محمد فیض احمد اویسی رضوی نوراللہ مرقدہ کی حیات وخدمات

حضورفیض ملت مفسراعظم پاکستان علامہ محمد فیض احمد اویسی رضوی نوراللہ مرقدہ کی حیات وخدمات۔

الحمد للہ رب العا لمین وا لصلوٰ ة و السلام علیٰ سیدا لانبیاءو المرسلین وعلی آلک واصحابک اجمعین امابعد

اقلیم انسانیت کے اُفق پر ہر زمانہ میں ایسی روشن و تابناک ہستیاں جلوہ گر ہوتی رہیں جن کے علمی و فکری افکار رہنما اُصول فراہم کرتے رہے ہیں ۔ان شخصیات کے کارنامے تاریخِ اسلام کے روشن ابواب ہیں ان کی فکر میں انسانیت کے لئے رہنما اُصول موجود ہیں ان کے افکار و خیالات آنے والی نسلوں کے لئے مینارہ نور ہیں۔

تاریخ اسلام ایسی روشن و تابناک ہستیوں سے بھری پڑی ہے ماضیِ قریب میں پروانہ شمعِ رسالت مجددین وملت امام اہلسنت اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خاں بریلوی رحمتہ اﷲ علیہ کی جامع العلوم ذات نمایاں نظر آرہی ہے وہ خود بھی روشن تھے اور اپنے ہم نشینوں کو بھی روشن کرگئے ان کے تمام تلامذہ وخلفاءایک سے بڑھ کر ایک مینارہ نورہیں پھر ان حضرات نے علم وفضل کے ایسے آفتاب و ماہتاب پیدا کئے کہ جن کی علمی صلاحیتوں کے سبب عالم اسلام میں شعور و آگہی کے تارے آج تک روشن ہیں ۔ سارا عالم ان کے نور علم سے روشنی اور رہنمائی حاصل کرتا نظر آتا ہے ۔ پاک و ہند کی دانش گاہیں ان کے فیضانِ علم کی مرہون منت ہیں ان کی آغوش تربیت کے پروردہ اہلِ علم و فن آج عالمی سطح پر اشاعتِ دین اور ابلاغ علم کے اہم فرائض باحسن و خوبی سرانجام دے رہے ہیں ۔ حضورمفسراعظم پاکستان فیض ملت علامہ الحاج حافظ محمدفیض احمداویسی رضوی محدث بہاولپوری نوراللہ مرقدہ بھی ان ہی حضرات میں سے ایک شخصیت ہیں۔

اسمِ گرامی
پیدائشی نام محمد فیض احمدہے آپ کے اباءواجدادکے اسماءکچھ اس طرح ہیں والدگرامی مولانا نوراحمد بن مولانا محمدحامد بن محمد کمال ، قوم لاڑ سے آپ کا تعلق ہے ،ابوالصالح آپ کی کنیت ہے ،نسبتاً ”عباسی“ مسلکاً ”حنفی“ مشرباً ”اُویسی،قادری،رضوی“ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت سیدنا عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جاملتا ہے اور یہ بہت بڑی سعادت کی بات ہے اور آج مفسرِ قرآن اور عالم باعمل ہونے میں اس خاندانی نسبت کا بھی بہت بڑا حصہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ جب آپ کے جد بزرگوار حضرت امام المفسرین عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں تو ان کی قرابت کے فیض سے آپ کو بھی اﷲ تعالیٰ نے علومِ اسلامیہ کی دولت سے سرفراز فرمایا ہے۔

ولادت باسعادت
حضور فیضِ ملّت رحمة اللہ علیہ ۱۵۳۱ھ بمطابق ۲۳۹۱ءکو بستی حامدآباد تحصیل خانپورکٹورہ ضلع رحیم یار خان میں پیدا ہوئے جس کی پسماندگی کا یہ عالم تھا کہ گردوپیش کے لوگ اس کے نام سے بھی واقف نہ تھے لیکن فیضِ ملّت کے دم قدم سے اس گاؤں کی شہرت پاکستان بھر میں تو کیا دنیا بھر میں پہنچ کر رہی اس گاؤں کا موجودہ نام فیضِ ملّت نے شہزادہ اعلیٰ حضرت مولانا حامد رضا خان علیہ الرحمة اور اپنے دادا مولانا محمد حامد علیہ الرحمة کی نسبت سے حامد آباد تجویز فرمایا ہے ۔

