عام آدمی ہار رہا ہے

ہم پاکستانیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے نظام کی بجائے چہرے بدلنے میں دلچسپی لی۔ ریاست دشمن اور عوام دشمن نظام پر جتنا بھی روح کیوڑہ چھڑک لیں، چاندی کے جتنے بھی ورق لگا دیے جائیں بد بو کم نہیں ہو سکتی۔

الیکشن ڈسکہ میں ہو، خانیوال کا ہو یا لاہور کا جیت اشرافیہ اور شکست عوام کو ہو رہی ہے۔ بھلے مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی یا پی پی جیتے، عام آدمی ہار رہا ہے۔ بری طرح ہار رہا ہے۔ جمہوری نظام میں بے اختیار ہونا ہار ہوتا ہے۔ ہر انتخاب نچلے طبقات کو بے اختیار کرتا جا رہا ہے۔

استاد مہربان اطہر ندیم کی برسی 3دسمبر کو ہوتی ہے۔ لفظ کی حرمت اور گہرائی کو سمجھتے تھے۔ ان کے ساتھ صحافت کا آغاز کرنے والی کچھ شخصیات نے بڑا نام پیدا کیا۔ کچھ صرف سرخی باز تھے، کچھ کہانی باز۔ صحافت شخصیت پر نہ اترے تو سمجھیں ایک ملمع ہے جس نے کئی عیب چھپا رکھے ہوتے ہیں۔ اطہر ندیم عمدہ شاعر تھے۔ ذاتی لائبریری میں منتخب کتابیں تھیں۔ ان کے مشورے پر ڈاکٹر طہٰ حسین اور امین مصری کو پڑھا۔ ملفوظاتی نثر میں تذکرہ غوثیہ کی تحسین کرتے، یہ کتاب میں ڈھونڈ لایا۔ عربی، فارسی، فرانسیسی اور انگریزی ادب کے حوالے گویا سامنے دھرے ہوتے، ہم سوال کرتے فوری جواب مل جاتا۔ ایک چھوٹی سی ڈکشنری اور ڈائری ہر وقت ساتھ رکھتے۔

ڈکشنری سے شاید ہی کبھی ترجمہ دیکھنے کی نوبت آتی۔ ڈائری پر اداریہ کے لئے درکار اعداد و شمار اور معلومات درج ہوتیں۔ پاکستان کی سماجیات اور سیاسیات کو فکری کجی درست کئے بنا نہیں سمجھا جا سکتا، آج جو کچھ ہوں ان کے سکھائے کے سبب۔ بجٹ میرے لئے ایک گورکھ دھندہ ہوتا۔ سمجھ نہ آتا کہ اس کی اصطلاحات اور اعداد و شمار میں تعلق کو انتظامی و سماجی ترقی کے ساتھ کیسے جوڑوں۔ یہ اطہر ندیم صاحب نے سمجھایا کہ وسائل پہلے سے مراعات یافتہ طبقے یا گروہ پر اس کی معاشی خدمات و سماجی شراکت داری سے زیادہ خرچ کئے جا رہے ہیں تو بجٹ ناکام و ناقص ہو گا۔

حالیہ چند برسوں میں سفید پوش طبقہ اپنا بھرم کھو بیٹھا ہے۔ مہینے میں چار پانچ لوگ کسی نہ کسی طرح رابطہ کرتے ہیں۔ یہ معاملہ سب کے ساتھ ہے، دوست احباب، عزیز و اقارب اور جاننے والے بہت سے لوگ اب آپ سے مالی مدد کی درخواست کرتے ہیں۔ مطلب یہ نہیں کہ آپ کی آمدن بڑھی ہے، وہ تو شاید قدر کے حساب سے کم ہوئی ہو لیکن ریاست معاوضوں کے تعین، صحت کی سہولیات تعلیم حاصل کرنے کی آسانی اور گھر کی تعمیر کے ضمن میں جو مدد کیا کرتی تھی اب اس سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ یوں بھرم کی چادر ہمارے چہروں سے ہٹتی جا رہی ہے، نظام سے توقع لگائے ہماری ہڈیاں اب خاک کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔

موجودہ حکومت نے بے روزگار نوجوانوں، بے گھر افراد اور کاروبار کو بڑھاوا دینے کے لئے کئی سکیمیں متعارف کرا رکھی ہیں۔ ہر سکیم کے اعلان پر میں جائزہ لیتا ہوں کہ جو لوگ ہم سے مدد کی درخواست کرتے ہیں کیا وہ ان سکیموں سے فائدہ اٹھانے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ ہر بار جواب نفی میں آتا ہے۔ بعض سکیموں پر بلا سود یا آسان اقساط میں ادائیگی کی تہمت بھی چسپاں ہے۔ تہمت اس لئے کہ آج تک تفصیلات میسر نہ آ سکیں کہ ساڑھے تین برس میں اربوں روپے کی ان سکیموں سے کتنے لوگوں کو فائدہ پہنچایا گیا۔ بینک والے کہتے ہیں حکومت نے گو سلو کا چکر چلا رکھا ہے، وزیر اعظم کہتے ہیں بنکوں کا عملہ عام آدمی کو سہولت دینے کی تربیت سے محروم ہے۔ عام آدمی کبھی بینکوں کی بات پر تالی بجاتا ہے، کبھی وزیر اعظم کی بات سن کر زور زور سے تالیاں پیٹنے لگتا ہے۔ کئی دکھی آتمائیں تو سر پیٹنے لگتی ہیں۔

گزشتہ دنوں چھوٹے بھائی عقیل شریف کے پاس ایک مقدمہ آیا۔ غریب لوگ تھے۔ فیس دینے کے پیسے تک نہ تھے۔ میاں بیوی میں ناچاقی ہو گئی، پانچ چھ سال کی بچی ہے۔ علیحدگی کے باجود میاں بچی سے آزادانہ ملتا۔ پھر سابق شوہر کو ماں کے پاس رہنے والی بچی کے تحفظ کے خدشات ہوئے۔ وہ بچی لے کر غائب ہو گیا۔ بیوی کسی جج صاحب کے گھر ملازمت کرتی تھی۔ جج صاحب نے تھانہ فیکٹری ایریا کو باپ کے خلاف کارروائی کا حکم دیدیا۔ بچی کی بازیابی نہ ہونے پر عدالت نے پولیس اہلکاروں کی وردی اتارنے کا انتباہ کر دیا۔ پولیس نے باپ پر ایف آئی آر کاٹی، اس کے بھائیوں، بہنوں اور بھابیوں کو نامزد ملزمان میں لکھ لیا۔

عزت دار لوگ عورتوں کی گرفتاری کے خوف سے چھپتے پھر رہے تھے۔ بچی اور اس کے باپ کا ان میں سے کسی سے رابطہ نہیں تھا۔ تگ و دو سے عورتوں کی ضمانتیں کرائیں۔ یہ لوگ اس قدر خوف زدہ تھے کہ ضمانت کے کاغذات تھانے میں جمع کرانے کی ہمت نہیں کر رہے تھے۔ ان کے کسی ہمدرد نے یہ کام انجام دیا۔ ایسے سینکڑوں واقعات روز رونما ہوتے ہیں۔ تھانوں اور عدالتوں کے ٹھنڈے فرش پر ننگے پائوں اور الجھے بالوں والے سارے لوگ مجرم نہیں ہوتے، زیادہ تر کسی ناانصافی کا شکار ہو کر ریاست کے نظام عدل پر قربان ہو رہے ہیں۔

لاہور میں شائستہ پرویز ملک کی جگہ جمشید اقبال چیمہ جیت جاتے، چودھری اسلم گل جیت جاتے۔ خانیوال سے رانا سلیم کی بجائے نشاط ڈاہا کی بیگم جیت جاتیں، کیا فرق پڑتا۔ بجٹ میں غریبوں کے لئے مفت ادویات اور علاج کی سہولیات کم ہو رہی ہیں۔ معاشی اور مالیاتی نظام صرف سرمایہ داروں کے مفادات کا چوکیدار ہے۔ سرمائے کی قدر میں اضافہ کرنے والی قوت مزدور اور کارکن کی ہوتی ہے۔ مصنوعات کی طرح سرمائے کی ویلیو ایڈیشن بھی ہوتی ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں کہ بینک میں رقم رکھنے پر سالانہ منافع کم ملے اور بنک سے قرض لینے پر غریب کو سالانہ سود زیادہ ادا کرنا پڑے۔ کیا یہ نظام عام شہری کے لئے اطمینان بخش ہو سکتا ہے جہاں پٹواری چاہے تو اراضی کا انتقال کرے چاہے تو اسے زائد کھاتوں میں ڈال کر شہریوں کے لئے مشکلات پیدا کرے۔

ہم پاکستانیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے نظام کی بجائے چہرے بدلنے میں دلچسپی لی۔ ریاست دشمن اور عوام دشمن نظام پر جتنا بھی روح کیوڑہ چھڑک لیں، چاندی کے جتنے بھی ورق لگا دیے جائیں بد بو کم نہیں ہو سکتی۔
 

Syed Haseeb Shah
About the Author: Syed Haseeb Shah Read More Articles by Syed Haseeb Shah: 53 Articles with 39467 views I am Student i-com part2.. View More