ایڈالف ہٹلر کو کسی دست شناس نے
کہہ دیا کہ تمہارے ہاتھ میں دنیا پر حکمرانی کی لکیر نہیں ہے۔سرپھرے نازی
نے خنجر سے اپنے ہاتھ پر خون کی لکیر کھینچ دی اور پھر دنیا کو بتادیا کہ
خوابوں کی تعبیر اس طرح بھی ممکن بنائی جاسکتی ہے! ہٹلر کو دنیا ایک ڈکٹیٹر
کے روپ میں جانتی ہے لیکن یہودیوں کی گمراہ کن تاریخ کو نظر انداز کرکے
دیکھا جائے تو ایک ظالم اور سفاک شخص کے طور پر پورٹرے کیا جانا والا یہ
ڈکٹیٹر اپنی قوم او رملک کا وفادار نظر آتا ہے جس نے اپنی شناخت پر کوئی
سمجھوتہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اپنے لوگوں کو ممتاز ثابت کرنے کے جنون
اور جرمنی سے انتہا پسندی کی حد تک محبت نے اسے ”مجرم“ ٹھہرایا لیکن وہ
نازیوں کا ہیرو تھا اور رہے گا۔ یہ یہودیوں کا مہلک پروپیگنڈہ ہی تھا کہ
اپنی قومی بقا خطرے میں دیکھ کر فلموں ‘ٹی وی اور پرنٹ میڈیا میں ہٹلر کا
مسخ شدہ چہرہ دکھایا گیا اور اسے ایک جنونی مسخرے کے طور پر پیش کیا گیا
‘سرمائے کے بہاﺅ اور پروپیگنڈے کے دباﺅ میں ہٹلر کے کارنامے کہیں پیچھے رہ
گئے اور لوگوں کو یاد رہا تو صرف ایک ڈکٹیٹرجس کے بارے میں خود مغربی تاریخ
دانوں کا اعتراف ہے کہ وہ ایک نرم دل‘ محبت کے جذبوں سے سرشار اور انسانیت
سے ہمدردی کرنے والا انسان تھا،اس کا ثبوت ایکٹریس ایوا براون سے
ہٹلرکامشہورِ زمانہ معاشقہ ہے۔
میں نے جب احمد شاہ صاحب سے انٹرویو کا طے کیا تو میرے ذہن میں کئی سوالات
تھے جو میں ان سے اسی نوعیت کے پروپیگنڈے کے تناظر میں پوچھنا چاہتا
تھا۔پچھلے کئی سالوں سے تعارف اور ملاقات کے باوجود بہت زیادہ قریب سے نہ
سہی مگر ان کی ذات اور شخصیت کا مشاہدہ ومطالعہ کرتے ہوئے مجھے کبھی یقین
نہیں آیا کہ یہ شخص ہٹ دھرم یا سخت گیر ہوسکتا ہے۔ جو شخص پہلی ہی ملاقات
کے بعد دوسری بار سامنا ہونے پر آپ کو نام لیکر مخاطب کرے اس کی سچائی اور
مخلصی پر شک کرنے کی گنجائش نہیں رہتی اور احمد شاہ ان لوگوں میں شامل ہیں
جو ایک بار کسی کو اپنا لیں تو پھر انہیں بھولتے نہیں ہیں۔ ہٹلر کی طرح وہ
بھی تقدیر کی دھارا موڑنے والوں میں سے ہیں لیکن اس کیلئے انہیں اپنا ہاتھ
زخمی کرنا نہیں پڑا۔ ان کے والد تو یہ چاہتے تھے کہ بیٹا فوج میں بھرتی
ہوجائے یا پولیس میں افسر لگ جائے لیکن وہ اپنی دنیا آپ کھوجنے والے تھے ۔
9 اگست 1959ءکو جب احمد شاہ دنیا میں آئے تو اس وقت تک ان کے والد زندگی کی
ناآسودگیوں سے جنگ لڑرہے تھے ،کنسٹرکشن کا چھوٹا موٹا کام تھا مگر شاید
یہ”بخت آور“ کی آمد تھی کہ تقدیر اس خان دان پر مہربان ہوتی چلی گئی اور ان
کے والد کا تعمیراتی کام چل نکلا۔ پانچ بہنوں اور بڑے بھائی کے لاڈلے چھوٹے
شاہ نے بڑا بھرپور بچپن گزارا ‘کرکٹ‘فٹبال‘ معاشقے اور شاعری.... احمد شاہ
کو بہت چھوٹی عمر میں ہی ان رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل گیا۔ جو
محرومیاں ان کے والد نے اپنے بچپن اور جوانی میں دیکھ لی تھیں ،کوشش کی کہ
اپنی اگلی نسل میں اس کا مداوا کردیں لہٰذا تمام بچوں کو اچھے اسکولوں میں
تعلیم دلوائی ۔احمد شاہ کی اسکولنگ ناظم آباد نمبر4میں ہیپی ڈیل گرائمر
اسکول میں ہوئی جس کے بعد وہ جناح گورنمنٹ کالج چلے گئے اور انٹر میڈیٹ کے
بعد انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز کے ارادے سے کراچی یونی ورسٹی میں داخلہ
لیا لیکن غیر نصابی سرگرمیوں میں ایسے الجھے کہ ماسٹرز کا سپنا ادھورا رہ
گیا۔ تاریخ پیدائش کے اعتبار سے ان کا برج اسد(Lion) ہے جس میں شیروں والی
تمام خوبیاں اور صفات پائی جاتی ہیں‘ دلیرانہ فیصلہ کرنے کی قوت‘ بہادری سے
مقابلہ اور بادشاہت ،ان صفات کے تو ہم بھی گواہ ہیں مگر خود شاہ صاحب کا
کہنا ہے کہ بادشاہ گر کہلوانے میں جو سکون ہے وہ خود بادشاہ ہونے میں
نہیں!!
