پاکستان کی صورتِ حال ، انقلاب کا پیش خیمہ

 شاہی محل پر دن ڈھل چکا تھا ۔فرانس کا بادشاہ لوئی ششم دہم معمول کے مطابق اپنی خواب گاہ میں بیٹھا ڈائری لکھ رہا تھا ۔۔وہ رنجیدہ تھا کیونکہ آج وہ شکار سے خالی ہاتھ لوٹا تھا ۔ اچانک دروازے پر زور کی دستک ہوئی ۔ بادشاہ نے ناگواری سے دربان کو اندر آنے کو کہا ۔ایک شاہی قاصد ہانپتا کانپتا ہوا اندر داخل ہوا اور فرشی سلام بجا لانے کے بعد لرزتی ہوئی آواز میں بولا ’’ جاہ پناہ !! آج پیرس کے عوام نے باسٹیل قلعہ پر ہلہ بول کر اس پر قبضہ کر لیا ‘‘ کیا یہ کوئی بغاوت ہے ؟ بادشاہ نے حیرت بھرے لہجے میں پو چھا ِ
نہیں ۔۔۔ حضور ۔۔ یہ انقلاب ہے ۔۔ شاید نہ چاہتے ہوئے بھی قاصد کے منہ سے سچ نکل گیا ۔۔۔کیونکہ واقعی یہ ایک انقلاب تھا ۔۔جس نے بادشاہت، جاگیرداری نظام کا خاتمہ کیا ۔جس نے اشرافیہ کے جبر تلے سسکتی انسانیت کو سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ دیا اور ان کے سینوں میں ایک نئی دنیا تعمیر کرنے کی امنگ جگائی ۔۔

ایسا کیوں ہوا؟ ایسے کونسے اسباب تھے جس کی وجہ سے فرانس میں انقلاب کی راہ ہموار ہوئی ؟ آج اگر ہم ٹھنڈے دل سے ان پر غور کریں تو بالکل وہی حالات وطنِ عزیز میں موجود ہیں ،جو انقلابِ فرانس کی طرح بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں ۔۔ انقلابِ فرانس کی ایک بڑی وجہ معاشی عدم استحکام تھا ۔حکمرانوں اور ان کے بیگمات کے بے جا اخراجات نے شاہی خزانے کو خالی کر دیا تھا ۔انہوں نے مختلف وزرائے خزانہ کی خدمات حاصل کیں مگر سبھی ناکام ہوئے اور حکومت کو قرض کی پالیسی اپنانی پڑی ۔۔ آج اگر ہم اپنے ملک کی معاشی حالت پر غور کریں تو یہ اس وقت کے فرانس کی معاشی حالت سے ملتی جلتی ہے ۔ خزانہ خالی ہے ۔حکومت آئی ایم ایف سے قرضوں کے سہارے چل رہی ہے مگر اس مخدوش معاشی حالت میں بھی حکمرانوں کے اخراجات میں کوئی کمی دیکھنے کو نہیں مِل رہی ہے ۔پاکستان کا ہر بچہ قرضوں تلے دبا ہوا ہے ۔

انقلابِ فرانس کی دوسری بڑی وجہ فرانس میں دو طبقاتی نظام تھا ۔ عوام دو وقت کی روٹی چاہتے تھے ،وہ بھوکے تھے ، فرانس کے پاس بہترین زرعی زمین کی کمی نہ تھی ۔ مگر فرسودہ جاگیرداری نظام کی وجہ سے زرعی پیداوار مسلسل روبہ زوال تھی ۔رہی سہی کسر ذخیرہ اندوزی نے پوری کر دی تھی ۔ حکمران طبقہ صرف زبانی عوام کے ساتھ ہمدردی رکھتے تھے مگر عملی طور پر وہ کچھ بھی نہیں کر پاتے تھے ۔ آج وطنِ عزیز میں بھی بالکل وہی حالت رواں دواں ہے ۔ ہمارے پاس بھی زرعی زمین کی کوئی کمی نہیں ، بلکہ ہمارا یہ پیارا ملک تو بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے ۔مرحوم صدر ایوب خان کے زمانے میں پاکستان گندم باہر ممالک کو ایکسپورٹ کیا کرتا تھا مگر آج ہم گندم بھی دوسرے ممالک سے در آمد کرتے ہیں اور آٹا تقریبا چودہ سو روپے فی بیس کلو تھیلہ مِل رہا ہے ۔ عوام بھوکوں مر رہی ہے اور فاقے سے خود کشی پر مجبور ہے ۔

انقلابِ فرانس کی تیسری بڑی وجہ بڑھتی ہوئی بے روز گاری تھی ۔شہروں کا ایک بڑا حصہ بے روزگاری اور شدید غربت کی زندگی گزار رہا تھا ۔

آج وطنِ عزیز میں کروڑوں نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لئے ہوئے بے روزگار پھر رہے ہیں ۔ اور بیر وزگاری کا وہی عالم ہے جو انقلاب فرانس سے پہلے فرانس کے نو جوانوں کا تھا ۔ ایک بڑی وجہ مذہبی انتہا پسندی بھی تھی ۔کلیسا ئی اشرافیہ بے لگام تھی ۔آج پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کا یہ حال ہے کہ کہیں ہندوئں کے مندر کو جلایا جاتا ہے تو کہیں سری لنکن شہری کو سیالکوٹ میں مار مار کر زندہ جلا دیا جاتا ہے ۔

صرف فرانس کا انقلاب ہی نہیں بلکہ دنیا میں چند ایک بڑے انقلابات کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کسی بھی انقلاب سے قبل حکمران طبقہ خود تقسیم ہو جاتا ہے اور اس میں موجود دراڑیں واضح شکل اختیار کر لیتی ہیں ۔ حکمران طبقے کی اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے یہ آپس کی لڑائی سماج پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے ۔فرانس میں بھی کچھ ایسے ہی ہوا تھا اور پاکستان میں بھی آج وہی کچھ ہو رہا ہے ۔ ملک میں موجود تین بڑے سیاسی پارٹیوں کے کرتا دھرتا آپس میں اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ ایسی صورتِ حال جب بھی کسی ملک میں پیدا ہوتی ہے تو انقلاب کی راہ ہموار ہو جاتی ہے ۔عوام کے دل و دماغ میں حکمران طبقات کے خلاف شدید غم و غصہ کا پیدا ہونا ایک نا گزیر عمل ہوتا ہے ۔عوام کی حالتِ زندگی انہیں انقلاب برپا کرنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔

آج وطنِ عزیز میں مہنگائی، بے روزگاری ،عوام کی بے چینی اور عوام کا اپنے تمام سیاسی قیادت سے نا امیدی کسی بھی وقت کسی بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے ۔لہذا ہماری سیاسی قیادت کو ‘ خواہ وہ کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں ‘ یہ بات ذہن نشیں رکھنی چاہئیے کہ وہ سدھر جائیں ۔ذاتی مفادات کی بجائے ملکی مفادات کو مقدم رکھیں ورنہ آج عوام کے ذہنوں میں جو طلاطم برپا ہے وہ کسی بھی وقت انقلاب کا باعث بن سکتا ہے ،پھر شاید ان کو ملک سے باہر بھاگنے کا موقعہ بھی نہ مل سکے ۔۔

 

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315448 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More