عوام سے مکالمہ

ایک بادشاہ نے اپنے ملک کے سارے عقلمند اور دانا لوگ اکٹھے کئے اور اُن سے کہامیں چاہتا ہوں کہ تم لوگ ایک ایسا نصاب ترتیب دو جس سے میرے ملک کے نوجوانوں کو کامیابی کے اصولوں کا پتہ چل جائے، میں ہر نوجوان کو ایک کامیاب شخص دیکھنا چاہتا ہوں۔ یہ دانا لوگ مہینوں سر جوڑ کر بیٹھے اور ہزاروں صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھ کر بادشاہ کے پاس لائے۔ کتاب کیا تھی، علم و حکمت کا ایک خزانہ تھی جس میں کامیابی کیلئے اصول و ضابطے، حکمت و دانائی کی باتیں، کامیاب لوگوں کے تجربات و قصے اور آپ بیتیاںو جگ بیتیاں درج تھیں۔ بادشاہ نے کتاب کی ضخامت دیکھتے ہی واپس لوٹا دی کہ یہ کتاب نوجوانوں کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتی، جاؤ اور اسے مختصر کر کے لاؤ۔ یہ دانا لوگ کتاب کو ہزاروں صفحات سے مختصر کر کے سینکڑوں صفحات میں بنا کر لائے تو بھی بادشاہ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ لوگ دوبارہ کتاب کو سینکڑوں صفحات سے مختصر کر کے بیسیوں صفحات کی بنا کر لائے تو بھی بادشاہ کا جواب انکار میں ہی تھا۔ بادشاہ نے اپنی بات دہراتے ہوئے اُن لوگوں سے کہا کہ تمہارے یہ قصے کہانیاں نوجوانوں کوکامیابی کے اصول نہیں سکھا پائیں گے۔ آخر کار مہینوں کی محنت اور کوششوں سے مملکت کے دانا لوگ صرف ایک جملے میں کامیابی کے سارے اصول بیان کرنے میں کامیاب ہوئے کہ جان لو کہ بغیر محنت کے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوا کرتی پس اس جملے کو کامیابی کا سنہری اصول قرار دیدیا گیااورطے پایا کہ یہی اصول ہی ہمت اور جذبے کے ساتھ کسی کو کامیابی کے ساتھ منزل کی طرف گامزن رکھ سکتا ہے۔

ہمارے وزیراعظم سیدیوسف رضا گیلانی نے بھی مکالمے کا آغاز کیا ہے۔ کئی نشتتیں ہو چکی ہیں اور کئی ابھی ہونا ہیں۔ چودہ اگست سے پہلے وزیراعظم پہلا راؤنڈ مکمل کرکے قوم سے خطاب کریں گے۔ بہت اچھی بات ہے، اس کام کا آغاز وزارت سنبھالنے کے پہلے ہفتے میں ہی کردینا چاہیے تھا، چلو دیر آید درست آید۔ خوشامد ہمارے معاشرے کو ناسور کی طرح چاٹ چکی ہے اس کے باوجود اس بات کا امکان ہے کہ کوئی تو ہوگا جو ایوان اقتدار میں قید سیدّ زادے کو باہر کی حقیقی صورت حال سے آگاہ کرے گا۔ کوئی تو بتلائے گا کہ ڈرون حملے، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے نتیجے میں بم دھماکے، امن و امان کی صورت حال، کراچی میں کھلی قتل و غارت گری، بجلی، گیس کی کمی، مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی سرگرمیوں کی خطرناک حد تک کمی کی وجہ سے عوام بھوک اور ننگ سے دوچار ہیں۔

نوجوان مایوس ہیں ، پڑھنے لکھنے کے بجائے چوری، چکاری، لوٹ مار اور ڈاکہ زنی جیسے مشغلے اختیار کر چکے ہیں۔ کیوں نہ کریں جب انہیں سرکاری سطح پر اوپر سے نیچے لوٹ مار کا چلن نظر آتا ہو تو پھر کون ہے جو کتابوں میں وقت ضائع کرے، کون ہے جو دن رات محنت کرے اور کون ہے جو مہنگائی کے طوفان میں تعلیم کے اخراجات برداشت کرے۔ وزیراعظم کریں گے کیا، اختیارات تو سارے ایوان صدر میں ہیں، وہ بیچارے تو کسی سرکاری ملازم کو ٹرانسفر تک نہیں کر سکتے۔ یہ بھی ناممکن ہے کہ وہ اس مکالمے کے بعد اپنی حقیقی سفارش ایوان صدر کو پیش کر سکیں۔ اس لیے یہ کام طاقت کے اصل مرکز کو کرنا چاہیے۔ لوگ کہتے ہیں کہ انہیں ان کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں، وہ تو ملک ریاض اور کھوکھر برادران سے فارغ ہوں گے تو پھر عوام کی فکر دامن گیر ہوگی۔ انہیں عوام سے کیا لینا دینا ہے، جس خصوصی مہارت سے آزادکشمیر میں انتخابی معرکہ مار لیا ہے، اسی طرح وہ پاکستان کے آمدہ انتخابات میں سرخرو ہو جائیں گے۔ عوام بیچارے پہلے بھی محروم تھے، آئندہ بھی رہیں گے۔ مقتدر ادارے، امریکہ اور دیگر اقوام ان سے اپنے، اپنے مقاصد حاصل کرتے رہیں گے۔ ان کی رخصتی کے بعد اگر کچھ بچا تو عوام کو ماتم کرنے کا موقع میسر آجائے گا ورنہ داستان تک نہ ہوگی ان کی داستانوں میں۔

