امیت شاہ کا چشمہ اور اکھلیش یادو کا آئینہ

اتر پردیش میں وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کی حالت غیر دیکھ کر وہ طالب علم یاد آتا ہے جو سال کے شروع سے امتحان کے قریب آنے تک موج مستی کرتا رہا اور جب تاریخ آلگی تو اسے پسینے چھوٹنے لگے ۔ وہ کبھی نقل کرنے کی تیاری کرتا تو کبھی پرچہ لیکن کرنے والوں کو ڈھونڈتا ہے اور سارے حربے ناکام ہوجائیں تو اپنی جگہ کسی اور امتحان گاہ میں بھیج کر پرچہ لکھوانے کی کوشش کرتا ہے۔ دہلی سے مودی ، شاہ ، راج ناتھ اور نڈا کو بلوا کر تشہیر کروانا جعلی پرچہ لکھوانا نہیں تو اور کیا ہے؟اترپردیش میں نہ تو اکھلیش یادو کسی کو بلاتے ہیں اور نہ مایا وتی کسی کو یاد کرتی ہیں ۔یہاں تک کہ پرینکا گاندھی بھی اپنے بل بوتے پر اسی طرح انتخاب لڑ رہی ہیں جیسے ممتا بنرجی نے بنگال میں الیکشن لڑا تھا لیکن یوگی سے یہ نہیں ہوتا کہ دہلی والوں سے کہیں ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے ۔ ان لوگوں کے لیے میں اکیلا ہی کافی ہوں۔ میری بدولت بی جے پی سارے ملک میں انتخاب جیت جاتی ہے تو مجھے کسی بیساکھی کی کیا ضرورت؟ فی الحال یوگی کے دونوں بغل میں مودی اور شاہ کی بیساکھی ہے۔ پیروں پر راج ناتھ اور ہاتھوں پر نڈا کا پلاسٹر چڑھا ہوا ہے ۔

یوگی جی اشتہار بازی پر خوب خرچ کرتے ہیں لیکن جب پل دکھانا ہو تو اسے کولکاتہ سے برآمد کرنا پڑتا ہے۔بند دکھانے کی خاطر آندھرا پردیش کی تصویر چرانی پڑتی ہے اور ہوائی اڈے کے لیے تو سیدھے چین پہنچ جاتے ہیں ۔ یہی سنگ بنیاد اگر چار سال قبل رکھے جاتے اورگالی گلوچ کرنے کے بجائے ان پر یکسوئی کے ساتھ کام کیا جاتا تو آج یہ چوری چکاری کی نوبت نہیں آتی ۔ مودی جی سڑک کے افتتاح اور ہوائی اڈہ و بند کے سنگ بنیاد سے فارغ ہوئے تو امیت شاہ سہارنپور میں یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے نکل پڑے ۔ شرم کی بات یہ ہے کہ جب وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ سہارنپور کے جنتا روڑ پر واقع پنوارکا میں شاکنبھری دیوی اسٹیٹ یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کی خاطر آئے تو جلسہ عام کے لیے ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے کی خاطر ضلع بھر کے تمام تعلیمی اداروں میں تعطیل کا اعلان کیا گیا ۔ اس سے بڑی حماقت اور کیا ہوسکتی ہے کہ برسوں بعد بننے والی ایک خیالی یونیورسٹی کی خاطر پورے ضلع کے طلباء کی تعلیم میں خلل ڈال کر ان کا نقصان کیا جائے۔ یہ تام جھام اگر اتنا ہی ضروری تھا تو اتوار کے دن اس تقریب کو رکھا جاسکتا تھا لیکن سنگھ کی شاکھا میں دانشمندی کی باتیں سکھائی ہی نہیں جاتیں۔

یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے اعلان کیا کہ یوگی کی قیادت میں اترپردیش کے اندر جرائم کم ہوگئے ہیں ۔ اس سے پہلے انہوں نےلکھنو میں کہا تھا کہ دوربین سے دیکھنے پر بھی کوئی جرم نظر نہیں آتا ۔ یہ دعویٰ اگر درست ہے تو وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ کی آمد کے پیش نظر 2000 سے زیادہ پولیس اہلکار تعینات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟جن میں نو ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ،20 ڈ پٹی ایس پی،37ایس ایچ او، 32انسپکٹر ،330 سب انسپکٹر ، 1440 کانسٹیبل ، 12 داروغہ و کانسٹیبل تھے۔ اس کو بھی کافی نہیں سمجھا گیا بلکہ ڈرون کیمروں سے بھی نگرانی کا اہتمام کرنا پڑا ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یا تو جرائم ختم نہیں ہوئے یا پھر مائک پر دلیری کی بڑی بڑی باتیں کرنے والے یہ کاغذی شیر اپنے سائے سے بھی ڈرتے ہیں۔ ان کے خوف کا ایک مظاہرہ تو اس وقت ہوا جب مودی جی نےشاہجہاں پور میں پروٹوکول کا بہانہ بناکریوگی کو اپنی گاڑی میں نہیں بیٹھنے دیا اور اب سہارنپور میں جلسہ گاہ کے قریب ایک کے بجائے تین ہیلی پیڈ بنوائے گئے۔ ظاہر ہے ان میں سے ایک پر امیت شاہ اور دوسرے پر یوگی ادیتیہ ناتھ کا ہیلی کاپٹر اترا ہوگا ۔ تیسرا ہیلی پیڈ باقی رہنماوں اور افسران کے لیے بنایا گیا ہوگا۔ عوام کا کیا ہے وہ تو پیدل آتے اور لوٹ جاتے ہیں۔

سہارنپور دیہات وہ حلقۂ انتخاب ہے جہاں سے کامیابی حاصل کرکے 1996 میں مایاوتی وزیر اعلیٰ بنی تھیں۔ اس میں ایک لاکھ تیس ہزار مسلمان اور پچاسی ہزار دلت رائے دہندگان ہیں دیگر ووٹرس کی تعداد کل ایک لاکھ سترہ ہزار ہی ہے۔ اس حلقۂ انتخاب سے بی ایس پی کے جگپال سنگھ چار مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔ اس بار امیت شاہ نے وہی مغربی بنگال کی ناکام حکمت عملی دوہراتے ہوئے جگپال سنگھ کو اپنی پارٹی میں شامل کرلیا ۔ قوی امکان تو یہ ہے کہ بی جے پی اس مرتبہ جگپال کو ٹکٹ سے نواز دے ۔ اس کے سبب جگپال کے وفادار ووٹرس انہیں ووٹ دیں گے لیکن مایاوتی کے پیروکار تو بی ایس پی کے ہاتھی پر مہر لگائیں گے۔ مسلمان جو جگپال کی جھولی میں اپنا ووٹ ڈالتے تھے وہ اپنا منہ پھیر لیں گے نیز بی جے پی کاپرانا وفادار امیدوار اگر بغاوت کرکے آزاد کھڑا ہوجائے تو امیت شاہ کو پھر ایک بار مغربی بنگال والی رسوائی اٹھانی پڑے گی ۔ کوئی انسان اگر ٹھوکر کھانے کے باوجود سبق نہیں سیکھے تو کوئی اس کی مدد نہیں کرسکتا۔

اتر پردیش میں چونکہ نفرت انگیزی کے سوا کوئی تعمیر وترقی کاکام یوگی جی نے نہیں کیا اس لیے لے دے کہ جرائم کی کمی کا ڈھنڈورا پیٹنے کے سوا امیت شاہ کے پاس کوئی مدعا نہیں ہے ۔ وزیر داخلہ کا المیہ یہ ہے ان کے وزیر مملکت اجئے مشرا کا تعلق اتر پردیش سےہے۔ اجئے مشرا ان کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھتا ہے اور اس کے بیٹے پر کسانوں کے قتل عام کرنے کا الزام ہے۔ اس وارادت کے بعد جس کی ویڈیوز ساری دنیا میں پھیل چکی ہیں اجئے مشرا نے اپنے بیٹے کی وکالت کی اور گرفتاری سے قبل ایک ہفتہ تک اپنی پناہ میں رکھا۔ امیت شاہ کا دائیں ہاتھ کو اپنے مجرم پیشہ ماضی پر فخر ہے۔ وہ کسانوں کو سرِ عام دھمکی دیتا ہو۔ اس کا بیٹا کسانوں پر گاڑی چڑھا دیتا ہے لیکن شاہ جی اس سے استعفیٰ نہیں لیتے تو وہ کس منہ سے اتر پردیش کو جرائم سے پاک کرنے کادعویٰ کرسکتے ہیں ۔ اس بنیاد پر اپنی انتخابی مہم چلانے سے قبل انہیں اجئے مشرا ٹینی سے استعفیٰ لینا چاہیے اور اسے اپنے مجرم بیٹے کا تحفظ کرنے کے جرم میں جیل بھیجنا چاہیے تب جاکر بات بنے گی لیکن اس طرح برہمن رائے دہندگان کو ناراض کرنے کا خطرہ بی جے پی ہر گز مول نہیں لے سکتی۔

