نہیں ہے شہرمیں کوئی چہرہ تروتازہ
عجیب طرح کی آلودگی ہوامیں ہے
عاصم واسطی صاحب کے اس خوبصورت شعر کیساتھ آج کاکالم شروع کرتے ہیں آج سے
چودہ سوسال پہلے ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ نے صفائی کونصف ایمان کہا ہے
اس سے صرف یہ مراد نہیں کہہ ہم اپنے لیے یااپنے گھرکیلئے سمجھیں بلکہ اس
فضائی آلودگی میں جوسموگ ہے یہ بھی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے ہے جو گناہ بھی
ہے اورجرم بھی حالانکہ ہونا تویہ چاہیے جولوگ کوڑاکرکٹ کوآگ لگاتے ہیں ان
پرقانونی کاروائی ہونی چاہیے کیونکہ کوڑے کووہ آگ لگاتے ہیں جس سے زہریلا
دھونواں بنتا ہے سموگ آلودہ گیس،دھونواں اورمٹی کامجموعہ ہے ۔ہرکالم نگارکی
کوشش ہوتی ہے کہ وہ صرف کالم اخبارکیلئے نہ لکھے بلکہ وہ ایسا کالم لکھے کہ
لوگ اس سے مستفیدہوں ورنہ ہرروز اخبارلفظوں سے بھرے پڑے ملتے ہیں اسی سوچ
کے کئی دن سرچ کرنے کے بعد یہ کالم لکھنے کوملامگرمیں اب بھی کہوں کا کالم
کبھی بھی 100%نہیں ہوسکتاصرف اﷲ پاک کی تخلیق کردہ چیزیں پوری ہوتی ہیں ۔
ایک جگہ میں نے سموگ کے بارے میں پڑھا جب دھونواں سلفرڈائی آکسائیڈاوردوسرے
نامیاتی اجزاء سے مل جاتا ہے اورفضا میں موجود گردکے ذرات مل کرفضائی
آلودگی کی شدت میں اضافہ کرتے ہیں جس سے ایلڈی ہائیڈز،نائٹروجن
آکسائیڈ،نائٹرک آکسائیڈاورنائٹروجن ڈائی آکسائیڈ،اوزون،ایسائل نائٹریٹ
،وولاٹائل وغیرہ شامل ہوتے ہیں اوران تمام اجزاء سے فوٹوکیمیکل سموگ بن
جاتی ہے ۔سموگ کوزمینی اوزون کہاجاتا ہے سموگ کی وجہ سے انسان کے دیکھنے کی
صلاحیت کم ہوجاتی ہے ۔گزشتہچند سالوں سے موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی ملک
کے مختلف حصوں میں سموگ کی فضاکی بھی آمدہوجاتی ہے۔ سموگ سے محفوظ رہنے
کیلئے ضروری ہے کہ اس کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل کی جائے تاکہ اس کے
نقصانات سے بچا جاسکے۔ سموگ آلودہ گیسوں اور مٹی کے ذرات کا مجموعہ ہے۔
بارشوں میں کمی، فضلوں کو جلائے جانے ، کارخانوں اورگاڑیوں کے دھوئیں اور
درختوں کو کاٹ کر قدرتی ماحول میں بگاڑ پیدا کرنا سموگ کی بنیادی وجوہات
میں شامل ہے۔ سموگ فضائی آلودگی انسانی صحت کے لئے بے حد نقصان دہ ہیجس سے
سموگ زدہ ماحول میں سانس لینے سے گھٹن اور آلودگی پھیل جاتی ہے۔ فضا میں
موجود سلفیٹ اور کاربن مونو آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار زمین پر بسنے والے
انسانوں کے پھیپھڑوں اور دل کے نظام کے علاوہ جلد اور گلے کو متاثر کرتی
ہے۔ اگر کسی فرد کو سموگ کی وجہ سے انفیکشن شروع ہو جائے تو سب سے پہلے گلے
میں خراش یا زخم ،مسلسل خشک کھانسی ،چھینکیں آنا ، حلق میں ریشہ ، آنکھوں
میں بھی شدید چبھن یا جلن ہونا ،دل کے امراض ، پھیپھڑوں کے امراض اور سانس
کی بیماریاں لا حق ہونا، یہ تمام شکایات ایک تندرست آدمی کو سموگ کی وجہ سے
پیدا ہو سکتی ہیں۔ اور جو افراد پہلے سے ہی سانس کی مختلف بیماریوں مثلاً
دمہ، پھیپھڑوں کے کینسر اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہیں، ان کے لئے
سموگ زہر قاتل ہے اور ایسے افراد کے لئے مزید بیماریوں کا باعث بن سکتی
ہے۔کارخانوں گاڑیوں وغیرہ کا دھونواں فضا میں جمع ہوجاتا ہے اس دھونواں میں
زہریلی گیسیں،گردوغباراودیگرکثافتیں موجود ہوتی ہیں جب موسم ذراسردہوتا ہے
تویہ کثافتیں دھندکی شکل اختیارکرلیتی ہیں جنہیں تکینیکی زبان میں سموگ
کہاجات ہے ۔فضائی آلودگی انسانی صحت کے لحاظ سے چوتھابڑاخطرہ ہے اس آلودگی
کی وجہ سے ہرسال 70لاکھ لوگ اپنی زندگی کی بازی ہارجاتے ہیں اس لسٹ میں چین
پہلے نمبرپرہے بھارت دوسرے نمبرپراورپاکستان تیسرے نمبرپرہے جس میں سالانہ