Lion لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بارعب ‘باوقار‘ وسیع القلب‘وسیع
النظر اور شاہ خرچ ہوتے ہیں اور یہ تمام صفات شاہ صاحب کی ذات کا حصہ ہیں ۔
اس اسٹار کے حامل لوگ منصوبہ ساز اور حکم چلانے کے حوالے سے مشہور ہیں لیکن
فطری طور پر تنظیم ساز اور اشتراک کار کی صلاحیت سے مالا مال ہوتے ہیں۔
محمد احمد شاہ کی ان فطری اور خداداد صلاحیتوں کو ان کے مخالفین نے اپنی
پروپیگنڈہ مہم کا حصہ بنایا اور انہیں ایک ڈکٹیٹر کے روپ میں پیش کیا جو
آرٹس کونسل آف پاکستان کے معاملات آمرانہ انداز میں چلاتاہے اور جن کی
پالیسیوں نے اس عوامی ثقافتی ادارے کو کمرشل بنادیا ہے لیکن احمد شاہ اپنے
روایتی جوشیلے انداز میں بڑا نپا تلا جواب دیتے ہیں کہ” اگر میں نے آرٹس
کونسل کو کمرشل ادارہ بنادیا ہے‘ یا میرے آمرانہ فیصلے ادارے کے مفاد میں
نہ ہوتے تو کیا مجھے اتنی بھاری تعداد میں ووٹرز کا اعتماد حاصل ہوتا؟میرا
ووٹر کون ہے ؟ شاعر ‘ ادیب ‘ پینٹر‘صحافی‘انٹلکچوئل....ان لوگوں کو قائل
کرنا کیا آسان ہے؟ میں ان مشکل ووٹرز کی سپورٹ سے اس مقام تک اگر پہنچا ہوں
تو اس کا واضح مطلب ہے کہ ممبران کو مجھ پر اعتماد ہے!!“
محمد احمد شاہ نے آرٹس کو نسل آف پاکستان کو کراچی کا معتبر ثقافتی ادارہ
بنانے کے لئے انتھک جدوجہد کی‘ ان کی کوششوں سے اس ادارے کی نا صرف کھوئی
ہوئی ساکھ بحال ہوئی بلکہ یہاں ہونے والے ترقیاتی کاموں اور انقلابی
اقدامات کی دھوم پاکستان سے باہر دوسرے ملکوں میں بھی ہونے لگی ہے۔محمد
احمد شاہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ تین سال مسلسل اعزازی سیکریٹری کے
عہدے پر الیکشن میں کامیابی کے بعد 2010ءمیں ادارے کے پہلے منتخب صدر کی
حیثیت سے بھی جیت کر آئے۔ اس سے قبل آرٹس کونسل کی صدارت کمشنر کراچی یاDCO
فرماتے تھے۔ احمد شاہ کی کوششوں سے اس ادارے میں حقیقی جمہوریت متعارف ہوئی
اور اب آرٹس کونسل کا نمائندہ ہی ادارے کی صدارت کے فرائض سرانجام دے گا۔
ان کامیابیوں ‘جدوجہد اور فن وثقافت کی ترویج وترقی کیلئے شاہ صاحب کی
مسلسل وانتھک کوششوں کے باوجود شاہ صاحب کے مخالفین ان کی خدمات کا اعتراف
کیوں نہیں کرتے؟ان چبھتے ہوئے سوالوں کے ساتھ ہم اسLion کے سامنے تھے جس کی
گفتگو میر‘ غالب‘اقبال‘ ناصر کاظمی ‘جون ایلیا سے شروع ہوتی ہے اور مشتاق
احمد یوسفی پر اس کا اختتام ہوتا ہے۔
٭سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ مڈل کلاس فیملی سے آنے والے ایک شخص کو خود
کومنوانے کیلئے کن کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا؟
میرے والد نے بہت نیچے سے اپنا سفر شروع کیا ،یوں کہنا چاہئے کہ میرے
خاندان نے بہت غربت دیکھی ہے‘ اس شہر میں میرے والد مزدوری کرتے تھے۔
مانسہرہ سے ہجرت کرکے کراچی آئے تاکہ کم ازکم بچوں کو بہتر مستقبل دے سکیں
۔بے حد مذہبی اور تہجد گزار انسان تھے‘ محنت اور اصولوں کے معاملے میں
انتہائی سخت....‘ اسی کا نتیجہ ہے کہ بہت جلد کنسٹرکشن کے بزنس میں اپنی
جگہ بنالی۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو اس وقت تک ہم معاشی طور پر اپنے پیروں
پر کھڑے ہوچکے تھے‘ گھر‘گاڑی اور کاروبار‘ یہ سب تھا ہمارے پاس۔یعنی ایک
نسل نے قربانی دی تو دوسری نسل کو استحکام ملا۔ میں جب اسکول جاتا تھا تو
میرے پاس موٹر سائیکل تھی اور والد نے وعدہ کیا تھا جس دن یونیورسٹی جاﺅں
گاتو مجھے گاڑی کی چابی مل جائے گی‘ یوں جب میں نے کراچی یونی ورسٹی میں
ایڈمیشن لیا تو اپنی کار میں داخل ہوا۔والد مجھ سے صرف ایک ہی چیز کی
ڈیمانڈ کرتے تھے کہ میں پڑھ لکھ جاؤں،اسی لئے میری ہر جائز وناجائز خواہش
پوری کردیتے تھے۔ جب میں یونی ورسٹی گیا تو اللہ کا شکر تھا کہ پندرہ بیس
دوستوں کے کھانے کا بل میں ادا کرتا تھا۔ یار باش طبیعت تھی، محفلوں میں
مزہ آتا تھا‘ حالت یہ تھی کہ میری گاڑی مختلف دوستوں کے زیر استعمال رہتی
تھی۔ اس حوالے سے مجھے کبھی پریشانی نہیں ہوئی کہ پٹرول کے پیسے نہیں ہیں
یا جیب خرچ نہیں ہوتا تھا! یہ سختیاں میرے والد جھیل چکے تھے۔
٭اس بات کا احساس کب ہوا کہ آپ کے اندر قائدانہ صلاحیتیں موجزن ہیں اور ان
سے فائدہ اٹھانا چاہیئے؟
لیڈرشپ کا جنون تو بچپن سے ہی تھا‘ میں اپنے اسکول کی طلباءتنظیم کا صدر
تھا، کرکٹ اور فٹبال کی ٹیمیں بنائیں تو اس کا کیپٹن رہا۔ دراصل یہ چیز تو
آپ کے اندر پروان چڑھتی ہے اور پھر موقع ملنے پر ظاہر ہوجاتی ہے۔
٭ایک اسپورٹس مین کو شعروادب سے کیسے لگاﺅ ہوگیا!
