ہم بھی کیا لوگ ہیں

میں نے یہ پڑھا تو حیران بلکہ پریشان ہوگیا ہوں یہ اعدادو شمار پڑھ کرآپ کی بھی یہی حالت ہوجائے گی بنگلہ دیشی وزیر خزانہ ، اے - ایم - ایچ مصطفیٰ کمال نے بنگلہ دیش کا 5,230 ارب ٹکے کا بجٹ 2021 پیش کیا ان دنوں ایک ڈالر = 160 پاکستانی روپے کا تھا جبکہ ایک ڈالر = 85 بنگلہ دیشی ٹکہ کا تھا پاکستان کا بجٹ 7,130 ارب روپے اس کا مطلب، بنگلہ دیش، ہم سے چھوٹا مْلک ہے جبکہ کرنسی مضبوط ہے اور اس کا بجٹ ہم "امیروں" سے ÷26 زیادہ ہے اب پاکستان کے بجٹ میں 4,000 ارب روپے کا لیا گیا بیرونی قرضہ بھی شامل ہے جبکہ بنگلہ دیش کے بجٹ میں کوئی بیرونی قرضہ بھی شامل نہیں پاکستان کے ریزروز.. 13 ارب ڈالرز.. بنگلہ دیش کے 43 ارب ڈالرز. ہیں یاد رہے، کہ ہمارے پاس دریا... پہاڑ... جن پر بند باندھ کر، ڈیم بنا کر ہم سستی بجلی پیدا کر سکتے تھے جبکہ بنگالیوں کے پاس ایسا کچھ نہیں تھا.. ہمارے پاس زراعت... مگر بنگالیوں کے پاس نا ایسی زراعت، نہ نہری نظام اور آئے روز کی سیلاب کاریاں مگر ٹیکسٹائل ایکسپورٹ ہم سے تین گْنا.. اور وہ بھی بنا کپاس پیدا کئے اگر آپ ذہنی دیوالیہ پن کا شکار نہیں اور انٹلکچؤلی کرپٹ نہیں.. تو تاریخِ پاکستان کی کوئی بھی کتاب پڑھ لیں.. یقین کریں اپ کو اپنے "مْجرم" تلاش کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی ساٹھ کی دہائی تک پاکستان میں انڈسٹری فروغ پا رہی تھی۔ اصفہانی ، آدم جی ، سہگل ، جعفر برادرز ، رنگون والا، افریقہ والا برادرز (مشہورِ زمانہ ۲۲ خاندان)جیسے ناموں نے پاکستان کو انڈسٹریلائزیشن کے راستے پر ڈال دیا تھا۔ دنیا پاکستان کو انڈسٹریل پیراڈائز کہا کرتی تھی۔ماہرین کا کہنا تھا ترقی کی رفتار یہی رہی تو پاکستان ایشیاء کا ٹائیگر بن جائے گا۔ یہاں فیکٹریاں ، ملیں اور کارخانے لگ رہے تھے۔ بجائے ان کاروباری خاندانوں کے مشکور ہونے کے کہ وہ معاشی سرگرمی کو زندہ رکھے ہوئے تھے ، ہمارے ہاں سرمایہ دار کو ہمیشہ دشمن سمجھا گیا ‘ رہی سہی کسر بھٹو کے سوشلزم کے خواب نے پوری کر دی۔ ہمارے ہاں نظمیں پڑھی جانے لگیں ’’ ملیں لٹیروں سے لے لو ‘‘۔چنانچہ ایک دن بھٹو صاحب نے نیشنلائزیشن کے ذریعے یہ سب کچھ چھین لیا۔ لوگ رات کو سوئے تو بڑے وسیع کاروبار کے مالک تھے صبح جاگے تو سب کچھ ان سے چھینا جا چکا تھا بھٹو نے 31 صنعتی یونٹ، 13 بنک ،14 انشورنش کمپنیاں ،10 شپنگ کمپنیاں اور 2 پیٹرولیم کمپنیوں سمیت بہت کچھ نیشنلائز کر لیا۔ سٹیل کارپوریشن آف پاکستان ، کراچی الیکٹرک، گندھارا انڈسٹریز ، نیشنل ریفائنریز، پاکستان فرٹیلائزرز، انڈس کیمیکلز اینڈ اندسٹریز، اتفاق فاؤنڈری، پاکستان سٹیلز، حبیب بنک ، یونائیٹڈ بنک ، مسلم کمرشل بنک ، پاکستان بنک ، بینک آف بہاولپور ، لاہور کمرشل بنک ، کامرس بنک ،آدم جی انشورنس، حبیب انشورنس، نیو جوبلی، پاکستان شپبگ ، گلف سٹیل شپنگ، سنٹرل آ ئرن ایند سٹیل سمیت کتنے ہی اداروں کو ایک حکم کے ذریعے ان کے جائز مالکان سے چھین لیا گیا۔ مزدوروں اور ورکرز کو خوش کرنے کے لیے سوشلزم کے نام پر یہ واردات اس بے ہودہ طریقے سے کی گئی۔ شروع میں کہا گیا حکومت ان صنعتوں کا صرف انتظام سنبھال رہی ہے ،جب کہ ملکیت اصل مالکان ہی کی رہے گی۔ پھر کہا گیا ان ان صنعتوں کی مالک بھی حکومت ہو گی۔پہلے کہا گیا کسی کو کوئی زر تلافی نہیں ملے گا۔ پھر کہا گیا دیا جائے گا۔ کبھی کہا گیا مارکیٹ ریٹ پر دیا جائے گا پھر کہا گیا ریٹ کا تعین حکومت کرے گی۔ یوں سمجھئے ایک تماشا لگا دیا گیا۔مزدور اور مالکان کے درمیان معاملات خراب تھے یا دولت کا ارتکاز ہو رہا تھا تو اس معاملے کو اچھے طریقے سے بیٹھ کر حل کیا جا سکتا تھا۔ مزدوروں کی فلاح کے لئیکچھ قوانین بنائے جا سکتے تھے لیکن بھٹو کا مسئلہ اور تھا۔ وہ مزدور اور کارکن کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ سرمایہ داروں کے خلاف انہوں نے انقلاب برپا کر دیا ہے۔یہ تاثر قائم کرتے کرتے انہوں نے پاکستانی معیشت کو برباد کر دیا۔ عمران خان کے مشیر رزاق داؤد کے دادا سیٹھ احمد داؤد کو جیل میں ڈال کر ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔ بعد ازاں وہ مایوس ہو کر امریکہ چلے گئے اور وہاں تیل نکالنے کی کمپنی بنا لی۔اس کمپنی نے امریکہ میں تیل کے چھ کنویں کھودے اور کامیابی کی شرح 100 فیصد رہی۔آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہم تیل کی تلاش کی کھدائی کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کے محتاج ہیں۔ صادق داؤد نے بھی ملک چھوڑ دیا ، وہ کینیڈا شفٹ ہو گئے۔

