نیپال میں 26جنوری2022کو ہونے والے عام انتخابات سے
پہلے نئی دہلی اور کٹھمنڈو کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔نیپال کی
سیاسی جماعتوں نے انتخابی منشور میں بھارت کے زیر قبضے نیپالی علاقوں کی
آزادی کا مسلہ سر فہرست رکھا ہو اہے۔ان میں کالا پانی، لمپیا دھورہ اور
لیپو لیکھ بھی شامل ہے۔ کالا پانی ،جو کبھی جزائرانڈیمان ونیکوبار میں قابض
انگریزوں کا قائم کردہ ایک بدنام زمانہ ڈیتھ اور ٹارچر سنٹر تھا ، مگر آج
اس کی بھارتی جبری قبضے سے آزادی کے لئے نیپال میں عوام سرگرم ہیں۔بھارت نے
صوبے اتراکھنڈ کو لیپو لیکھ سے ملانے کے لئے 80کلو میٹر شاہرہ تعمیر کی
ہے۔نیپال بھارت سرحد پریہ ایک درہ ہے جو کالا پانی کے نزدیک واقع ہے۔ بھارت
کے پتھوڑا گزڑھ اور نیپال کے دھڑچولہ اضلاع کا یہ حصہ ہے۔جس کی وجہ سے
بھارت اور نیپال کے درمیان سرد جنگجاریہے۔انگریزوں کی سزائے کالا پانی بہت
بدنام ہوئی ۔کالاپانی میں جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لئے لا تعداد مسلم اور
ہندو قید کئے گئے۔ آج مودی کے انڈیا میں صرف ہندوؤں کو ہی ہیرو کے طور پر
پیش کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کی قربانیوں پر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔ بابری
مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیرسے لے کر مسلم دور کی شناخت کو ایک ایک کر کے
مٹایا جا رہا ہے۔ انگریزوں نے 1906میں جب اس دنیا سے الگ تھلگ قید خانے کو
شروع کیا تو اس میں سب سے پہلے شیر علی نامی ایک مسلم آزادی پسند کو قیدی
بنایا گیا۔
آج جس کالا پانی کی بات ہو رہی ہے یہ انڈیا کے زیر قبضہ ریاست اتراکھنڈ کے
پتھوڑا گڑھ ضلعے میں 35 مربع کلومیٹر اراضی پر محیط علاقہ ہے۔ کالا پانی،
بھارت، تبت(چین) اور نیپال کی سرحدوں کا سنگھم ہے۔ 1962سے یہاں بھارت کی
انڈو تبتن سرحدی پولیس (آئی ٹی بی پی ایف)کے اہلکار تعینات ہیں۔ انڈین
ریاست اتراکھنڈ کی سرحد نیپال سے 80.5 کلومیٹر اور چین سے 344 کلومیٹر تک
ملتی ہے۔ دریائے کالی کی ابتدا بھی کالا پانی ہے۔ انڈیا نے اس دریا کو بھی
اپنے نئے نقشے میں شامل کیا ہے۔اس کا نام مہا کالی دریا رکھا گیا ہے۔ 1816
میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور نیپال کے مابین سگولی معاہدہ ہوا ۔ اس وقت دریائے
کالی کی مغربی سرحد پر مشرقی انڈیا اور نیپال کے مابین نشاندہی کی گئی ۔ جب
1962 میں انڈیا اور چین کے مابین جنگ ہوئی تو انڈین فوج نے کالا پانی میں
ایک چوکی تعمیر کی۔نیپال نے 1962کی بھارت چین جنگ سے قبل 1961 میں یہاں
مردم شماری کروائی اور انڈیا نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ کالا پانی پر
انڈیا کا قبضہ سگولی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
نیپال میں مظاہروں بھی ہوئے۔ وزیر اعظم کے پی اولی نے ایک بار یہاں تک کہا
کہ کالا پانی نیپال، انڈیا اور تبت کے مابین ایک سہ فریقی مسئلہ ہے اور
انڈیا کو فوری طور پر وہاں سے اپنی فوج ہٹا لینی چاہیے۔کے پی اولی نے کہا
کہ کالا پانی نیپال کا حصہ ہے۔ یہ پہلا موقعتھا کہ جب نیپال کے وزیر اعظم
نے انڈیا کے نئے سرکاری نقشے سے پیدا ہونے والے تنازعے پر عوامی طور پر
اپنا ردعمل ظاہر کیا۔انڈیا نے نئے نقشے میں کالا پانی کو اپنے علاقے کے طور
پر پیش کیا ۔مگر نیپال نے پارلیمنٹ کی منظوری سے ایک نقشہ جاری کیا جس میں
ان علاقوں کو نیپال کا حصہ دکھایا گیا۔ کالا پانی نیپال کے مغربی سرے پر
واقع ہے۔ وزیر اعظم کے پی اولی کے بیان پر انڈیا کا کہنا ہے کہ نیپال کی
سرحد پر انڈیا کے نئے نقشے میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی ہے۔مگرکے پی
اولی نے دو ٹوک کہہ دیا کہ ہم اپنی ایک انچ زمین بھی کسی کے قبضے میں نہیں
رہنے دیں گے۔ انڈیا یہاں سے فوری طور پر نکل جائے۔ انڈیا کے نقشے میں کالا
پانی کو شامل کیے جانے پر نیپال میں کئی ہفتوں تک مظاہرے ہوئے۔ اس ایشو پر
حکمران جماعت اور حزب اختلاف دونوں متحد ہیں۔ نیپال کی وزارت خارجہ نے ایک
بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ کالا پانی نیپال کا حصہ ہے۔
اس وقت نیپال اور چین میں دوستی بڑھ رہی ہے۔ چین ’’ون بیلٹ، ون روٹ‘‘
منصوبے کی وجہ سے نیپال تک بھی پہنچ رہا ہے۔اس میں نیپال اور پاکستان سمیت
میانمار اور مالدیپ بھی شامل ہونے ہیں۔ مگر بھارت اس منصوبے میں شامل ہونے
سے انکاری ہے۔بلکہ وہ دیگر ممالک کو بھی خبردار کرتا ہے کہ وہ اس میں شامل
ہو کر قرض میں پھنس رہے ہیں۔ مگر بھارتی مخالفت کی وجہ چین پاکستان اقتصادی
راہداری منصوبہ ہے۔ جس کے تحت چین سے گودار تک شاہراہ گلگت بلتستان سے
گزرتی ہے۔ اب اس میں آزاد کشمیر بھی شامل ہوا ہے۔ مانسہرہ سے براستہ مظفر
آباد ایک شاہراہ میرپور تک تعمیر کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہے جب کہ وادی
نیلم کو بھی گلگت بلتستان سے ملانے کے لئے کئی منصوبے شروع کئے جا سکتے ہیں۔
بھارت نے نیپال کے نزدیک15سے زیادہ ڈیم تعمیر کئے ہیں ۔ جن کی وجہ سے نیپال
میں سیلاب آ رہے ہیں۔ جب نیپال میں دو برس قبل سیلاب آئے تو چین نے متاثرہ
علاقوں کے لئے 10لاکھ ڈالرز امداد کا اعلان کیا۔ اس سیلاب میں 150سے زیادہ
لوگ ہلاک ہوئے اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ اس سے پہلے جب نیپال میں زلزلہ آیا ،
چین نے اس وقت بھی امداد دی۔ 2015میں بھارت نے نیپال کا اقتصادی محاصرہ بھی
کیا ۔ جس کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ کو مرکز کے زیرِ انتظام علاقے بنانے
کے بعدایک نیا نقشہ جاری کیا ۔ نقشے میں گلگت بلتستان اورآزادکشمیر کے کچھ
حصوں کو شامل کیا گیا ۔اس نقشے پر پاکستان اور آزاد کشمیر کی طرف سے کوئی
سخت ردعملسامنے نہ آیا۔ مگر نیپالی عوام بھارت کے نقشے پر سڑکوں پر آئے۔
نیپالی وزیر اعظم اولی کہہ رہے ہیں کہ غیر ملکی فوجیں ہماری سرزمین سے واپس
جائیں۔ اپنی زمین کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔پھر نیپال نے اپنا نقشہ جاری
کیا۔ یہ نقشے کی بات نہیں ہے۔ معاملہ زمین واپس لینے کا ہے۔ نیپال زمین
واپس لینے کا عزم رکھتا ہے۔اس کے پاس ایٹم بم، آبدوزیں، میزائل اور جدید
ترین اسلحہ اور بڑی فوج بھی نہیں ہے۔ پتہ نہیں وزیراعظم عمران خان’’ اپنی
شہ رگ‘‘ کے بارے میں دو ٹوک فیصلہ کب کریں گے، جیسے کہ نیپال نے کیا ہے ۔انتخابی
منشور میں بھی اسے شامل کیا گیا۔ ایک چھوٹے سے ملک نیپال نے بھارت کے زیر
قبضہ اپنے علاقے کالا پانی، لمپیا دھورہ اور لیپو لیکھ آزاد کرانے کا عہد
کیا ہے۔ |