تعلیم و تربیت
ابتدائی تعلیم کو اپنے والد ماجدسے حاصل کیا ۔ تقریباً پانچ سال کی عمر میں ناظرہ قرآن مجید پڑھ کر اپنے قریبی قصبہ ترنڈہ میرخان میں گورنمنٹ پرائمری سکول میں داخل ہوئے ۔ ۲۴۹۱ئ میں پرائمری پاس کی ۔

والد ماجد علیہ الرحمہ کی تمنا کے مطابق حافظ جان محمد صاحب قریبی بستی کنلاں کے پاس حفظِ قرآن کرنے کے لئے بھیجا وہاں آٹھ پارے حفظ ہوسکے ۔ وہاں سے خانقاہ جیٹھ بھٹہ نزد خان پور کٹورہ کے مدرس حضرت مولانا حافظ سراج احمد علیہ الرحمہ کی خدمت میں جا پہنچے ۔ وہاں پر اٹھارہ پارے حفظ ہوسکے ۔

پچیس پارے حفظ ہونے کے بعد وہاں سے حضرت خواجہ محبوب الہی حافظ خدابخش رحمة الہ علیہ کے دربارشریف خیرپور ٹامیوالی ضلع بہاولپور حافظ غلام یسٰین رحمة اﷲ علیہ کے پاس ۷۴۹۱ئ میں مکمل قرآن مجید حفظ کر لیاقرآن کریم حفظ کیا اور۷۴۹۱ءمیں ریلوے اسٹیشن خانپورکی مسجدمستری کمال الدین میں پہلی مرتبہ محراب سنائی۔آپ خودفرمایا کرتے تھے کہ جب میں نے پہلی مرتبہ تراو یح میں قرآن کریم کا ختم کیا تو ہم اس کے ساتھ ۷۲رمضان کوقیام پاکستان کی خوشی بھی منارہے تھے ا ورہندوستان سے ہجرت آنے والے مسلمان بھائیوں کا ریلوے اسٹیشن پراستقبال بھی کررہے تھے۔

علوم عربیہ واسلامیہ ۔ ستمبر۷۴۹۱ئ میں فارسی پند نامہ سعدی کا آغاز ہوا ،۸۴۹۱ئ تک زلیخا سکندر مولانا اﷲ بخش رحمة اﷲ علیہ کے پاس پڑھیں جبکہ صرف و نحو‘ ہدایہ شریف ، مختصر معانی، شر ح جامی درسی کتب حضرت خورشیدملت مولانا خورشید احمد فیضی صاحب رحمة اﷲ علیہ (ظاہرپیر) سے پڑھیں، ۔ درسِ نظامی کی بقایا کتب استادالعلماءیادگارسلف حضرت علامہ مولانا عبدالکریم صاحب اعوان رحمة اﷲ علیہ(امین آباد لیاقت پور) کے پاس مکمل کیں ۔

۱۵۹۱ئمیں دورہ حدیث و دیگر امہات کتب کی تعلیم کے لئے جامعہ رضویہ لائل پور میں داخلہ لیا ۔ ۲۵۹۱ئ بمطابق ۱۷۳۱ ھ میں حضور محدثِ اعظم پاکستان مولانا ابوالفضل محمد سردار احمد صاحب رحمة اﷲ علیہ کے مبارک ہاتھوں سے رسمِ دستار بندی ہوئی اور سندِ فراغت نصیب ہوئی۔

سلسلہِ طریقت
دوران تعلیم ہی سلوک ِروحانی سے وابستگی کے لئے سلسلہ عالیہ اُویسیہ قادریہ کے سرچشمے حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی صاحب السیررحمة اﷲ علیہ خانقاہ شریف ضلع بہاول پور کے سجادہ نشین حضرت مولانا خواجہ محمد الدین صاحب سیرانی رحمة اﷲ علیہ کے دستِ حق پرست پر بیعت کی۔