میری روح اس طرف مائل تھی‘ آپ کو حیرت ہوگی کہ جب میں ساتویں کلاس میں تھا
تو اقبال کی شاعری مجھے ازبر ہوچکی تھی۔شکوہ جواب شکوہ‘ حافظے میں اس طرح
محفوظ ہوئی کہ آج تک نقش ہے۔ میٹرک کرنے سے پہلے میں میرتقی میر‘غالب اور
ناصر کاظمی کو پڑھ چکا تھا‘ حالانکہ غالب کے بعض اشعار فارسی استعاروں کی
وجہ سے میرے سمجھ میں بھی نہیں آتے تھے لیکن مجھے وہ ہمیشہ سےFascinate
کرتے تھے۔
٭شاعری سے اس قدر لگاﺅ کی وجہ صحبت تھی یا پھر یہ کلی طو رپر دل کا معاملہ
تھا؟
صحبت تو ایسی نہ تھی لیکن مجھے قابل لوگوں سے ملنے کا جنون تھالہٰذا میں
انہیں تلاش کرلیتا تھا‘ عبیداللہ علیم سے میری دوستی اس طرح ہوئی کہ وہ ایک
ورکشاپ پر اپنی فوکسی( کار) کا کام کروارہے تھے۔ میں پہچان کر آگے بڑھا اور
تعارف کروایا،Ray Ban کا چشمہ لگاکر وہ اور بھی خوب صورت لگنے لگتے تھے۔
میں نے عبیداللہ علیم کواس کے چالیس اشعار سنائے تو وہ حیران رہ گیا‘اس کے
بعد ہم اچھے دوست بن گئے۔ میں اس وقت نویں کلاس میں تھا۔ ان کی رہائش پہاڑ
گنج میں تھی۔ وہاں آنا جانا شروع ہوا تو صابر ظفر اور جون ایلیا سے بھی
قربت ہوگئی۔
٭فیملی کی طرف سے کتنی سپورٹ تھی‘ کیا ان غیر نصابی سرگرمیوں کو گھر والوں
نے قبول کرلیا تھا؟
میرے والد سخت مذہبی آدمی تھے‘ اکثر مجھے شعر وادب میں ڈوبا دیکھ کر بے حد
ناراض ہوتے تھے۔ ان کا ایک ہی مطالبہ ہوتا تھا کہ پڑھائی پر توجہ دو جبکہ
میرا یہ خیال تھا کہ نصابی کتب مجھ جیسے طالب علم کی تسکین کیلئے ناکافی
ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے خاندان میں کوئی بڑا آدمی پیدا ہی نہیں ہوا
تھا‘ ہمارا سلسلہ نسب سید علی ہمدانیؒ سے ملتا ہے جو فارسی کے بہت بڑے شاعر
تھے‘ وہ شاہِ ہمدان بھی کہلاتے ہیں۔ ہمارے ایک قریبی عزیز ڈاکٹر سید
عبداللہ ‘پنجاب یونی ورسٹی کے پروفیسررہ چکے ہیں، اردو کے لئے ان کی گراں
قدر خدمات ہیں، بہت بڑے ریسرچ اسکالر تھے! مگر یہ حقیقت ہے کہ مجھ سے پہلے
میری فیملی میں کسی کو ادب اور آرٹ سے اتنی دلچسپی نہیں تھی۔
٭کم عمری میں ہی میر، غالب اور اقبال جیسے شاعروں کو پسند کرنے کی وجہ....؟
جبکہ یہ تو خاصے مشکل شعراءہیں؟
دراصل نوجوانی میں دوسرے لڑکوں کی طرح میں بھی خاصا رومینٹک تھا‘ خوب صورت
لڑکیاں دیکھ کر دل میں گھنٹےاں سی بج اٹھتی تھیں! حسن پرست تھا تو ہر حسین
چیز متاثر کرتی تھی لہٰذا روایتی شاعری بھی پسند تھی‘ ناصر کاظمی کے ساتھ
غالب میں بھی دلچسپی تھی ! اس کی وجہ یہ تھی کہ میں خود بھی مشکل پسند ہوں۔
میٹرک تک میں اچھا خاصا اور اردو لٹریچر پڑھ چکا تھا۔ پھر یونی ورسٹی آیا
تو کچھ تشنگی سی محسوس ہوئی‘ انگریزی سے لگاﺅ ابتدا میں تو کومپلیکس کی وجہ
سے تھا کہ ہماری سوسائٹی میں انگریزی سے نابلد شخص کو پڑھا لکھا ہی نہیں
گردانا جاتا مگر بعد میں جب انگریزی لٹریچر پڑھنے کو ملا تو اندازہ ہوا کہ
دنیا کتنی وسیع ہے۔ دراصل یہ دنیا کی واحد زبان ہے جس میں فرنچ‘ جرمن‘
روسی‘ جاپانی‘ ہر زبان کا لٹریچر ترجمہ کیا گیا ہے۔بدقسمتی سے اردو ادب
کادامن اتنا وسیع نہیں ہے۔ ترجمے کے میدان میں یہاں اس معیارکا کام نہیں
ہوا ہے لہٰذا عالمی ادب کے مطالعے کیلئے آپ کا انگریزی جاننا ضروری ہے۔
یونی ورسٹی میں ایک اور آسانی یہ ہوئی کہ ایک لڑکی سے دوستی ہوگئی جو مجھ
پر جان نچھاور کرتی تھی! اس کے والد کی ذاتی لائبریری میں انگریزی ادب کا
وسیع ذخیرہ تھا چنانچہ اس کے توسط سے مجھے وہ ساری کتابیں پڑھنے کو مل
گئیں۔ کے ڈی اے اسکیم ون میں اس کی رہائش تھی‘ میں اس کے گھر جاتا اور اپنی
مرضی کی کتاب لاکر پڑھ لیتا۔ وہاں سے انگریزی ادب کی طرف رجحان ہوا! اس کے
