام کیا جو اپنا سب کام چھوڑ کر میرے ساتھ
اتنی دور تک آیا اور چار دن بعد جب مال کی صحیح تیاری ہونے لگی تو وہ اپنی
جگہ نرائن بابو کو سب کچھ سمجھا کرجب مجھے تسلی ہو گئی تو مجھ سے اجازت لے
کر واپس رنگون گیا۔
نرائن بابو بہت باتونی تھاجو وہاں کا پیدائشی ہونے کی وجہ سے تقریباً سبھی
کے بارے میں کچھ نہ معلومات رکھتا تھا اور ویسے بھی برما میں شہر کیا گاﺅں
کیا سبھی جگہ چائے کی دوکانوں میں چھوٹے قد کی ٹیبلوں کے ارد گرد چار
پلاسٹک کی چوکیاں رکھی ہوتی ہیں جہاں چائے پینے والوں کو قہوے کا مگ فری
ملتا ہے جو خالی ہونے کی صورت میں دوبارہ بھر دیا جاتا ہے ،ایک چائے کی
پیالی پینے کے بعد دو تین گھنٹے قہوہ پی پی کر گزارے جا سکتے ہیں جو نرائن
بابو جیسے لوگ اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد وہاں بیٹھ کر ادھر ادھر کی
باتوں میں وقت گزاری کرتے ہیں ۔
نتائجوں میں چینی لوگوں کی تعداد کافی ہے اس لیے انہوں نے اپنا علیحدہ مندر
بنایا ہوا ہے جہاں بابو کے بقول شیطان کی پوجا ہوتی ہے،ہر سال میلہ ہوتا ہے
جو ایک ہفتہ جاری رہتا ہے شراب کی دوکانیں لگتی ہیں چینی بڑی بڑی ڈریگنیں
(ایک بلا کی طرح لمبی چوڑی رنگ برنگے کپڑے سے بنی سانپ کی طرح بل کھاتی
ڈریگن جس کے نیچے گھُس کر لوگ اچھل کود کر کے لوگوں کو ڈراتے ہیں) بنا کر
اُس کے نیچے جا کرنشے میں دھت ہو کر شیطانی ناچ ناچتے ہیں ،مجھے بھی یہ
میلہ دیکھنے کا اتفاق ہوا، میں نے دیکھا کچھ چینی عورتیں بانس کی پوریوں
میں پکے ہوئے چاول سڑک کے کنارے رکھ کر فروخت کر رہی تھیں بابو سے اس کے
بارے پوچھا تو اُس نے بتایا کہ یہ گیلے تازہ کٹے ہوئے بانس کی پوری میں جو
ایک طرف سے بند ہوتی ہے چاول بھر کر اُسے پوری طرح سیل کر کے گرم راکھ میں
دبا دیا جاتا ہے جس سے بانس کے اندر موجود پانی بھاپ بن کر ان کو گلا دیتا
ہے اور ان میں بانس کی مٹھاس اور خوشبو بھی آ جاتی ہے جو چینی لوگ بڑے شوق
سے کھاتے ہیں، میں نے جب چکھا تو مجھے وہ چاول کھانے میں بہت مزیدار ہلکے
میٹھے زردے کی طرح لگے جس میں ایک سوندھی سی مہک جو دل کو بھلی لگ رہی تھی
۔
دوسرے دن ہماری لیبر جو زیادہ تر عورتوں پر مشتمل تھی بابو ان کا پیغام لے
کر آیا کہ وہ لوگ بھی آپ کے خرچے پر میلہ دیکھنا چاہتے ہیں، مجھے اُس کے
بات سے اندازہ تو ہو گیا کہ بابو ہی نے ان کو اکسایا ہو گا پھر بھی میں نے
کچھ پیسے دے کر بابو کو سختی سے کہا کہ ان پیسوں سے کوئی شراب نہیں پئے گا،
بابو کو مجھ سے پیسے لیتے دیکھ کر لیبر میں ایک خوشی کی لہر سی دوڑ گئی اور
وہ ایک دوسرے کو اپنی زبان میں نہ جانے کیا کیا کہنے لگے ، بابو نے بتایا
یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ میلہ رات کو دیکھنے جائیں گے تا کہ آپ کے کام کا بھی