۱۸۳۱ھ میں اُن کے وصال کے بعد بوساطت علامہ حسن علی رضوی میلسی ، مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خاں رحمة اﷲ علیہ اِبنِ مجدد دین و ملت، اِمامِ اَہلِ سنت الشاہ احمد رضاخان رحمتہ اﷲ علیہ سے شرفِ بیعت کی سعادت حاصل کی ۔آپ نے نہ صرف بیعت فرمایا بلکہ سلسلہ قادریہ رضویہ کی خلافت و اجازت خاص اپنے قلم سے لکھ کر بذریعہ رجسٹری روانہ فرمائی۔ ذالک فضل اﷲ یوتیہ من یشائ

تصنیف و تالیف
دوران تعلیم ہی حضرت مفسراعظم پاکستان رحمة اللہ علیہ نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع فرمایا اورآپ کی سب سے پہلی تصنیف کا نام ”کارآمد مسئلے“حصہ اوّل اسے سب سے پہلے مکتبہ اُویسیہ رضویہ حامد آباد خان پور سے شائع کیا گیا۔ اسی طرح یہ لکھنے کا سلسلہ تادم وصال جاری و ساری رہا تقریباً چار ہزار پانچ سو (۰۰۵۴) کتابیں لکھی جاچکی تھی جن دوہزاردوسو کتب ورسائل شائع ہوئے باقی مسودہ جات الماریوں میں اہلسنت کے مخیرحضرات کو دعوت فکردے رہے ہیں۔

حضورفیض مجسم مفسراعظم پاکستان رحمة اللہ علیہ نے اُردو ، عربی، فارسی ، سرائیکی، سندھی زبانوں میں گراں قدر کتابیں تحریر کیں ہیں لیکن زیادہ تر کتابوں کا تعلق اُردو اور عربی ‘فارسی سے ہے۔

دینی و ملّی خدمات
۲۵۹۱ئ بمطابق۱۷۳۱ھ میں شوال کے مہینے میں اپنے گاؤں حامد آباد میں دینی درسگاہ کی بنیاد ڈالی جس کا نام آپ نے ”مدرسہ اویسیہ رضویہ منبع الفیوض“ رکھا ۔جس میں حفظِ قرآن اور علوم عربیہ واسلامیہ کی تعلیم دی جاتی اس مدرسہ میں دور دراز سے طالبِ علم تعلیم کے لئے جمع ہوگئے ۔گاؤں کے ماحول میں اُن کا انتظام بہت ہی مشکل تھا لیکن اس ویران مقام میں درجنوں محدث،مفتی ،مدرس اور سینکڑوں حفاظ تیار ہوگئے جو آج مرکزی مدارس میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور خدمت حدیث ِمبارکہ اور مسند افتا ءو تدریس کے منصبوں پر فائز ہیں ۔

دور تفسیرالقرآن
۱۶۹۱ئ میں مدرسہ سراج العلوم خان پور میں دورہ تفسیرا لقرآن کا آغاز کیا ۔پھر ۰۱۰۲ ءتک نصف صدی تک پاکستان کے مختلف شہروں میں آپ دورہ تفسیرالقرآن پڑھاتے رہے پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں حضورفیض مجسم مفسراعظم پاکستان “کے علمی و روحانی فیض یافتگان ن کی علمی میراث کی خوشبو بکھیر رہے ہیں ۔

بہاولپورمیں آمد ۳۶۹۱ئ میں گوناں گوں مصائب اور جدید لازمی سہولیات میسر نہ ہونے کے باعث حضور فیض مجسم مفسراعظم پاکستان نے بہاولپور میں سکونت اختیار کی اور یہیں پر پانچ کنال زمین کا ٹکڑا خرید کرآپ نے جامعہ اُویسیہ رضویہ اور جامع مسجد سیرانی کی بنیاد رکھی جوکہ تادم تحریر بحمدﷲ تعالیٰ وبکرم مصطفی ﷺ قائم ودائم ہے اور دینِ اسلام کی شب و روز ترویج واشاعت میں مصروف عمل ہے جہاں سے ہزاروں تشنگان علوم اپنے دامن مرادسے بھرکردنیا میں جہالت کے خلاف عَلم جہادبلندکئے ہوئے ہیں۔جہاں حفظ وناظرہ درس نظامی دورہ حدیث ودورہ تفسیر علم میراث کے علاوہ جدیدعلوم پڑھائے جاتے ہیں ۔