بعد میں نے شیخ ایاز کی ترجمہ کردہ شاہ لطیفؒ کی شاعری کو بھی پڑھا‘
سرائیکی چونکہ مجھے آتی ہے لہٰذا پنجاب جاکر بابا بھلے شاہؒ ‘بابا فریدؒ
‘اور شاہ حسینؒ کا کلام کھوج کر اس کا مطالعہ کیا، غرض مطالعے کا مجھے جنون
کی حد تک شوق تھا اور ہے۔
٭غیر نصابی سرگرمیوں میں اتنی مصروفیت کے بعد تعلیمی ریکارڈ کی کیا صورت
تھی؟ اچھے طالب علم تھے یا....؟
بہت برُا بھی اور بہتر بھی !!برا اس حوالے سے کہ کبھی اچھے نمبرز آجاتے تھے
اور کبھی نہیں بھی آتے تھے!البتہ کلاس میں ٹیچرز مجھ سے بڑے پریشان رہتے
تھے۔ دراصل میں سوال اٹھانے والا اسٹوڈنٹ تھا! مثلاً ہماری ایک ٹیچر تھیں
مسز خان‘ وہ میرتقی میر کے خالصتاً رومانوی اشعار کی بھی عشقِ حقیقی کے
تناظر میں تشریح کردیتی تھیں‘ میں بحث کرتا کہ میڈم ایسا نہیں ہے! ان اشعار
میں لڑکی کو ہی مخاطب کیا گیا ہے اور اس کا عشقِ حقیقی سے دور کا بھی واسطہ
نہیں ہے۔ اس بحث اور سوال اٹھانے کا اکثر یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ مجھے کلاس
روم سے نکال باہرکردیا جاتا تھا! دراصل میرے نزدیک نصابی کتب کا معاملہ
محدود تھا اور اسکول یا کالج میں تو ہر اسٹوڈنٹ کے ساتھ دو جمع دو‘ برابر
چار والا معاملہ کیا جاتا ہے۔
٭پہلا عشق کب ہوا؟
بے انتہا عشق کئے۔دراصل یہ بھی ایک مائع شے ہے جس میں تغیر اور تبدل ہوتا
رہتا ہے، اس کا تعلق آپ کی ذہنی عمر اور جذباتی سطح سے ہوتا ہے۔ آپ کسی سے
بے پناہ پیار کرتے ہیں مگر جب جذبات کی لہر یں دم توڑتی ہیں تو اندازہ ہوتا
ہے کہ وہ تو کچھ اور تھا! ایک وقت آتا ہے کہ جب آپ سمجھتے ہیں جس سے آپ
پیار کرتے ہیں اس کے بغیر جینا محال ہوگا‘ ساتھ جینے اور ساتھ مرنے کی
قسمیں کھائی جاتی ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔جذباتیت اور محبت میں
بہت باریک سی لکیر ہے۔ میرا پہلا عشق کلاس7th میں تھا‘ ہمارا اسکول چونکہ
coایجوکیشن تھا تو اپنی کلاس میٹ سے ہی فرسٹ کرش ہوا‘ اور یہ کوئی معمولی
حادثہ نہیں تھا ‘ اس میں رومینٹک فلموں والے تمام فارمولے شامل تھے۔خط لکھے
جارہے ہیں، بالکونی یا کھڑکی سے دیدار کی طلب میں گلی میں گھنٹوں انتظار
ہورہا ہے‘ ایک جھلک دیکھنے کی تڑپ میں رونا دھونا‘ یہ سب کچھ گزری !پہلا خط
جو میں نے اسے لکھا تھا وہ آٹھ صفحات پر مشتمل تھا جس میں اشعار کی مدد سے
جذبات اور کیفیت بیان کی تھی! یعنی گھمسان کا عشق تھا جس میں جدائی‘
فراق‘تڑپ‘ ساری کیفیات تھیں مگر ایک بات کا ہمیشہ خیال رکھا کہ جو بھی کام
ہو،تہذیب کے دائرے میں ہو۔ کبھی ایسی حرکت نہیں کی کہ کسی کی بدنامی کا
باعث بنے ۔ میرااس کے گھر آنا جانا تھا اور پھر بعد میں یہ بھی ہوا کہ اس
کی شادی ہوگئی تو اس کے بچوں کی شادی میں بھی شریک ہوا۔ میری فطرت میں شامل
ہے کہ جب ایک بار کسی سے تعلق جڑ گیا تو پھر زندگی بھر اسے نبھایا۔ اس عشق
کے بعد بھی جتنی لڑکیوں سے تعلق جڑا‘ آج تک ان کے رابطے میں ہوں۔
٭نوجوانی میں کیا خواب دیکھتے تھے‘کیا کچھ کرنے کا ارادہ تھا؟
میری والد تو چاہتے تھے کہ میں فوج میں جاﺅں‘ میرا توISSB کا لیٹر بھی آگیا
تھا جسے والد سے چھپ کر پھاڑ دیا۔پھر پولیس میں رضا کارانہ بھرتی کا سلسلہ
شروع ہوا ، والد نے زبردستی وہاں بھیج دیا۔ جب مجھ سے پوچھا گیا کہ کس کس
شعبے میں دلچسپی ہے تو میں نے انٹرویوکرنے والے کے سامنے میر تقی میر کے وہ
اشعار پیش کردیئے جو ان کے دیوان میں بھی نہیں ہیں۔ مجھے فزیکل اور
پریکٹیکل دونوں امتحانوں میں فرسٹ پوزیشن کے ساتھ پاس کردیا گیا لیکن وہ
میرے مزاج کا کام نہیں تھالہٰذا چھوڑ چھاڑ کر آگیا۔ دراصل میں ڈسپلنڈ لائف
کا قائل نہیں ہوں۔میرامزاج آرٹ اور کلچر ہے ،بندوق اور گولی نہیں!!