قوم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے طریقے تو بہت ہیں لیکن اس سمت جانے کو کوئی تیار نہیں۔ جو حکومت اسمبلی لاجز، ایوان صدر، وزیراعظم سیکرٹریت اور وفاقی محکموں کے بجلی کا بل بروقت ادا نہیں کرسکتی، اس نے عوام کا کیا بھلا کرنا ہے۔ یہ تومحروم لوگوں کو لارالگانے کا ایک خوبصورت طریقہ ہے۔ جو قوم بجلی اور گیس کی عدم موجودگی میںبھاری بل ادا کرتی ہے، اس سے مزید کیا قربانی مانگی جا سکتی ہے، یہ کیا کم ہے کہ قوم خزانوں کواجاڑنے والوں کو اپنے سروں پر بٹھا رکھا ہے۔

وزیر اعظم اگر قوم کو اس مایوسی سے نکالنا چاہتے ہیں تو پھر فوری طور پر بینظیر انکم سپورٹ سکیم کے پچاس ارب روپے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے بقایا جات کی ادائیگی پر صرف کریں تاکہ وہ مناسب مقدار میں بجلی پیدا کریں اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوسکے۔ بجلی کی پیداوار پوری ہوتے ہی زرعی اور صنعتی شعبے کو بجلی کے بلوں پر 30 فیصدی چھوٹ دیں، زرعی مداخل پر ٹیکس ختم کرتے ہوئے زرعی پیداور میں اضافے کی ترغیب دی جائے اور زرعی اجناس بشمول گوشت، جڑی بوٹیوں اور پھل کی ایکسپورٹ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ کھانے ، پینے ، ادویات اور لباس کی اشیاءپر ہرطرح کا ٹیکس ختم کریں ۔ سرکار ی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے سالانہ انکریمنٹ کارکردگی سے مشروط کریں۔ پٹواری کلچر ختم کرتے ہوئے تمام لینڈ ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کرنے، معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کم از کم رزلٹ کی شرح 60 فیصد مقرر کرتے ہوئے تمام اساتذہ اور انتظامی سٹاف کی ترقیاں اور سالانہ اضافہ تنخواہ اس تناسب سے ہدف حاصل کرنے سے مشروط کریں، کاغذ اور سٹیشنری پر عائد ٹیکسوں میں 50 فیصد کمی کا اعلان کریں تاکہ کتاب ، کاپی اور پنسل سستی ہو سکے۔ ایل پی جی کے تمام کوٹے منسوخ کرتے ہوئے ایل پی جی کی اوپن درآمد کی اجازت دیں۔موبائل فون کی مد میں قوم بہت سرمایہ ضائع کر رہی ہے، اس کو کم کرنے کے لیے ایک فرد کو ایک سے زیادہ سم رکھنے پر پابندی عائد کی جائے، اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں اور پچیس سال سے کم خواتین کو موبائل استعمال ممنوع قرار دیا جائے۔

غیر ملکی این جی اوز پر کڑی نظر رکھتے ہوئے، جو ادارے ملک کی مذہبی، اخلاقی اور سماجی اقدار کو نقصان پہنچا رہے ہیں ان پر پابندی عائد کی جائے۔ قانون کی پاسداری کا کلچر فروغ دیا جائے اور سب سے پہلے حکمران عدلیہ کی بالادستی کو قبول کریں اور موجودہ محاذ آرائی کو ختم کریں۔

قوم کی اصلاح کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب دعا مانگنا کم کرو گے تو مصائب نازل ہوں گے۔ جب صدقات دینا چھوڑو گے تو بیماریاں بڑھیں گی، جب زکواة دینا چھوڑو گے تو کساد بازاری عام ہوگی۔ جب بادشاہ ظلم کریں گے تو بارشیں رک جائیں گی، زنا عام ہوگا تو اچانک موت بڑھ جائے گی۔ جب ریا کاری بڑھے گی تو زلزلے بکثرت آئیں گے اور جب خدا کے قانون کے خلاف فیصلے ہوں گے تو دشمنوں کا ان پر غلبہ ہوجائے گا۔ آپ ﷺ کے یہ ارشادات گرامی ہمارے سارے مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ وزیراعظم اگر اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو اپنے جد امجد حضرت محمد ﷺ کی ہدایات کی روشنی میں لائحہ عمل مرتب کریں اور 14 اگست کی تقریر میں قرآن و سنت کو بالا دست قانون کے طور پر نافذ کرکے قوم کو مایوسی اور پریشانی سے نکالنے کا اہتمام کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سب حیلے اور بہانے ہیں۔ مسلمانوں کی فلاح اور کامیابی اللہ تعالیٰ کی حاکمیت تو تسلیم کرنے اور محمد ﷺ کی اطاعت میں ہے۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117201 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More