تیرا کیا بنے گا ۔۔۔۔؟

قومی تاریخ میں عوام کو کبھی اتنی مایوس کن صورتحال کا سامنانہیں کرنا ،جتنا گذشتہ 3سالوں میں ’’تبدیلی سرکار‘‘کے اقدامات کی بدولت ہوا، حکمرانوں کا مزاج بن چکا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے سے پہلے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں ۔قوم کو انقلابی پروگرام کی نوید سنا کر بے وقوف بناتے ہیں ۔لیکن جب مسند اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں تو بس ایک ہی بات کی گردان شروع کر دیتے ہیں کہ ’’ تمام تر خراب معاشی حالات ومسائل کی ذمہ دار سابقہ حکومتیں ہیں‘‘ ۔اور یہی وہ المیہ ہے کہ ہر لیڈر اپنے دور اقتدار میں قوم کو یہی گیت سناتے سناتے رخصت ہوجا تا ہے کہ ’’یہ سب پچھلوں کا قصور ہے ،میں تو بالکل بے قصور ہوں‘‘۔ایک لمحے کو مان لیا کہ سابق حکمران ہی چور تھے ،ان کی ناقص پالیسوں کی بدولت ملکی معیشت کو نقصان پہنچا ۔لیکن کیاکسی نے یہ بھی سوچا کہ اگر ماضی میں حکومت کی پالیسیاں غلط تھیں تو ’’حاضر سروس‘‘حکمرانوں نے ملکی معیشت کو سنوارنے اور عوام کی مشکلات کو کم کرنے کی کیا تدابیر کیں ۔دیکھا جائے جو موجودہ وزیر اعظم بھی سابقہ حکمرانوں کی پالیسیوں کو ہی آگے بڑھا رہے ہیں ۔

وزیر اعظم عمران خان نے نوازشریف کے خلاف چلائی جانے والی اپنی’’ کنٹینر سیاست‘‘ میں حکومت کے خلاف جوجو کچھ کہا ،جو الزامات نواز شریف پر لگائے جاتے رہے ،آج خود عمران خان ان سے زیادہ وہی کام کر رہے ہیں جو ملکی معیشت کو تباہ کرنے کے مترادف ہیں ۔۔عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ کشکول توڑ دیں گے ،کسی بیرونی ملک یا مالیاتی اداروں سے قرض نہیں لیں گے اور نہ ہی ان کی ڈکٹیشن لیں گے ۔لیکن اپنے تمام تر دعوؤں کے برعکس انہوں نے آئی ایم ایف سے قرض کے لیے معاہدے بھی کر لئے ہیں ۔ان سے ڈکٹیشن بھی لے رہے ہیں،یوں انہوں نے قوم کو زندہ درگور کرنے کا مکمل بندوبست کرلیا ہے ۔کسی انسان کے لئے چار چھ بندوں پر مشتمل ایک گھر کو چلانا ایک مشکل امرہے ،ایسے میں 24کروڑ آبادی کے معاملات کو چلانا کوئی آسان کام نہیں ۔یہی کچھ تبدیلی سرکار کے ساتھ ہوا ہے ۔کچھ کر کے دکھانا پڑتا ہے ،باتوں سے انقلاب نہیں آیا کرتے
؂عمل سے زندگی بنتی ہے ۔۔۔۔

اور ایک ہم ہیں کہ ملک کا سوا ستیاناس کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں ۔تازہ ترین معاہدے کی رو سے بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں وقفے وقفے سے اضافہ کئے جانے کا مژدہ سنایا گیا ہے ۔اور خا ن صاحب مسلسل قوم کو یہ تلقین کر رہے ہیں کہ ’’آپ نے بس گھبرانا نہیں ہے ‘‘۔ آخر کب تک ۔۔؟ قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ،لیکن اس کے باوجود انہیں کوئی احساس نہیں ہو پا رہا ۔

کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں ایک ملک کے صدر نے اپنے پیش رو صدر سے پوچھا کہ آپ تو جا رہے ہیں ،مجھے اپنے تجربے کی روشنی میں مشورہ دیں کہ میں حکومت کیسے چلاؤں ۔؟۔اس کے جواب میں سابق صدر نے انہیں دو پرچیا ں لکھ کردیں اور مشورہ دیا کہ جب ملک میں پہلا بحران پیدا ہو تو ایک نمبر پرچی کھول کر پڑھ لینا جبکہ دوسرے بحران پر دوسری پرچی پڑھ لینا ۔۔وقت گذارتا گیا ۔ملک میں جب معاشی بحران پیدا ہو ا تو صدر نے پہلی پرچی کھول کردیکھی تو اس میں لکھا ’’اس بحران کی ذمہ دار سابقہ حکومت ہے ‘‘۔صدر نے قوم کو مطمئن کرنے کیلئے سارا ملبہ سابقہ حکومت پر ڈال دیا ،وقتی طور پر خطرہ ٹل گیا ،قوم خاموش ہو گئی ۔کچھ عرصے بعد ایک مرتبہ پھر بحران میں شدت آئی تو انہوں نے دوسری پرچی کھول کر دیکھی تو اس میں لکھا تھا کہ ’’اب جانے کی تیاری کرو‘‘۔

