حب الوطنی

عمران خان پاکستانی سیاست کا ایک ابھرتا ہوا ستارہ ہے جو آجکل اپنی سیاسی حکمتِ عملی سے دھیر ے دھیرے عوامی حلقوں میں مقبولیت حاصل کر رہا ہے لیکن اس کی یہ مقبولیت اور عوامی پذیرائی کیا اسے انتخابات میں فتح سے ہمکنار کر سکتی ہے اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ ماضی میں عمران خان کا انتخابی سیاست کا تجربہ کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہیں کرسکا۔فروری ۸۰۰۲ کے انتخابات میں تحریکِ انصاف نے میاں برادران اور دوسری علاقائی جماعتوں کے ساتھ مل کر انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن سیا سی مصلحتوں اور اندرونی و بیرونی دباﺅ کی وجہ سے میاں برادران نے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا اور عمران خان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا۔ عمران خان اور ان کے سیا سی ہمنوا بائیکاٹ پر مصر رہے جسکا سارا فائدہ مسلم لیگ (ن) نے اٹھایا ۔ دائیں بازو کے سارے ووٹ مسلم لیگ (ن) نے اپنی جھولی میں ڈال لئے اور یوں عمران خان کی مدتوں کی محنت پر پانی پھر گیا۔ آج کل عمران خان اسمبلی سے باہر شورو غوغا میں مشغول ہیں اور حکومت کے ہر اچھے اور برے عمل پر تنقید کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا پر انھیں خاصی نمائندگی دی جا رہی ہے اور ٹاک شوز میں انپر خصوصی عنایات ہیں جو ان کے بار ے میں مثبت سوچ پیدا کرنے میں اہم عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔بہت سے خفیہ ہاتھ بھی ان کی پشت پر ہیں یہی وجہ کہ میاں برادران آج کل عمران خان سے قدرے محتاط بھی ہیں اور خائف بھی ہیں جس کا ا ظہارعمران خان پر انکی شدید تنقید سے ظاہر ہوتا رہتا ہے ۔ عمران خان ابھی تک چونکہ کسی حکومتی سیٹ اپ کا حصہ نہیں بن سکے لہذاا نکی تنقید میں د م خم اور ولولہ ہو تا ہے اور عوام ان کے وعدوں پر یقین کرنے کی ٹھوس وجو ہات بھی رکھتے ہیں کیونکہ حکومت میں آنے کے بعد جسطرح کی وعدہ خلافیاں ظہور پذیر ہوتی ہیں وہ فی ا لحال ان سب سے پاک و صاف ہیں۔کرکٹ کے میدانوں میں ان کی جیت اور شوکت خانم ہسپتال کا کارنامہ بھی عوام میں ان کےلئے نرم گوشہ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور پھر میڈیا بھی انھیں ایک محبِ وطن اور بے باک لیڈر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے دیکھتے ہیں میڈیا کی یہ ساری کاوشیں بار آور ہوتی ہیں یانتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہتا ہے۔لیکن اتنا تو طے ہے کہ آخری فیصلہ بہر حال بیلٹ کے ذریعے ہی ہونا ہو تا ہے اور بیلٹ کے معاملے میں قسمت کی دیوی عمران خان سے ناراض ہی رہتی ہے ۔۔