دیارحبیب ﷺ کی حاضریاں
آپ نے ۹۹۳۱ھمطابق۹۷۹۱ئ میں پہلی بار حج کی سعادت حاصل کی پھر ۱۳۴۱ھمطابق ۰۱۰۲ئ تک( وصال شریف سے تین ماہ پہلے ) ہرسال( تقریبا) رمضان المبارک میں حرمین طیبین شریفین کی حاضری سے نوازے جاتے رہے ۔ ہرسال سعادت اعتکاف اورتراویح میں ختم قرآن پاک محبوب کریم روف ورحیم ﷺکے گنبد خضریٰ کے سایہ مسجدنبوی شریف میں حاصل کرتے رہے ۔

وصال باکمال ۔ حضورمفسراعظم پاکستا ن شیخ الحدیث فیض ملت علامہ الحاج حافظ محمدفیض احمداویسی رضوی قادری نوراللہ مرقدہ ۵۱رمضان المبارک ۱۳۴۱ھ مطابق ۶۲اگست ۰۱۰۲ء۱(۱۱بھاوں ۷۶۰۲ بکرمی) بروز جمعرات صبح سواءچھ بجے اپنے جامعہ اویسیہ رضویہ سیرانی مسجد بہاولپور میں نماز فجرکی ادائیگی کے بعد عالم فانی سے دارالبقاءکی طرف تشریف لے گے۔انا للّہ واِنا الیہ راجعون ۔آپ کے وصال کی خبردنیا بھر میں آناً فاناً پہنچ گئی ۔ ملک بھر سے آپ کے عقیدت مندمریدین ‘ تلامذہ ‘ محبین نہایت ہی سوگوارہوکر بہاولپور کی طرف چل پڑے ۔ مختلف ٹی وی چینلز نے نہایت افسوس کے ساتھ خبرشائع کی گئی کہ عالم اسلام کی عظیم شخصیت چارہزارسے زائدکتب کے مصنف علامہ فیض احمداویسی انتقال کرگئے آج رات گیارہ بجے بہاولپورمرکزی عیدگاہ میں ان کاجنازہ پڑھایاجائے گا ۔ بعض ٹی وی چینلز تو سارا دن آپ کے وصال کی پٹی چلاتے رہے ۔صبح سات بجے سے رات ۲۱بجے تک لاکھوں لوگوں نے آخری دیدارکی سعادت حاصل کی دیکھنے والوں کی زبان پر بوقت دیداریہ جملہ تھا کہ عاشق مصطفیٰ ﷺ کا چہرہ چودویں کے چاندکی طرح چمک رہا ہے ۔آپ کے چہرہ پراک لطیف سی مسکراہٹ تھی ۔رات ساڈھے دس بجے ان کا جنازہ ان کے ادارہ جامعہ اویسیہ رضویہ سے اٹھایا گیا تو بہت رقت آمیز مناظردیکھے گئے ۔ علماءومشائخ عظام عوام اہلسنت اپنے محبوب عالم دین سچے عاشق رسول ﷺ کے انتقال پر نہایت ہی افسردہ تھے ۔ ہرسنی اشکبارتھا ذکراللہ ودرودوسلام کی گونج ہرطرف سے سنائی دے رہی تھی قصیدہ بردہ شریف کا ورد جاری رہا سیرانی مسجد سے عیدگاہ تک انسانی سروں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندردیکھائی دے رہا تھا۔ مرکزی عیدگاہ کے ارداگرد کئی میلوں تک گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں تھیں۔موسم نہایت ہی خوشگوار تھا مدینہ منورہ سے آنے والی ٹھنڈی ہوائیںشرکائے جنازہ کے دل ودماغ معطرکررہی تھیںیوں لگ رہا تھا کہ
بادصباءاتنی کیوں معطرہے ۔سبزسبزگنبدکو چوم کرچلی ہوگئی۔