٭فوج اور ڈسپلن کے آپ قائل نہیں مگر مخالفین تو آپ پر الزام لگاتے ہیں کہ
احمد شاہ آمرانہ ذہن کا آدمی ہے جس نے آرٹس کونسل کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
آپ پرڈکٹیٹر ہونے کا الزام کیوں لگایا جاتا ہے؟
میں ڈکٹیٹر ہوں اور نہ آمریت پسند کرتا ہوں! میرا کوئی فیصلہ مشاورت کے
بغیر نہیں ہوتا اور اس بات کے آپ لوگ بھی گواہ ہیں! میری مشاورتی ٹیم صرف
گورننگ باڈی کے اراکین تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں دو تین سو لوگ شامل
ہیں جو میری ٹیم کا حصہ ہیں! یہ سب مل کر طے کرتے ہیں کہ کون الیکشن لڑے گا
اور کون نہیں؟دراصل میں رزلٹ اور ینٹڈ آدمی ہوں! چاہتا ہوں کہ چیزیں وقت پر
ہوں‘ اسی لئے میٹنگز میں زیادہ وقت ضائع نہیں کرتا۔ لیکن یہ تاثر غلط ہے کہ
میں مشاورت نہیں کرتا ۔ میں صرف کنسرن لوگوں سے مشاورت کرتا ہوں‘ اگر میوزک
کی بات ہو تو میں ارشد محمود اور نیاز احمد(موسیقار) کے ساتھ کمرہ بند کرکے
بیٹھ جاتا ہوں‘ لٹریچر کے حوالے سے میں مشتاق یوسفی‘ ڈاکٹر اسلم فرخی‘
فاطمہ حسن‘ مبین مرزا ‘یاور صدیقی سے رائے ضرور لیتا ہوں۔ان کے ساتھ مسلسل
میٹنگز کرتا ہوں۔ اردو کا نفرنس ‘اتنا بڑا کام ہے اس کا انعقاد ان لوگوں کے
بغیر ممکن ہی نہیں۔ مجھے تو کچھ بھی نہیں آتا!میرا علم محدود ہے لیکن آرٹس
کونسل کے ممبران نے ایک ذمے داری دی ہے لہٰذا میں اپنا کردار ادا کرتا
ہوں۔ہاں جب میں دیکھتا ہوں کہ کوئی ایک گروپ دوسرے کو سائیڈ لائن کررہا ہے
یا کسی کی حق تلفی ہورہی ہے تو پھر میں کسی کی نہیں سنتا !دراصل ہمارے شعبے
میں لابیاں بھی بہت بن گئی ہیں، مختلف قسم کے تعصبات ہیں، میں ان کا قلع
قمع کرتا ہوں ۔آپ مجھے بتائیں ،میں نے آج تک آرٹس کونسل کے مفاد میں جو
فیصلے کئے وہ بہتر ثابت ہوئے یا غلط؟ جب میرا ووٹرمیری پالیسیوں سے خوش اور
مطمئن ہے تو پھر میں کیوں اپنی پالیسیوں کا تسلسل نہ رکھوں۔میوزک، لٹریچر
‘فائن آرٹس بڑی فیلڈ ہے۔ میں اکیلے توکچھ کر ہی نہیں سکتا مگر یہ حقیقت ہے
کہ میں ہر ایک کی ساری باتیں نہیں مانتا۔
٭مگر آپ پر ڈکٹیٹر ہونے کا الزام لگانے والے بھی تو اس ادارے کا حصہ ہیں!
وہ کہتے ہیں کہ شاہ صاحب بادشاہ آدمی ہیں.... کسی کی نہیں سنتے!!
اگر میں ڈکٹیٹر ہوتا تو اوپر سے آتا‘ناکہ الیکشن جیت کر....؟ میں99ءسے آرٹس
کونسل کی سیاست میں سرگرم ہوں! پہلے میں دوسروں کو سپورٹ کرتا تھا‘ پھر خود
الیکشن لڑا اور وہ بھی گورننگ باڈی کی بجائے براہ راست اس ادارے کے چیف
ایگزیکٹو کی سیٹ پر۔ایک شخص پہلی بار اعزازی سیکریٹری کے لئے لڑتا ہے اور
بھاری اکثریت سے جیت جاتا ہے تو کچھ کام تو اس نے کیا ہوگا جس نے ووٹرز کو
اعتماد دیا۔میں تین سال سیکریٹری رہا اور اب تاریخ میں پہلی بار صدر کی
حیثیت سے منتخب ہوا ہوں! اس سے پہلے آرٹس کونسل کے صدر کا عہدہDCO کے پاس
ہوتا تھا! تو آپ بتائیں میں نے اس ادارے کو بیرونی ڈکٹیٹر شپ سے نجات دلائی
ہے یا پھر آمریت کو پروان چڑھایا ہے؟ میں نے تو آرٹس کونسل میں جمہوریت
بحال کی ہے! جن مخالفین کی آپ بات کررہے ہیں وہ الیکشن میں ہمارے حریف ہیں،
وہ تو کوئی بھی الزام لگاسکتے ہیں! اگر ان کا موقف تسلیم کرلیا جاتا تو آج
ہماری جگہ وہ ہوتے۔ اگر ان کی بات درست مان بھی لی جائے تو میں ایسا ڈکٹیٹر
ہوں جسے ممبران نے یہ مینڈیٹ دیا ہے کہ ان کو میرے فیصلوں پر اعتماد ہے۔
اگر یہ ڈکٹیٹر شپ آرٹس کونسل کے مفاد میں ہے تو کیا برا ہے! یہ سب میں کس
کے لئے کرتا ہوں؟ آرٹس اینڈ کلچر کے فروغ کیلئے ناں! تو پھر حرج ہی کیا ہے؟
اس سال مجھے80فیصد وو ٹ ملے.... اور میرا ووٹر کون ہے؟ شاعر‘ادیب‘ دانش ور‘
فن کار‘ صحافی‘ وکیل‘ ڈاکٹر‘ بزنس مین.... مشکل ترین آدمی میرا ووٹر ہے جسے
قائل کرنا آسان نہیں ہے۔ ظاہر ہے ان کو میرے فیصلوں پر اعتماد ہے اور میں
ان کے اعتماد کو یقینا ٹھیس نہیں پہنچا سکتا۔میں اپنے اصولوں اور فیصلوں کے
معاملے میں سخت آدمی ضرور ہوں لیکن اس میں پروپیگنڈہ زیادہ ہے۔ ورنہ آپ سب
لوگ مجھے جانتے ہیں کہ اس ادارے کے مفاد میں میرا کردار کیا ہے!