اگر ہم ۲۰۰۲ کے انتخابات کا جائزہ لیں تو ان انتخا بات میں پورے ملک سے عمران خان صرف اپنی نشست جیت سکے تھے جسکی وجہ جنرل پرویز مشرف کی سر پرستی تھی ۔تحریکِ انصاف کی ساری قیادت ان انتخا بات میں پٹ گئی تھی لیکن اس دفعہ حالات قدرے مختلف ہیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ بھی عمران خان کی کامیابی کےلئے پسِ پردہ کام کرر ہی ہے۔ عوام کے اندر اپنی اسٹیبلشمنٹ مخالف ساکھ کو قائم رکھنے کےلئے عمران خان امریکہ کو اپنی شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔امریکہ موجودہ دور کی کتنی بڑی طاقت ہے شائد ہم صحیح طور پر اس کا ادراک کرنے سے قا صر ہیں ۔ دنیا کے بہت سے مما لک امریکی دوستی کےلئے ترستے ہیں لیکن ہمارے کچھ قائدین روز صبح اٹھ کر امریکی مخالف بیان دے کر خود کو سیاست میں زندہ رکھے ہو ئے ہیں ۔ انھیں خود بھی خبر ہے کہ امریکہ کے بغیر ہمارا نظامِ حکومت نہیں چل سکے گا۔ ہم جس خطے میں رہ رہے ہیں ہم امریکی دشمنی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ بھارت کی دشمنی کیا کم ہے کہ ہم امریکہ سے بھی پنگا لینے لگ جائیں۔ ایک وقت میں ان دونوں کی دشمنی ہمیں بہت مہنگی پڑ سکتی ہے لہذا وہ سارے تجزیہ کار جو صبح شام امریکہ کے لتے لیتے رہتے ہیں انھیں تھوڑی سی حقیقت پسندی کا مظاہرہ بھی کرنا چائیے کہ جغرافیائی حیثیت سے ہم ایسے مقام پر ہیں جہاں پر بہت سے دشمن ہمیں کمزور کرنے اور ہمارے حصے بخرے کرنے کےلئے بے تاب بیٹھے ہو ئے ہیں لہذا ہمیں ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور جذباتی اندازِ فکر سے اپنا دامن بچانا ہو گا۔ہمارے بہت سے دوست نما دشمن ہمسائیے جنھیں عوام غلط فہمی کی وجہ سے دوستوں کی فہرست میں شامل کرتے رہتے ہیں وہ بھی پاکستان کے علاقوں پر ناجائز قبضہ کرنے کے منصوبے تشکیل دیتے رہتے ہیں لہذا ہمیں انتہائی دانشمندی اور چابکدستی سے اپنے استحکام اور اہمیت کو منوانا ہے اور یہ مقاصد امریکہ کی دشمنی مول کر حاصل نہیں ہو سکتے۔زمینی حقائق اور سیاسی بیان بازی میں زمین و آسمان کا فرق ہو تا ہے اور ہمارے غیر سنجیدہ اور نا عاقبت اندیش سیاستدان اس میں حدِ فاصل قائم کرنے سے عاری ہیں۔

ہمارے کچھ سیاستدان اور سیاسی اداکار یہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی سیا سی بیان بازی سے باز نہیں آتے اور عوام کو بیوقوف بنانے کے عمل کو جاری و ساری رکھے ہو ئے ہیں۔دفاع، ٹیکنالوجی اور ترقیاتی منصوبوں میں امریکہ کی اعانت کے بغیر اپنا رنگ جما نا بہت مشکل ہے ۔ بصیرت صا حبِِ شعور لوگوں سے اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ حقائق کو مکمل جزیات کے ساتھ تسلیم کر کے قومی حکمتِ عمل ترتیب دی جائے تاکہ قوم ترقی کی جانب محوِ سفر ہو سکے۔ انجانے اور عدمِ منصوبہ بندی سے سپر پاور سے ٹکرانے کی پالیسی تباہ کن ہو سکتی ہے۔ یاد رکھو بھڑکوں ،دعووں اور نعروں سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے اور نہ ہی نظامِ حکومت چلا کرتا ہے لیکن کیا کیا جائے کچھ لوگوں کا یہی وطیرہ ہے۔ انھوں نے ایسا شور زدہ اور ہیجان انگیز ماحول تخلیق کر رکھا ہے جس میں وہ کسی کی بات سننے اور اسے قابلِ غور تصور کرنے کے روادار نہیں ہیں۔ وہ اپنے موقف کی سچائی کے علاوہ کسی کی بات کو کوئی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ وہ اپنی سوچ کے علاوہ ہر سوچ کو باطل بھی تصور کرتے ہیں اور اسے قومی مفاد اور اسلام کے منافی بھی گردانتے ہیں اور اپنے اس غیر حقیقی اور غیر منطقی اندازِ فکر کےلئے انھوں نے عجیب و غریب دلائل بھی تراش رکھے ہیں۔۔