ہرج نہ ہو، میں نے محسوس کیا کہ مزدور کو اگر کوئی خوش کرے تو اُسے اپنے دل
میں جو ایک راحت اور تسکین سی نصیب ہوتی ہے اُس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے ،
دیکھنے والے تو کئی اس کو بیوقوف کہہ کر مذاق اُڑاتے ہوئے کوئی فقرہ کس
دیتے ہیں۔
دوسرے دن کام کرنے والوں میں تیزی دیکھ کر مجھے بھی اچھا لگا،مجھے گودام
میں ایک بانس کی بنی ہوئی آرام کرسی ڈال دی گئی تھی جہاں مجھے وقفے وقفے سے
چائے کے ساتھ قہوے کا مگ اور کچھ بسکٹ یا نمکو وغیرہ جس میں تیل کی مقدار
زیادہ ہوتی ایک سائیڈ ٹیبل پرملتی رہتی ، برما میں مونگ پھلی کی پیدا وار
بہت ہے اس لیے لوگ مونگ پھلی کو بھوننے کی بجائے گرم بھاپ میں پکاتے ہیں جس
کاٹیسٹ بھی خستہ ہو جاتا ہے، کھانا پکانے یا مچھلی وغیرہ تلنے میں زیادہ تر
مونگ پھلی کا تیل ہی استعمال ہوتا جو سستا اور تونائی بخش بتایا جاتا ہے ۔
بابو مجھ سے ہدایات لے کر لیبر کو ویسا کرنے کے لیے کہنے پر مامور تھا،
گودام کے ساتھ ہی ہمارے سپلائر کا لکڑی کے ستونوں پر بنا ہوا اونچا سا گھر
تھا جو شاید سیلابی پانی سے بچنے کے لیے چھ فٹ کی اونچائی پر بنایا گیا تھا
، نیچے خالی جگہ بھی بارش کے علاوہ دنوں میں گودام کا کام دیتی تھی ، گھر
کی سیڑھی کے ساتھ ہی ایک سٹنگ روم تھا جہاں ان کی بہواپنے ایک سالہ گول
مٹول پیارے سے بچے کو اپنی ساس کے حوالے کر کے گھر کے کام کاج میں مصروف
رہتی اُس کے خاوند نے سڑک کے کنارے ایک پی سی او کھول رکھا تھا جہاں میاں
بیوی باری باری ڈیوٹی دیتے تھے،ایک دن میں نے دیکھا سڑک کے دوسری طرف ایک
ڈھلوان تھی جہاں دس سے لے کر پندرہ سال تک کے لڑکے لڑکیاں میلے کچیلے کپڑوں
میں ایک پٹکا نما کپڑا گلے میں ڈالے پچاس ساٹھ کے قریب آ کرلائن میں بیٹھ
گئے، میرے پوچھنے پر بابو نے بتایا کہ یہ بچے مزدوری کرنے پاس کے گاﺅں سے
آتے ہیں آج ہمارے مہاجن کا پتے کا ٹرالر سامنے ندی میں لگنے والا ہے جہاں
سے یہ بچے پتے سر پر اٹھا کر گودام تک لائیں گے جس کے عوض میں ان کو کچھ
مزدوری ملے گی،یہ غریبی کی انتہا تھی کہ پڑھنے لکھنے کی عمر میں یہ بچے سر
پر پچیس تیس کلو وزن اُٹھا کر تقریباً دو فرلانگ کی دوری سے اونچے نیچے
راستے پر بڑی پھرتی سے پتے سر پر رکھ کر اُن پر پٹکا نما کپڑا ڈالے دونوں
سرے ہاتھوں میں تھامے دوڑتے ہوئے بیس تیس چکر لگا سخت محنت کر کے اپنے ماں
باپ کے ساتھ گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹا رہے تھے، تین چار گھنٹوں میں وہ
سارا مال گودام میں لگا کر ایک طرف بیٹھ گئے تو اُن میں سے ایک بڑی عمر کی
عورت نے مہاجن سے حساب کر کے مز دوری لے کر سب کو اشارہ کیا تو وہ اسکول کے
بچوں کی طرح اس عورت کے پیچھے پیچھے چل پڑے جو شاید ان کو کچھ اپنا کمیشن