ایم اے رنگون والا ایک بہت بڑا کاروباری نام تھا۔ وہ رنگون سے بمبئی لائے اور قیام پاکستان کے وقت سارا کاروبار لے کر پاکستان آ گئے۔ وہ یہاں ایک یا دو نہیں پینتالیس کمپنیاں چلا رہے تھے۔ انہوں نے بھی مایوسی اور پریشانی میں ملک چھوڑ دیا، وہ ملائیشیا چلے گئے۔

بٹالہ انجینئرنگ کمپنی والے سی ایم لطیف بھی بھارت سے پاکستان آ چکے تھے اور بادامی باغ لاہور میں انہوں نے پاکستان کا سب سے بڑا انجینئرنگ کمپلیکس قائم کیا تھا جو ٹویوٹا کے اشتراک سے کام کر رہا تھا۔یہ سب بھی ضبط کر لیا گیا۔ انہیں اس زمانے میں ساڑھے تین سو ملین کا نقصان ہوا اور دنیا نے دیکھا بٹالہ انجینئرنگ کے مالک نے دکھ اور غم میں شاعری شروع کر دی۔ رنگون والا ، ہارون ، جعفر سنز ، سہگل پاکستان چھوڑ گئے۔ کچھ نے ہمت کی اور ملک میں ہی رہے‘ جیسے دادا گروپ ، آدم جی، گل احمد اور فتح، لیکن ان کا اعتماد یوں مجروح ہوا کہ پھر کسی نے انڈسٹریلائزیشن کو سنجیدہ نہیں لیا۔ احمد ابراہیم کی جعفر برادرز اس زمانے میں مقامی طور پر کار بنانے کے قریب تھی۔ہم آج تک کار تیار نہیں کر سکے۔ فینسی گروپ اکتالیس صنعتیں تباہ کروا کے یوں ڈرا کہ اگلے چالیس سالوں میں اس نے صرف ایک فیکٹری لگائی ، وہ بھی بسکٹ کی۔ ادھر بھٹو نے صنعتیں قبضے میں تو لے لیں لیکن چلا نہ سکے۔ ان اداروں میں سیاسی کارکنوں کی فوج بھرتی کر دی گئی۔مزدور اب سرکار کے ملازم تھے، کام کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ نتیجہ یہ نکلا ایک ہی سال میں قومیائی گئی صنعت کا 80 فیصد برباد ہو گیا۔زرعی گروتھ کی شرح میں تین گنا کمی واقع ہوئی۔ نوبت قرضوں تک آ گئی۔ جتنا قرض مشرقی اور مغربی یعنی متحدہ پاکستان نے اپنی پوری تاریخ میں لیا تھا اس سے زیادہ قرض بھٹو حکومت نے چند سالوں میں لے لیا۔ خطے میں زیادہ افراط زر پاکستان میں تھا۔ادائیگیوں کے خسارے میں 795 فیصد اضافہ ہو گیا۔سٹیٹ بنک ہر سال ایک رپورٹ پیش کرتا ہے۔ بھٹو صاحب نے چار سال سٹیٹ بنک کو یہ رپورٹ ہی پیش نہ کرنے دی تا کہ لوگوں کو علم ہی نہ ہو سکے کتنی تباہی ہو چکی۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ اپنی انڈسٹری اپنے ہاتھوں سے تباہ کر کے اب ہم چین کی منتیں کر رہے ہیں یہاں اندسٹری لگائے۔کیا آپ اس اعدادوشمارسے اتفاق کرتے ہیں ہم آپ کی رائے کاانتظارکرتے ہیں(ماخوذ)
 

Ilyas Muhammad Hussain
About the Author: Ilyas Muhammad Hussain Read More Articles by Ilyas Muhammad Hussain: 474 Articles with 353239 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.