مسلک رضا کے پاسبان کا عظیم جنازہ امام احمدرضا رحمتہ اﷲ علیہ کے اس شعرکا مظہر تھا کہ
عرش پر دھومیں مچیں وہ مومن صالح ملا۔فرش سے ماتم اٹھے وہ طیب و طاہر گیا۔

رات گیا ہ بجکربیس منٹ پر مرکزی عید گا ہ بہاولپور میں(راقم الحروف) مدینے کا بھکاری الفقیرالقادری محمدفیاض احمداویسی رضوی کی امامت میں تقریباً ایک لاکھ افرادنے جنازہ پڑھا ۔امیرجماعت اہلسنت مظہرغزالی زماں صاحبزادہ سیدمظہرسعید کاظمی مدظلہ نے دعافرمائی ۔ فقیر نے اعلان کیا کہ میرے والدگرامی نے زندگی بھر دررسول کریم ﷺ کی گدائی کی ہے عشق رسول ﷺ کی خیرات تقسیم کرتے رہے۔ ہرخاص وعام سے اپیل ہے کہ درمصطفی کریمﷺکے بھکاری کا آخری دیدارضرورکرکے جائیں تاکہ دنیاوالے دیکھ لیں عشق نبی کریم ﷺ میں زندگی گذارنے والے کا چہرہ کیسا روشن ہے ۔ جنازہ کے بعدعیدگاہ کے کھلے میدان میں آخری دیدارکرایا گیا ۔اک عجیب سامنظرتھا لوگ اپنے محبوب علمی ‘ وروحانی قائدکا دیدارکرکے اشکبارتھے۔جوں ہی نورانی چہرے پر نگاہیں جاتیں سبحان اللہ کی صدائیں آتیںنعت ودرووسلام کی پرکیف صداؤں سے ماحول نہایت ہی معطرہوگیا ۔ آخری دیدارکرنے والے ہزاروں لوگ شاہد ہیں کہ اس سچے عاشق رسول ﷺ کے چہرے پر انوارالہی کا نزول تھا ۔چہرے پر اک لطیف قسم کی مسکراہٹ تھی رات گئے تک چہرے کے دیدارکرایا جاتا رہا ۔لیکن خلقت کے ہجوم کا یہ عالم تھا کہ اگریہ سلسلہ صبح تک جاری رہتا تو ختم نہ ہوتا ۔اس کے بعد جامع مسجد سیرانی جامعہ اویسیہ رضویہ کی طرف ذکراللہ ونعت ودرودوسلام کی دلنوازصداؤں میں جنازہ واپس لایا گیا یہاں بھی زیارت کا سلسلہ جاری رہا رات کے ۲۱بجکر ۱۱منٹ پر قصیدہ بردہ شریف کی گونج کے ساتھ لحدمیں اتاراگیا۔

حضرت فیض ملت کا علمی مقام
مضت الدھور و ما اتین بمثلہ
و لقد اتی فعجزن عن نظر ائہ
(زمانے گزر گئے اور نہ آیا مثل ان کا اور البتہ آیا تو اپنے نظیر سے عاجز ہوگئے)

علامہ محمداعجاز قادری اویسی اپنے مقالہ لکھتے ہیں کہ”فیض ِ ملّت“ایک ایسی شخصیت سے عبار ت ہیں جو کہ اپنی ذات یکتا میں پوری جماعت کو سمٹیے ہوئے ہیں ۔ عقل اِن کی ذات میں حیرانگی کے عالم میں گم ہے کہ کس طرح ایک شخص اس قدر اوصاف اپنائے ہوئے ہے ۔علوم و فنونِ اسلامیہ ”جدید و قدیم“جسے ہمہ وقت مستحضر(پیشِ نظر) ہیں اور ان علوم و فنون میں کمال و دسترس کا یہ عالم ہے کہ ان تما م ہی علوم و فنون میں کوئی نہ کوئی کتاب لکھی ہے فقط اگر کوئی مصنف کسی ایک علم و فن پر کوئی کتاب یا رسالہ لکھتا ہے تو وہ خود کو قابل ستائش گردانتا ہے اور فخر محسوس کرتا ہے مگر اس ”مظلوم مصنّف“کی کیفیات ہی کچھ اور ہیں کہ تمام ہی علوم و فنون پر خامہ فرسائی کرنے اورصحا ئف ابیض کو اپنے قلم سے مزین کرنے کے باوجود بھی عاجزی و انکساری کی انتہاؤں میں جاکر اپنی ذات کی ہمیشہ نفی فرماتے ہیں ۔

اگر آج کا کوئی شخص 50/60کتابوں کا مصنف ہو تو اُسے مصنف ِ اعظم کہاجاتا ہے اب اگر یہی معیار ہے کہ پچاس یا ساٹھ کتب کے مصنف کو مصنف ِ اعظم کہا جائے تو میرا قلم یہاں حیران ہے کہ میں اس ”مظلوم مصنف“کو جوکہ 5000(پانچ ہزار)کتب کا مصنف ہے کو کون سا لقب دوں ۔یہاں تو القابات بھی بہت چھوٹے نظر آرہے ہیں مگر بفضل خدا فیضِ ملّت کی ذات اُن سے کہیں بلند و بالا ہے کیونکہ فیضِ ملّت نے یہ کام شہرت و لقب پانے کے لئے نہیں کیا بلکہ خدا و ررسو ل کوراضی کرنے کے لئے کیا ہے اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے آپ کے خلوص و محبت اور کمالِ عاجزی کی برکت سے آپ کو وہ کمال و نام عطافرمایا جس کی مثال نہیں ملتی ۔
بے نشانوں کا نشاں مٹتا نہیں
مٹتے مٹتے نام ہو ہی جائے گا

حضورمفسراعظم پاکستان فیض ملت نوراللہ مرقدہ نے جن علوم و فنون پر مشتمل تصانیف مُرّتب کی ہیں اُن علوم و فنون ا ور موضوعات کا ایک طائرانہ جائزہ پیش خدمت ہے۔
۱)علمِ تفسیر ۲)علمِ اُصول تفسیر ۳)علمِ حدیث ۴)علمِ اُصول حدیث
۵)علمِ فقہ ۶)علمِ اُصول فقہ ۷)علمِ میراث ۸)علمِ تصوّف
۹)علمِ منطق ۰۱)علمِ فلسفہ ۱۱)علمِ بلاغت ۲۱)علمِ قرات وتجوید
۳۱)علمِ نجوم ۴۱)علمِ صرف ۵۱)علمِ نحو ۶۱)علمِ تعبیرالرویاء
۷۱)علمِ قیافہ ۸۱) علمِ معانی ۹۱)علمِ عروض ۰۲)علم حیاتیات
۱۲)علمِ لغت ۲۲)علمِ مناظرہ ۳۲)علمِ طب ۴۲)علمِ عقائد و کلام
۵۲) علم التاریخ ۶۲)تراجم ۷۲)شروح ۸۲) اخلاق و آداب
۹۲)عقائدِ اہل سنت ۰۳)سائنس ۱۳)فضائل و مناقب ۲۳)اوراد و وظائف
۳۳)سفر نامہ ۴۳)فن تلخیص ۵۳)ردقادیانیت ۶۳)ردِ آغاخانی

اس فہرست میں صرف اُن ہی علوم و فنون اور موضوعات کو لیا گیا ہے جن کی تفصیل آپ کی مسودہ جات (مطبوعہ وغیرمطبوعہ فہرست“ علم کے موتی “ حصہ اول ودم درج کر دی گئی ہے اور جو کہ باقاعدہ الگ سے کتابی صورت میں موجو د ہے اور جو مختلف کتب کے ذیل میں دیگر علوم و فنون زیربحث آئے ہیں اُنہیں یہاں شامل نہیں کیا گیا اگر اُنہیں بھی شمار کیا جائے تو میرے اندازے کے مطابق یہ تعداد تقریبًا50 سے متجاوز ہوگی۔(مظلوم مصنف )

حضرت فیض ملت قدس سرہ کی سوانح حیات پرکئی مجلدات پر کتاب حضرت مفسراعظم پاکستان رحمة اللہ علیہ عنقریب منظرعام پرآنے والی ہے ۔
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 613460 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.