٭آپ نے لڑکپن سے ہی شاعری کو اوڑھ لیا تھا‘کبھی خود شعر کہنے کا خیال نہیں
آیا؟
میری وسعت اللہ خان اور آفتاب ندیم سے اکثر شاعری کے موضوع پر بیٹھک ہوتی
تھی جس میں ہم مصرعے موزوں کرتے تھے۔ ان میں سے اکثر شعر اس قابل ضرور ہوتے
تھے کہ آج کل کے بعض شعراءسے بہتر کلام کہا جاسکے۔ آج بھی قلم تھام کر بیٹھ
جاﺅں توایک نشست میں سات سو اشعار لکھ ماروں لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے
ذہن پر مومن‘ سودا‘ غالب‘ اور جون ایلیا چھائے ہوئے ہیں۔ بے وزن مصرعہ تو
میں کہہ ہی نہیں سکتا کیونکہ سارا دن کام یہی ہے! بڑے بڑے شعراءکا کام
کنگھال کر بتادیتا ہوں کہ فلاں نے فلاں کے مصرعے پر وزن کیا ہے۔ تو خراب
کام یا نارمل کام کرنے سے بہتر ہے کہ بندہ اپنے حال پر خوش رہے اور دوسروں
کو اپنا کام کرنے دے۔ میں اگر مومن‘ سودا‘ فیض اور جون ایلیا کے معیار کی
شاعری نہیں کرسکتا تو پھر ایک درمیانے درجے کا شاعر کہلوانے کا کیا
فائدہ....؟
٭فیض‘ فراز‘ جون ایلیا‘ پروین شاکر وغیرہ کے چلے جانے کے بعد سے ادب اعلیٰ
خاص طور پر شاعری کے میدان میں سناٹا چھا گیا ہے؟ آپ کیسے محسوس کرتے ہیں؟
بہت زیادہ....میں تو بہت زیادہ کمی محسوس کرتا ہوں!! فیض کے بعد منیر
نیازی‘ عبیداللہ علیم‘جمال ثانی‘ حامد مدنی بھی نہیں رہے ۔اب تو صدارت کے
لئے موزوں نام نہیں ملتا۔ ہم تو اس حوالے سے سمجھئے تباہ ہوگئے۔کوئی بڑا
شاعر نہیں بچا!
٭سیاست سے وابستگی یا دلچسپی کا کیا عالم ہے؟
سچ پوچھیں تو میں اس حوالے سے بے حد مایوس ہوں‘ ضیاءکے مارشل لاءدور میں ہم
بھی دوسرے انقلابیوں کی طرح سرگرم تھے کیونکہ اس شخص نے پاکستان کا بیڑہ
غرق کردیا تھا! ہیروئن‘ کلاشنکوف‘ افغان مہاجرین.... ‘یہ سارے عذاب اسی دور
میں وارد ہوئے۔ پھر محترمہ بے نظیر آئیں توایک امید تھی کہ اب شاید تبدیلی
آئے گی، میں ان سے بہت متاثر تھا اور لگتا تھا کہ وہ کچھ کریں گی اور
مجبور، بے بس و محروم طبقات کی سنی جائے گی مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اپنے تیسرے
دورِ حکومت میں پی پی پی نے ملک اور پارٹی کی جو درگت بنائی ہے۔ اس نے تو
امید کا راستہ ہی روک دیا ہے۔
٭ آپ پاکستان کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟ انقلاب کی باتیں بھی ہورہی ہیں!