عمران خان آجکل انہی لوگوں کی محبت میں دھر نا سیاست کر رہے ہیں۔ دھرنے گرا ﺅ جلاﺅ کبھی جماعت اسلامی کی پہچان ہوا کرتے تھے لیکن آج کل عمران خان نے اس کارِ خیر کو اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ ساری دنیا کو علم ہے کہ قبائلی علاقوں میں افغانی اور دوسرے شدت پسند روپوش ہیں اور وہی سے خود کش حملوں کے سارے بمبار تیار کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں جب کسی شخص کو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھاگ کر جان بچا نی ہوتی ہے تووہ انہی قبائلی علاقوں کا رخ کرتا ہے ۔ یہاں کے لوگ پیسے لے کر ان لوگوں کو پناہ دیا کرتے ہیں اور یہ سلسلہ سالہا سال سے یوں ہی جاری و ساری ہے۔افغانستان کی جنگ کی وجہ سے اب یہ علاقہ دھشت گردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے ۔لہذا ہر کوئی شدت پسند بھاگ کر یہی پر روپوش ہو جاتا ہے کیونکہ یہاں پر پاکستانی حکومت کی رٹ نہیں ہے۔لیکن چونکہ ان قبائلی علاقوں کی وجہ سے پاکستان کا امن و امان تباہ و برباد ہو چکا ہے اور دھماکوں نے پاکستانی عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے لہٰذا ان علاقوں میں ایک سخت آپریشن کی ضرورت ہے جیسا آپریشن سوات میں کیا گیا تھا۔ وہاں پر بھی اس سے ملتی جلتی کیفیت تھی اور دھشت گردوں نے معصوم عوام کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ مولوی فضل اللہ اور صوفی محمد نے لوگوں کو اپنا یرغمال بنا رکھا تھا اور مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے لوگوں کی آزادی چھین رکھی تھی۔پاک فوج نے آپریشن راہِ راست شروع کیا اور ایک سخت معرکے کے بعد امن و امان کو بحال کیا۔ مولوی فضل اللہ اور صوفی محمد کی ساری پناہ گاہوں اور ان کی دھشت گردی کے اڈوں کا مکمل صفایا کیا گیااور ان سب کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا گیا۔ ان راہنماﺅں کا آج تک کوئی سراغ نہیں کہ وہ کہاں پر ہیں ۔ا س آپریشن میں ۵۲ لاکھ لوگ مہاجرین بن گئے لیکن فوجی آپریشن کے بعد وہاں پر امن و سکون کا دور دورہ ہے اور پاکستان کا جھنڈا پوری آن و بان سے لہرا رہا ہے۔

عمران خان ایک اچھی شہرت کے حامل محبِ وطن سیاست دان ہیں ۔ انھیں خوب علم ہے کہ پاکستان کی بقامیں ہم سب کی بقا ہے لہذا ہمیں پاکستان کی سلامتی اور اس کے استحکام کو ہر حال میں مقدم رکھنا ہو گا ۔ پاکستان سے ہی ہماری عزت، شان اور وقار قائم ہے لہذا پاکستان سے وفا اور اس کے عوام سے ہمدردی ہمیں ہر شہ سے عزیز تر ہو نی چائیے۔، ہم انسانی خون کی حرمت کو مقدم سمجھتے ہیں اور اس کے تقدس کا احترام ہم پر لازم ہے۔ پاکستانی حکومت کو امر یکہ کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چائیے کہ وہ ڈرون حملوں سے معصوم اور نہتے عوام کا قتلِ عام کرے ۔ دھشت گردوں تک پہنچنا اور ان کا صفایا کرنا حکو متِ پاکستان کا کام ہے اور امریکہ کو اس معاملے میں حکومتِ پاکستان کی معاونت کرنی چاہیے تا کہ یہ علاقہ دھشت گردوں سے پاک ہو جائے ۔اہم سوال یہ ہے کہ عمران خان کی جماعت کو ڈرون حملو ں میں ہلاک ہونے والے افراد سے اتنی ہمدردی ہے کہ وہ انکی خاطر دھرنے دے ر ہے ہیں اور گلی گلی انکی حمائت میں جلوس نکال کر ان سے اظہارِ یک جہتی کر رہے ہیں لیکن کیا عمران خان کو پاکستان میں دھشت گردی کا شکار ہو نے والے ۰۰۰۵۳ افراد نظر نہیں آرہے جوا ن دھشت گردوں کی دھشت گردی کا شکار ہو ئے ہیں جو ا نہی قبائلی علاقوں میں رو پوش ہیں جن کےلئے عمران خان دن رات شور مچا رہے ہیں اور انھیں معصوم اور مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرہے ہیں۔