سہارنپور دیہات میں دلت ووٹ کی خاطر رال ٹپکانے والے وزیر داخلہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے محکمہ کی تیار کردہ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق اترپردیش کے اندر گزشتہ ایک سال میں دلتوں کے خلاف جرائم کے 12714 مقدمات درج کیے گئے ہیں جو پچھلے سال کے مقابلے 7فیصد زیادہ ہیں حالانکہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بہت ساری شکایتوں کو تو درج ہی نہیں کیا جاتا ۔ امیت شاہ نے جب اتر پردیش سے جرائم کے خاتمہ کا دعویٰ کیا تو اسی ہفتہ ریاست کے اندردو الگ الگ مقامات پر دلتوں کو بے رحمانہ طریقہ پر قتل کردیا گیا۔ پہلا واقعہ ا عظم گڑھ ضلع کے چٹھو پور گاؤں میں پیش آیا جہاں سرکاری اہلکار( لیکھ پال) رام نگینہ اور ان کی بیوی کو گلا ریت کر قتل کردیا گیا۔ لواحقین کی شکایت پر نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ پولس کے مطابق یہ لوٹ مار کا معاملہ نہیں ہے تو سوال ہے کہ قتل کیوں ہوا؟

اس سے چند روز قبل پریاگ راج سے تقریباً تیس کلومیٹر دور موہن گنج گاوں میں اجتماعی قتل کی دل دہلا دینے والی واردت میں ایک دلت خاندان کے چارافراد کو گھر میں گھس کر کلہاڑی سےقتل کر دیا ۔ اس میں پھول چند ، ان کی اہلیہ مینو دیوی ، بیٹی گڑیا اور بیٹا بابو ہلاک کیے گئے۔ گڑیا نام کی بچی کو قتل سے پہلے جنسی زیادتی کا شکار بنایا گیا۔ امیت شاہ کا دعویٰ کہ اترپردیش جرائم سے پاک ہوگیا ہے کی تردید کرنے کے لیے یہ ایسے کئی واقعات کافی ہیں۔اس معاملے میں مقتولین کے رشتہ داروں نے بتایا کہ گاوں کے بعض دبنگ افراد اس دلت خاندان کی زمین پر قبضہ جمانے کی کوشش کر رہے تھے۔ان کے خلاف پھول چند نے پولیس تھانے میں ایس سی ایس ٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرایا تھا۔ مقدمہ درج ہونے کے بعد آپسی رنجش نے مزید بڑھ گئی تھی۔ پھول چند کی رشتہ دار رادھا دیوی نے الزام لگایا کہ ایس سی ایس ٹی ایکٹ کے تحت کیس درج کرانے کے با وجود پولیس نے نام زد لوگوں کے خلاف کوئی کار روائی نہیں کی کیونکہ ان کا تعلق اعلیٰ ذات سے تھا۔

پولیس نے پہلے تو اس واقعہ کے سلسلے میں دفعہ 147، 148، 149،302،376 (D) اور POCSO ایکٹ کی 3/4 اور SC/ST ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے اعلیٰ ذات کے 8 لوگوں کو گرفتار کیا مگر بعد میں تین دلت نوجوانوں کو حراست میں لے کران اعلیٰ ذات کے افرادکو رہا کردیا ۔ اس معاملے میں لواحقین نے پولس پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ متوفی خاندان کے ساتھ زمین کے تنازع میں ملوث ا علیٰ ذات کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔انہیں پون نامی 19 سالہ مقتول کے رشتے دار کی گرفتاری پر بھی شبہ ہے۔ مقتول کے بھائی نے پوچھا کہ ’’ایک لڑکا چار لوگوں کو خود ہی کیسے مار سکتا ہے؟ اور اگر دوسرے لوگ ملوث تھے تو وہ کہاں ہیں، کون ہیں؟ اور اگر لڑکے کو مقتول لڑکی کے ساتھ کوئی مسئلہ تھا، تو وہ اسے مارتا، باقی تینوں کو کیوں قتل کرتا؟ جس ریاست میں سرکاری مشنری کے ذریعہ دلتوں پر اس قدر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہوں اسی صوبے میں اگر کوئی سیاسی رہنما ان کے ووٹ کی توقع کرتا ہے تو اسے شیخ چلی کا استاد ماننا پڑے گا۔


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448632 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.