کاٹ کر ان کو مزدوری بانٹ دے گی، بابو نے بتایا کہ ضرورت پڑنے پر یہی عورت
ان بچوں کو اکٹھا کر کے لاتی ہے ۔
نتائجوںمیں ایک ہی مسجد تھی جس کے پیش امام ایک بنگالی تھے میں چونکہ بنگلہ
زبان جانتا تھا اس لیے اُن سے بھی کچھ بات چیت ہو جاتی تھی،برما کے
مسلمانوں نے مسجدوں میں بہت اچھا انتظام کر رکھا ہے رنگون میں تو تقریباً
سبھی مسجدیں ائر کنڈیشنڈ ہیں اور ایک چیز جس نے مجھے بہت متاثر کیا وہ یہ
کہ جوتے رکھنے کے لیے رنگوں کی ہر مسجد میں فری اسٹینڈ بنے ہوئے ہیں جہاں
نمازی جوتا جمع کرا کے ایک ٹوکن لے کر بے فکر ہو جاتا ہے واپسی میں ٹوکن دے
کر جوتا بغیر کسی اجرت کے مل جاتا ہے ، ایک دفعہ میں نے جلدی میں جوتا
کاﺅنٹر پر جمع نہیں کرایا واپسی میں جوتا غائب تھا ،میں نے سوچا شاید
کاﺅنٹر والوں نے حفاظت کی خاطر اُٹھا کر رکھ لیا ہو گا مگر انہوں نے لا
علمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو یہاں جمع کروانا چاہیے تھا بہر حال
اب ہم آپ کو ایک پرانا جوتا دیتے ہیں جو یہاں لوگ چھوڑ جاتے ہیں اسے پہن کر
آپ گھر چلے جائیں واپس کرنے کی ضرورت نہیں، اس پر مجھے اپنا لاہور یاد آگیا
جہاں محلے کی مسجدوں سے بھی جوتے چوری ہو جاتے ہیں نمازکے دوران زیادہ تر
جوتے کی طرف دھیان لگا رہتا ہے، یہاں کا یہ دستور بہت اچھا لگا کہ نمازی بے
فکر ہو کر نماز ادا کرتا ہے، اس کے علاوہ مسجدوں میں سنہرے رنگ کے مہراب
دیکھ کر لگا کہ یہ رنگ برما کے لوگوں کا پسندیدہ رنگ ہے اسی لیے ائر پورٹ
سے آتے ہوئے ایک بڑے سے سنہرے گیٹ پر لکھا ہواہے ویلکم ٹوگولڈن لینڈ ۔
بات ہو رہی تھی نتائجوں کی مسجد کی جہاں مسلمانوں کی تعداد گنتی کی ہونے کے
باوجود بجلی نہ ہونے کی صورت میں ڈیزل سے چلنے والا جنریٹر ملحقہ مدرسہ میں
طالب علموں کے کھانے پینے اور رہائش کا عمدہ انتظام تھا،بنگالی امام صاحب
جن کا نام شفیع اللہ تھا بڑے خلیق انسان تھے انہوں نے بتایا کہ یہاں سے بہت
سارے مسلمان خاندان ہنگامے کے دوران ہجرت کر گئے ہیں اب جو رہ گئے ہیں وہ
بھی خوش نہیں ہیں کیونکہ یہاں ہمارے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک
کیا جاتا ہے، کسی نیم سرکاری محکمے میں بھی نوکری نہیں ملتی بس ہم لوگ محنت
مزدوری یا کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کر کے گزر اوقات کرنے پر مجبور ہیں ،
اُن کی باتیں سن گر دل کو ایک دھچکا سا لگا کہ غیر اسلامی ملکوں میں مسلمان
کتنی بے بسی کی زندگی گزار رہے ہیں اس بات کا اندازہ ان بے قدرے لوگوں کو
کیسے ہو سکتا ہے جو اپنی اسلامی مملکت کو غیر اسلامی بنانے کے چکر میں دن
رات اس کو لوٹنے کھسوٹنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ |