ڈاکٹر اسرار احمد کی سحر انگیز
شخصیت سے شاید ہی کوئی نا و اقف ہو۔ آپ کی زندگی کا مقصد قرآن کی تعلیمات
کی تشریح اور تر ویج تھا۔ 1932 ء میں ہریانہ میں پیدا ہوئے اس وقت شاید ہی
کسی کو پتہ ہو کہ یہ شخص اللہ کے ان خاص بندوں میں اللہ تبارک تعالٰی کی
طرف سے چن لیا جائے گا اور اللہ کی کتاب جو کہ اللہ نے اپنے سب سے پیارے
نبی ﷺ پر نازل فرمائی اس کتاب کی تعلیمات اسکی تشریح کے ذریعے اسکے بندوں
تک رسائی کرے گا۔
ڈاکٹر صاحب کوئی باقاعد ہ عالم دین نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے کسی مدرسے
سے کوئی عالم کی ڈگری حاصل کی بلکہ ڈاکٹر صاحب نے 1954 ء میں کنگ ایڈوارڈ
میڈیکل کالج سے MBBS ُٓ کی ڈگری حاصل کی مگر آپ نے اپنی زندگی کا مقصد کچھ
اور ہی چنا تھا ۔ آ پ کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ آج مسلمانوں کی ابتری
اور تنزلی کی وجہ قرآن کی تعلیمات اور دین سے دوری ہے جسکی بناءپر آپ قرآن
تھام کر اسکی تشریح کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کیلیئے نکل کھڑے ہوئے اور
قرآن کا علم بانٹننا شروع کر دیا۔ بظاہر یہ ایک مشکل کام تھا جسکا بیڑہ آپ
نے اپنے کندھوں پر بڑی خوش اسلوبی سے اٹھایا اور بڑی سہل اور آسان زبان میں
جو کہ ہر خاص و عام کے ذہنوں میں اتر جائے قرآن کے پیغام کو پہنچایا اور اس
عظیم مقصد کیلیئے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔ آپ ایک ایسے سفر کے راہ نورد
تھے جس میں بے شمار کٹھن گھاٹیاں اور رکاوٹیں موجود تھیں اسکے باوجود آپ نے
اس راستے کے مسافروں میں اپنا مقام بنایا جسکی تائید تمام اعلٰی پائے کے
علمائے دین کرتے ہیں ۔ آپ نے اس راہ میں اپنا ایک انفرادی مقام بنایا ۔ آپ
ایک عہد ساز شخصیت کے مالک تھے ۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے بیشمار تصانیف تحریر فرمائیں اور آپ کی ہر تصنیف ہر
خاص و عام کے ذہنوں پر بھرپور انداز میں پر اثر ثابت ہوئی۔ آپ نے دجال کے
عظیم فتنے پر بڑی مدلل انداز میں روشنی ڈالی اور اس فتنہ اعظم کی حشر
سامانیوں سے قرآن اور حدیث کی رو سے امت کو خبردار کیا آپ نے یہودیوں اور
مسیح دجال کے حواریوں کی سازشوں اور اسکے استقبال کی تیاریوں سے بھی امت
مسلمہ کو آگاہ کیا اور مسلمانوں کے جہاد کے فلسفے کو بڑے زور شور سے قرآنی
احکامات کے مطابق ہر فورم پر بڑی خوش اسلوبی سے اجاگر کیا۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے آثار قیامت ، قیامت کی نشانیوں اور قیامت تک آنے والے
ہر فتنے کی قرآن و حدیث کی روشنی میں بڑی پر اثر اور مدلل انداز میں وضاحت
فرمائی۔ آپ کی شخصیت اپنی ذات میں مکمل فہم و فراست سے مزین تھی آپ اپنی
ذات میں ایک مکمل یونیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے۔
آپ قرآن کی خدمت کے جذبے سے اسقدر سرشار تھے کہ آپ نے ایک پلیٹ فارم تنظیم
اسلامی کے نام سے تشکیل کیا اور قرآن اکیڈمی کے نام سے قرآنی تعلیمات کو
عام کرنے کیلیئے ایک ادارہ قائم کیا جسکی شاخیں ملک بھر میں قرآن کی تدریس
میں مشغول ہیں ۔
آپ 14 اپریل 2010 ء کو اپنے لاکھوں ، کروڑوں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر
خالق حقیقی سے جا ملے ( انا للہ و انا الہیہ راجعون) اور نئے سفر کے راہی
بن گئے ۔ اللہ تبارک تعالٰی آپ کی مغفرت فرمائے اور آ پ کے درجات بلند
فرمائے اور آپ کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ ( آمین)
آپ کا سفر اجل ایک عہد کا خاتمہ اور علم و عمل کے سفر میں ایک کبھی نہ پر
ہونے والا خلا ہے۔ |