ڈبلیو ایچ او کی جانب سے ابھی حال ہی میں یہ کال دی گئی
ہے کہ سال 2022 کو وبا کے خاتمے کا سال ہونا چاہیے۔تاہم اس مقصد کی خاطر
وبا کے خلاف عالمی جنگ میں محدود اور متوسط آمدنی والے ممالک میں ویکسین کی
منصفانہ تقسیم اور وسیع پیمانے پر ویکسینیشن میں خاطر خواہ پیش رفت یقینی
بنانا ہوگی۔ دوسری جانب کچھ افسوسناک صورتحال کا سامنا بھی ہے۔
نائیجیریا کو اکتوبر میں یورپ سے آسٹرازینیکا ویکسین کی 2.5 ملین سے زائد
خوراکیں موصول ہوئیں، لیکن ان میں سے تقریباً نصف کی میعاد نومبر میں ہی
ختم ہو گئی۔ ویکسین کی حفاظت کے بارے میں عوامی خدشات کو دور کرنے کے لیے،
نائیجیریا کی حکومت کو گزشتہ ہفتے زائد المیعاد ویکسین کو تلف کرنے پر
مجبور ہونا پڑا۔انہی حقائق کے پیش نظر سابق برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن
نے ستمبر میں ہی خبردار کر دیا تھا کہ رواں سال کے اواخر تک دنیا بھر میں
ترقی یافتہ ممالک میں ویکسین کی 100 ملین خوراکیں ضائع ہونے کا خدشہ ہے، یہ
اعداد و شمار امیر ممالک کی بے حسی کا مظہر ہیں۔
افریقہ میں نائیجیریا وہ پہلا ملک نہیں جسے مغرب کی جانب سے جلد میعاد ختم
ہونے والی ویکسین دی گئی ہیں۔ رواں سال جولائی کے اوائل میں ڈبلیو ایچ او
کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ افریقہ کے 8 ممالک کو اسی مسئلے کا سامنا
کرنا پڑا ہے۔ ملاوی اور جنوبی سوڈان جیسے ممالک کو ہزاروں ویکسین تلف اور
ضائع کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ ملاوی کے صدر چک ویلا نے کھلے عام کہا کہ "
ہم کوئی ڈمپنگ گراؤنڈ نہیں ہیں۔" ڈبلیو ایچ او کے تحت ویکسین تعاون
"کووایکس" نے انکشاف کیا ہے کہ افریقی ممالک کو آج تک دیے گئے ویکسین کے
عطیات میں سے زیادہ تر کی شیلف لائف انتہائی مختصر رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ
برآمد ہوا ہے کہ اکثر ترقی پذیر ممالک نہ صرف لازمی ویکسین امداد سے محروم
رہے بلکہ انہیں چند بڑے ترقی یافتہ ممالک کے"وسیع ویکسین ویسٹ ٹریٹمنٹ
پلانٹس" بھی مجبوراً بننا پڑا ہے۔ وبا کے درپیش سنگین چیلنج کے خلاف ایسی
منافقانہ حکمت عملی دنیا کی کووڈ۔19 کے خلاف جنگ میں ایک بڑی رکاوٹ بن رہی
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اومی کرون کا ظہور دولت
مند ممالک کی جانب سے ویکسین کی اضافی ذخیرہ اندوزی کا ہی نتیجہ ہے، جبکہ
وائرس کے نئے تغیرات کے باعث ایسا لگتا نہیں کہ امیر ممالک ویکسین کی زخیرہ
اندوزی سے پیچھا چھڑا پائیں گے۔ یوں وبا کے خلاف جنگ بظاہر ایک "شیطانی
دائرے" کے گرد ہی گھومتی نظر آ رہی ہے۔ افریقی ممالک کو ایسی ویکسین کی
فراہمی اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ "ویکسین نیشنلزم" ابھی بھی کام کر رہی
ہے۔ افریقہ کو جلد میعاد ختم ہونے والی ویکسین کے "جعلی عطیات" کے بجائے
حقیقی مدد کی ضرورت ہے۔
آج اومی کرون ویریئنٹ نے دنیا کے اکثر ممالک میں ڈیلٹا کو پیچھے چھوڑ دیا
ہے۔ یہ امیر ممالک کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے
کہ وہ اپنے شہریوں کو ویکسین کی کتنی ہی خوراکیں کیوں نہ دے دیں، اگر عالمی
ویکسینیشن کی شرح میں اضافہ نہیں ہوتا ہے تو وائرس میں مزید تغیرات کا
سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ تاحال افریقہ میں 1.3 بلین لوگوں
میں سے صرف 7.5 فیصد کو مکمل طور پر ویکسین لگائی گئی ہے، جبکہ امیر ممالک
اب بھی ویکسین کا ذخیرہ کر رہے ہیں ۔اس کے برعکس ایک ترقی پزیر ملک کے طور
پر چین، جس پر امیر ممالک نے "ویکسین ڈپلومیسی" کا لیبل لگایا ہے، نے 53
افریقی ممالک اور افریقی یونین کمیشن کو 180 ملین سے زیادہ ویکسین کی
خوراکیں فراہم کی ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ چین کی غیر ملکی ویکسین کی
ترسیل ملکی ویکسین کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے، اس کے برعکس چند مغربی ممالک
پہلے بڑی مقدار میں ویکسین کا ذخیرہ کرتے ہیں اور پھر جب ان کی میعاد ختم
ہونے والی ہوتی ہے تو انہیں "عطیہ" کرتے ہیں۔
چین۔افریقہ تعاون فورم کی حالیہ 08ویں وزارتی کانفرنس کے دوران، چین نے
افریقہ کو اضافی 01بلین خوراکیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا ، جس میں 600 ملین
خوراکیں بطور عطیہ شامل ہیں۔ یہ بات بھی تعجب انگیز ہے کہ چین نے 120 سے
زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو تقریباً 02 بلین ویکسین کی خوراکیں
فراہم کی ہیں، یوں چین بیرونی ممالک اور خطوں کو ویکسین فراہم کرنے والا
دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ چین اپنے حقیقی عمل سے بنی نوع انسان کے ہم نصیب
معاشرے کی تعمیر کو فروغ دینے کے اپنے عہد پر قائم ہے۔
نوول کورونا وائرس نے دنیا کو سکھایا ہے کہ وبا یا امراض کوئی سرحد نہیں
دیکھتے ہیں، اس لیے موجودہ وبا کا خاتمہ اور روک تھام ، کمزور ممالک میں
انسداد وبا کی صورتحال پر منحصر ہے۔ تجزیہ نگاروں کے نزدیک افریقہ وبا کے
خلاف عالمی جنگ میں "اہم ترین محازوں" میں سے ایک بن چکا ہے۔ اگر امیر
ممالک واقعی خلوص نیت سے اس جنگ میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں، تو انہیں
افریقہ کو "ویکسین ویسٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ" کے طور پر دیکھنا بند کرنا ہو گا ،
جیو پولیٹکس کو سائنس سے بالاتر رکھنے سے گریز کرنا ہو گا، اور ایسی
"ویکسین نیشنلزم" سے باز رہنا ہو گا جو دوسروں اور خود اُن کے لیے تباہ کن
ہے۔ آج عالمگیریت کے دور میں ہر ایک ملک سے وبا کا خاتمہ ہی ، ایک محفوظ
دنیا کا ضامن ہے۔
|