لگتا ہے کہ موجودہ تبدیلی سرکار بھی اسی قسم کے مشوروں کو مدنظر رکھ کر نظام مملکت چلا رہی ہے ۔لیکن حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں ۔اب خان صاحب کو ہوش کے ناخن لینا چاہئے اور دوسری پرچی والے مشورے کو عملی جامہ پہنچانا چاہئے ۔کیونکہ اب واقعی ’’جانے کا وقت ہو چکا ہے ۔‘‘

حالات کی سنگینی جو سیاسی منظر نامہ پیش کرر ہی ہے ،اس سے صاف نظر آتا ہے کہ عنقریب کوئی انہونی ہونے والی ہے ۔اقتدار کی اس جنگ سے ہمیشہ قوم کا ہی نقصان ہوا ہے ۔قوم کی تقدیر بدلنے کے دعویداروں نے اپنی تجوریاں بھرنے اور اپنی اولادوں کے مستقبل کو سنوارنے پر اپنی توانائیاں صرف کی ہیں ۔ہمیں فیلڈ مارشل محمدایوب خان کے بعد کوئی ایک بھی ایسا حکمران نہیں ملا ،جس نے ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کو مقدم جانا ہو ۔بہت ہو چکی ۔اب تو گھبراہٹ پر قابو پاتے پاتے لوگوں کا دم نکلنے لگا ہے ۔قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’اے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہو، جو کرتے نہیں ‘‘۔تبدیلی سرکار کو بھی اس فرمان الہیٰ کی روشنی میں اپنے کارناموں کا جائزہ لینا چاہئے ۔کہ انہوں نے ’’کنٹینر سیاست ‘‘کے دوران جو بڑکیں ماری ،ان میں سے کتنی باتوں پر عمل کیا گیا ۔اور انہوں نے ان نوجوانوں کے کیا’’ڈیلیور‘‘ کیا ہے کہ جنہوں نے اپنے ووٹ نہ ہونے کے باوجود ملک و ملت کے روشن مستقبل کیلئے اپنے والدین ،بہن بھائیوں اور عزیز و اقارب کو مجبور کیا کہ ووٹ ہر حالت میں ’’تبدیلی سرکار ‘‘کو دیں ۔’’ورلڈ کپ ‘‘ جیتنا اور حکومت چلانا دو الگ الگ باتیں ہیں ۔اور حکومت کی تین سالہ کارکردگی نے سب کچھ عیاں کرکے رکھ دیا ہے۔

بزرگوں کا کہنا ہے کہ ’’انسان کو ’’بڑا بول‘‘ (یعنی غرور میں بڑے بڑے دعوے نہیں کرنا چائیے)نہیں بولنا چاہئے،انسان کی حیثیت ایک مٹی کے لوتھڑے سے زیادہ نہیں ۔ہر کام اﷲ کی مرضی و منشاء سے ہی ہوتا ہے ۔اور ’’بڑا بول ‘‘بولنے والوں کو دنیا میں ہی اپنے ’’ارشادات ‘‘کی سزا ضرور ملتی ہے ۔کیونکہ نظام کائنات چلانے والی ایک ہی ذات ہے اور وہ ہمارا ربّ ہے ۔وہی ہمیں عطا کرتا ہے ،وہی جب چاہتا ہے محروم کر دیتا ہے

تبدیلی سرکار کی عزت اب اسی میں ہے کہ وہ حکومت سے الگ ہو جائیں ،اب تک قوم نے گھبرانے سے گریز کیا ہے لیکن اب خان صاحب کو بھی ’’گھبرانا نہیں ‘‘ہے ،بلکہ اب صرف اور صرف جانا ہے ،کیونکہ اب تک ریاست کو جس طریقے سے چلایا گیا ہے ۔اور جس طرح معیشت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا گیا ہے ۔۔اس کا خمیازہ ہماری آئندہ نسلوں کو بھگتا پڑے گا ۔ آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدوں نے قوم کو زندہ درگور کرکے رکھ دیا ہے ۔اور اس سے قبل کے پانی سر سے گذر جائے ،اور انقلاب ان کے دروازے تک پہنچ جائے ،تبدیلی سرکار کو قوم کی جان چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ جس دن عوامی قہر کی صورت کوئی ’’گبر سنگھ ‘‘آگیا تو وہ دن یقینا بہت ہی تکلیف دہ ہوگا ۔۔بروقت فیصلے انسان کے حق میں بہتری کے اسباب پیدا کرتے ہیں ،کیونکہ اگر اب بھی حالات کی نزاکت کا ادراک نہ کیا گیا تو پھر یہی ایک جملہ زبان زد عام ہوگا کہ
تیرا کیا بنے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 130445 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.