مجھے تو کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ ایک ناامیدی سی ہے۔ خاص طور پر پاکستان
کا موجودہ پولیٹیکل اسٹرکچر اس مایوسی کا ذمے دار ہے۔ مجھے تو کوئی لیڈر شپ
نظر نہیں آتی۔ قیادت کا فقدان ہے۔ سبھی پارٹیاں حمام میں ننگی ہوچکی ہیں
اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ جب قوم مایوس ہوجائے اور امید کی کوئی کرن
نظر نہ آئے تو پھر یہ گھٹن کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ خراب
حالات ہونا خراب بات نہیں ہے۔ جب آپ کی امید دم توڑ دے تو یہ زیادہ خطرناک
صورت ہوتی ہے۔
٭ تو پھر کیا خونی انقلاب ہی اس قوم کو مایوسی کے بھنور سے نکال سکتا ہے؟
یہ بھی کوئی حل نہیں ہے۔ ہم فرنچ Revolution کی بہت بات کرتے ہیں۔ اس کے
بعد کیا ہوا؟ کاﺅنٹر Revolution ہوگیا۔ نپولین آکر بیٹھ گیا۔ میرے نزدیک
سوسائٹی میں ارتقائی تبدیلی ہی دیرپا اور مستحکم ہوتی ہے۔ ایک دور تھا کہ
کیپٹل ازم اور سوشلزم کا بڑا چرچا تھا۔ دونوں معاشی ترقی کے دعوے دار نظام
تھے مگر آج یہ دونوں سسٹم اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہے ہیں۔ پہلے کمیونزم
کا بھانڈا پھوٹا اور اب کیپٹل ازم کی باری ہے۔ روس کے بعد امریکہ بھی تباہی
کے دہانے پر کھڑا ہے اور اس کے ساتھ وہ ممالک بھی لپیٹ میں آگئے ہیں جو
کیپٹل ازم کے زیر سایہ پروان چڑھ رہے تھے۔ دنیا کے دونوں بازو کٹ گئے ہیں۔
میں تو اس موضوع پر ایک دو روزہ غیر سیاسی کانفرنس کرنے والا ہوں کہ کیا
ویسٹرن ڈیمو کریسی جو ہم نے اپنا رکھی ہے، اس میں معاشرتی فلاح کا پہلو
نکلتا ہے یا ہمیں بھی اس نظام سے نجات کی ضرورت ہے؟یورپ جیسے معاشروں میں
بھی سوشلزم کو تبدیلی کے ساتھ اپنانے کی بات ہورہی ہے، خود امریکہ میں سوشل
ڈیمو کریسی موضوعِ بحث ہے۔ دراصل دنیا میں کوئی بھی نظام جو انسانی جذبات،
تقاضوں اور احساسات کی ترجمانی نہ کرتا ہو، انسانیت کو قبول نہیں ہوسکتا۔
مارکس ازم نے دنیا کو مکینیکل بنادیا، ان کے نزدیک انسان کی آسودگی مشینوں
اور تعیشات میں تھی، کیپٹل ازم نے مالی آسودگی کی بات کہی مگر ان دونوں
نظاموں میں جسم کی آسودگی کو فوقیت دی گئی ،روح کا خیال نہیں رکھا گیا۔ جب
تک آپ کی روح کو آسودگی حاصل نہ ہو آپ ترقی نہیں کرسکتے، نہ سوچ سکتے ہیں۔
ہم یہ سوال اٹھائیں گے کہ ہماری بقا کس نظام میں ہے۔ اس میں ہندوستان اور
پاکستان کے تاریخ دانوں، فلاسفرز اور انٹلکچو ئلز کو مدعو کیا جائے گا۔ ہم
صرف سوال اٹھا سکتے ہیں اور یہ ہم ضرور کریں گے۔
٭ آپ نے ایونٹ مینجمنٹ کمپنی بنائی اور ہندوستانی فن کاروں کو پاکستان میں
پرفارم کروایا؟
میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے یوکے اور بھارت کے گلوکاروں کے کانسرٹس پاکستان
میں کروائے۔ میں نے اسٹیریونیشن، انائیڈا، سکھبیر اور جگجیت سنگھ وغیرہ کو
گوایا۔ اس کے بعد دوسرے لوگوں نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔
٭ ٹی وی پروڈکشن کے بارے میں کچھ بتائیں، وہ ایکسپیرئنس کیسا رہا؟
میں نے ایک ہی سیریل ”جائے کہاں یہ دل“ پروڈیوس کیا تھاجو اس وقت پاکستان
کا مہنگا ترین سیریل تھا۔ اس کی ریکارڈنگ ماریشس جاکر کی۔ اس کا اسکرپٹ بھی
میں نے خود لکھا اورتجربہ کیا کہ سیٹ پر ڈرامہ کیسے تحریر کیا جاتا ہے۔
کافی خوشگوار تجربہ رہا مگر پھر اس کام کے لئے وقت نہیں نکال سکا،یہ سیریل
جیو سے آن ایئر ہوا تھا۔
٭ آرٹس کونسل کی سیاست میں اس درجے کی سرگرمی سے پہلے کیا سلسلہ تھا؟
میں ایک ادبی سوسائٹی ”نشست“ کا حصہ تھا۔ اس کے تحت ہم مختلف ادبی پروگرامز
کا انعقاد کرتے رہتے تھے، کبھی شوکت صدیقی مرحوم کے ساتھ نشست ہورہی ہے تو
کبھی جون ایلیا کے اعزاز میں۔ یہ سوسائٹی 30 سال سے قائم تھی اور اس کے کئی
پروگرامز میں نے آرٹس کونسل میں بھی کئے۔ تب یہاں کوئی آنا پسند نہیں کرتا
تھا۔ بڑی مشکلوں سے لوگوں کو گھیر گھار کر جمع کرتے تھے۔ مشاعرے بھی
کروائے، ادبی محفلیں بھی منعقد کیں۔ پھر خیال آیا کہ اس ادارے کی بقا اور
ترقی کے لئے عملی طور پر کچھ کیا جائے لہٰذا 99ءسے انتخابات میں اپنا کردار
ادا کرنا شروع کیا۔
٭ آپ پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ آپ نے آرٹس کونسل کو کمرشل ادارہ
بنادیا ہے؟
اگر قبضہ گروپ سے آرٹس کونسل کی پراپرٹی واگزار کراکے میں نے اس ادارے کی
ترقی کے لئے قدم اٹھایا ہے تو مجھے اپنے اقدام پر کوئی شرمندگی نہیں ہے۔
آرٹس کونسل پر تو ایک مافیا قابض تھا جن سے میں نے تھرڈ فلور خالی کرایا۔