کیا عمران خان کی نظر میں پاکستانی عوام کی اتنی اہمیت بھی نہیں ہے کہ وہ انکی خاطر دھرنے دیں اور ان کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کریں ۔ باعثِ افسوس ہے کہ عمران خان کو عزت، شہرت اور مقبولیت تو پاکستان کی بدولت ملے لیکن وہ معصوم پاکستانیوں کی بجائے قبائلی علاقوں میں رو پوش دھشت گردوں کے لئے جلوس نکالے۔ ڈرون حملوں کے خلاف عمران خان کے دھرنے دھشت گردوں کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں ۔اگر یہ دھرنے دھشت گردی کا شکار ہو نے والوں کےلئے دئیے جا ئیں تو اس کے مثبت نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔اس میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ قبائلی علاقے دھشت گردی کے اڈے ہیں اور وہاں سے دھشت گردوں کا صفایا کیا جانا ضروری ہے جس کےلئے آپریشن ناگزیر ہے۔ بجائے اس کے کہ عمران خان حکو مت کو ان علاقوں میں آپریشن کر کے دھشت گردوں کا صفایا کرنے میں معاونت کریں الٹا ان کے لئے جلوس نکال کر پاکستانی عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں، ان کے اس طرح کے جلسے جلوسوں سے حکومت پر دباﺅ بڑھ جا تا ہے اور اور دھشت گردی کو توانائی مل جاتی ہے۔حکومت کو تو ان عناصر سے نپٹنے کے لئے عوامی حمائت درکار ہو تی ہے لیکن عمران خاں حمائت کی بجائے حکومت کو دباﺅ میں لانے کی مہم میں جٹے ہوئے ہیں جو سرا سر حب ا لوطنی کی روح کے منافی ہے۔

عمران خان اور ان کے دوسرے ہم خیال مذہبی گروہ اگر ان دھشت گردوں کے خلاف پاکستان میں جلوس نکالیں اور دھرنے دیں تو یقین کریں یہ دھشت گراپنی موت آپ مر جائیں گےاور انھیں فرار کے لئے راستہ بھی میسر نہیں آئے گا لیکن اگر ہم ان دھشت گردوں کی بالوا سطہ حمائت جاری رکھیں گے اور ان کو تحفظ فراہم کریں گے تو پھر ہم دھشت گردی سے کبھی بھی نبر آزما نہیں ہو سکیں گے۔ کیا قبائلی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کا لہو پاکستانی عوام سے زیادہ قیمتی ہے کہ ہم ان کےلئے تو دھرنے دیتے پھر رہے ہیں لیکن دھشت گردی کی اس جنگ کا شکار ہو نے والے ہم اپنے وطنوں کے لئے مصلحتوں کا شکار بنے ہو ئے ہیں اور مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہو ئے ہیں۔پاکستان ہم سب کی پہلی محبت ہے لہذا اس کے امن، استحکام اور سالمیت کے لئے سیاسی قائدین کو ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھنا ہو گا اور پاکستان کو دھشت گردوں کی یلغار سے بچانے کےلئے عوام کو متحرک کرنا ہو گا ۔ عمران خان اگر اس کارِ خیر کا بیڑہ اٹھائیں توعوام ان کی اس کوشش کو سرا ہیں گے اور ان پر محبت کے پھول نچھار کریں گے جو انھیں اقتدار کی منزل کے قریب کر سکتے ہیں۔ امریکی دشمنی کی آڑ میں اہلِ وطن کو نظر انداز کر کے شدت پسندوں کی محبت میں دھشت گردی کے فروغ میں ایک اہم عنصر کی حیثیت سے اپنا وزن ڈالنا وطن سے غداری ہے اور عمران خان جیسے محبِِ وطن شخص کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515940 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.