ایک بھونڈی سی دکان تھی جسے واپس لیا گیا، ایک بدنام زمانہ ریسٹورنٹ تھا
جسے آرٹس کونسل کے استعمال میں لینے کے لئے خالی کرایا گیا۔ پہلے بزنس مین
صرف 10 ہزار روپے دے کر ادارے کے ممبر بنتے تھے، میں نے ایسے صاحبِ ثروت
لوگوں کے لئے لائف ممبر شپ کی فیس پہلے 25 ہزار روپے اور اب 50 ہزار روپے
کردی ہے۔ ظاہر ہے اگر وہ آرٹ Lover ہونے کا دعوا کرتے ہیں تو پھر اپنا
کردار ادا کریں۔ میں نے ان سے پیسے لے کر ادارے کا فنڈ مضبوط کیا ہے اور یہ
جو ترقیاتی کام ہورہے ہیں، اسی پیسے سے ہورہے ہیں۔ ہم نے لفٹ لگواکر دی،
تین آرٹ گیلریز بنائی ہیں، گل رنگ کا نقشہ تبدیل کردیا ہے، اوپن ایئر تھیٹر
کی تزئین و آرائش کی جارہی ہے، آرٹس کونسل کا لان وسیع کیا گیا ہے، تھرڈ
فلور پر ریکارڈنگ اسٹوڈیوز بنایا گیا ہے جس سے آرٹس کونسل کو سالانہ 50
لاکھ روپے آمدنی ہوگی۔ اس کے علاوہ ہم کتابیں شائع کررہے ہیں، دیگر اخراجات
ہیں، فن کاروں کی مالی اعانت کی جارہی ہے، مرحوم فن کاروں کی فیملیز کو
سپورٹ کیا جاتا ہے، کچھ کام تو ایسے ہیں کہ ہم لوگ اس کی تشہیر بھی نہیں
چاہتے۔ ظاہر ہے ان سب اخراجات کے لئے ہمیں فنڈز درکار ہیں، تو میں اس کے
لئے گورنمنٹ پر انحصار کرنے کی بجائے ادارے کے اپنے ریسورسز بڑھا رہا ہوں
تاکہ ہمارے کام حکومتوں کی وجہ سے ڈسٹرب نہ ہوں۔ جہاں تک فن کاروں،
صحافیوں، ادیبوں اور شاعروں کی ممبر شپ کا تعلق ہے تو آج بھی وہ صرف ایک
ہزار روپے میں ممبرز بنائے جارہے ہیں۔ میں نے سرمایہ داروں کا پیسہ آرٹس
کونسل میں لگایا ہے مگر کسی کے نام کی تختی نہیں لگنے دی اور نہ کسی بزنس
مین کو ٹری بیوٹ دیا۔ نہ میں ان سے اپنے پروگراموں کی صدارت کراتا ہوں،
میرے صدر کمال احمد رضوی، انتظار حسین اور حمایت علی شاعر ہوتے ہیں۔ اردو
کانفرنس میں کبھی کوئی سرکاری آدمی مسندِ صدارت پر نہیں بیٹھا، نہ ہی مہمان
خصوصی ہوتا ہے، میرا خیال ہے کہ ہم نے تو اس ادارے کو نان کمرشل کردیا ہے۔
٭ وفاقی اور صوبائی حکومتیں آرٹس کونسل کو کتنا سپورٹ کررہی ہیں؟
ان کی تو اپنی حالت نازک ہے۔ ہمیں وفاقی یا صوبائی سطح پر کوئی فنڈ نہیں مل
رہا اور پھر آرٹ، کلچر اور لٹریچر ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔
٭ آرٹس کونسل کے لئے آپ نے شب و روز وقف کر رکھے ہیں، اس قدر مصروفیت کے
بعد فیملی اور بزنس کے لئے کیسے وقت نکال پاتے ہیں؟
میری بیوی کو اس وجہ سے زیادہ شکایت رہتی ہے کہ میں اپنے بچوں اور بزنس کو
بالکل بھی ٹائم نہیں دے رہا لیکن اتنے سالوں کی رفاقت کے بعد اس نے مجھے
انڈر اسٹینڈ کرلیا ہے۔ اس کی جگہ کوئی اور عورت ہوتی تو شاید مجھے برداشت
نہ کرپاتی ۔شایداس نے میری کمٹ منٹ سے سمجھوتہ کرلیا ہے۔ وہ آرٹس کونسل کو
اپنی سوتن تصور کرتی ہے لیکن اسے قبول بہرحال کرلیا ہے۔ بیوی بچوں کو میرے
ٹائم نہ دینے سے زیادہ شکایت اس وجہ سے ہوتی ہے جب میں پیسے کم کماتا ہوں۔
مجھ میں پیسہ کمانے کا پوٹینشل بہت زیادہ ہے لیکن ظاہر ہے جب بزنس کو وقت
نہیں دے پاتا تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لہٰذا جب فنانشل ہرڈلز آتی ہیں تو اس
وقت دباﺅ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ پھر مطالبہ ہوتا ہے کہ کچھ اپنے گھر کی فکر
بھی کریں۔ یہ شکایت میری بیوی اور چاروں بچوں کو ہے کہ میں سماجی کاموں میں
گھر سے زیادہ دلچسپی لیتا ہوں مگر ان سب کے باوجود وہ مجھے سپورٹ کرتے ہیں
اور مجھ پر فخر بھی کرتے ہیں۔
٭ کیا چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو کن الفاظ میں یاد رکھیں؟ یہاں آرٹس کونسل میں
تو کوئی ہال آف فیم بھی نہیں ہے جہاں زیڈ اے بخاری، فیض اور دیگر کی صف میں
آپ کا نام درج ہوتا؟
مجھے جتنا کچھ اس ادارے اور اس کے لوگوں نے دے دیا ہے، میں اس کا اہل نہیں
تھا، مجھے جو مقام، شہرت اور محبت اب تک آرٹس کونسل سے ملی ہے، میں اس کا
تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اسی آرٹس کونسل کی وجہ سے مجھے دنیا بھر سے دعوت
نامے موصول ہوتے ہیں۔ آج آرٹس کونسل کو دنیا بھر کا میڈیا ڈسکس کرتا ہے تو
یہ میرے لئے ایک اعزاز ہے۔ جب مشتاق احمد یوسفی جیسی ہستیاں کہتی ہیں کہ
”میں تمہارا کارکن ہوں“ تو میرا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے! مجھے اور کیا
چاہئے؟اب تو صرف ایک ہی خواہش ہے کہ جتنی عزت آرٹس کونسل کے ممبران نے دی
ہے، اسے برقرار رکھ سکوں، میں ان محبتوں کا ہمیشہ مقروض رہوں گا۔ |