ایک لاکھ سے زائدلوگ اس فضائی آلودگی کی بھینٹ چڑھتے ہیں فضائی آلودگی کی
شرح میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جوشرح2001میں
120سے125ُِPMیعنی(Particulate metter)ہواکرتی تھی وہی فضائی آلودگی 2010میں
250PMتک پہنچی مگراب فضٓائی آلودگی کی شرح دیکھ کردم گھٹنے لگتا ہے کہ
430سے450PMتک پہنچ چکی ہے تویقیناًفضائی آلودگی کی وجہ سے اموات میں بھی
اضافہ ہوگا۔توہمیں چاہیے کہ ہم اپنی گاڑیوں کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ
کوترجیح دیں جس سے ملک کوبھی فائدہ پہنچے گاہمارے ملک میں دھواں کی وجہ سے
سموگ کاخطرہ ہے وہ بھی ختم ہوجائے گاورہماراخرچ بھی بچے گا۔رہائشی
کالونیاں،گلیاں،ہسپتال،ہوٹل گراؤنڈمصروف شاہراہوں سے دورتعمیرکیے جائیں
اورہمیں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے چاہیں تاکہ درخت زہریلے ذرات ختم کرنے
کے ساتھ زیادہ سے زیادہ آکسیجن مہیاکرسکیں ۔اپنے قارائین سے التماس کروں گا
جن لوگوں کو سموگ کے نقصان کا نہیں پتاانہیں ضروراگاہ کریں اورخاص کرکسان
اپنی فصل حاصل کرنے کے بعدمنڈھوں کوآگ لگادیتا ہے توانہیں بتائیں کہ یہ ملک
اورمعاشرے کیلئے نقصان ہے اس کے ساتھ یہ جرم بھی ہے میں وزیراعظم عمران خان
سے التماس کروں گا کہ کچھ دنوں کیلئے پرائیویٹ گاڑیوں پرپابندی لگائیں
اورپبلک ٹرانسپورٹ کوترجیح دلوائیں تاکہ سموگ کا خطرہ جو سرپرسوارہے یہ ٹل
جائے۔میں یہ نہیں کہتا کہ ملک ترقی نہ کرے مگرماحول کوداؤپرلگاکرترقی ترقی
نہیں انسانی قتل ہے ویسے بھی ترقی اچھی غذا،اچھامعیارزندگی،اچھی صحت اورصاف
پانی مہیاہومگرہمارے ملک میں درختوں کوکاٹ کرعمارتیں اورخوبصورت
فرنیچربنائے جارہے ہیں مگریہ لوگ یہ نہیں سوچ رہے یہ عمارتیں یہ فرنیچرکس
کام کے جب انسانوں کوہی مارنے پرتلے ہو۔ فضائی آلودگی سے عمر رسیدہ افراد
حاملہ خواتین اور چھوٹے بچے کمزور مدافعتی نظام ہونے کی وجہ سے زیادہ متاثر
ہوتے ہیں۔ سموگ میں موجود اوزون سے محفوظ رہنے کے لئے آنکھوں پر بھی حفاظتی
چشمے استعمال کرنا چاہئے۔ اگر ہم سموگ سے آلودہ کسی علاقے میں موجود ہیں تو
ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ سموگ کے دوران چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپ کر رکھیں
اور گھر کے دروازے اور کھڑکیوں کو بند رکھیں۔ فضا کو صاف کرنے والے مختلف
فلٹرز اور ایسے جدید آلات دستیاب ہیں جن کو استعمال کر کے ہم اپنے گھروں،
دفاتراور گاڑ یوں کی فضا کو صاف رکھ سکتے ہیں۔ سردیوں میں سموگ کے اثرات کم
کرنے کے لیے، صبح شام لیمن گراس قہوہ استعمال کرنا چاہئے ، ڈرائی فروٹ
استعمال کرنا چاہئے۔ ہر ممکن احتیاط کے علاوہ ہمیں اپنے علاقے میں موجود
پودوں اور درختوں کو کاٹنے سے اجتناب کرنا چاہئے اور درختوں میں اضافہ کرنا
چاہئے۔اس کے علاوہ گاڑی چلاتے وقت گاڑیوں کی رفتار دھیمی ر کھنا اور فوگ
لائٹس کا استعمال کر نا چاہئے۔وہ لوگ جو دمے یا سانس کی مختلف بیماریوں میں
مبتلا ہیں انہیں زیادہ رش یا ٹریفک جام والی جگہوں پر جانے سے اجتناب کرنا
چاہئے۔میں اپنے قارائین کوبتاناچاہتاہوں کہ 0سے50انڈیکس ایئرکواچھاماناجاتا
ہے,51سے100اطمینان بخش، 101سے200کو درمیانہ201سے300کوخراب 301 سے 400کوبہت
خراب اور401سے 500کوخطرناک تصورکیاجاتاہے اب آپ خوداندازہ لگائی ہم خوداپنے
دشمن بنے ہوئے ہیں حالانکہ ہم سموگ کے خطرناک کیٹیگری میں ہیں فٓضائی
آلودگی کی وجہ سے پاکستان میں سالانہ ڈیڑھ لاکھ سے زائیدنوزائیدہ بچے موت
کے منہ میں چلے جاتی ہیں اور16,28ملین لوگ صحت کے مسائل سے دوچار ہیں۔
سالانہ 80ہزارسے زائدلوگ ہسپتالوں میں داخل ہوتے ہیں جن میں زیاد ہ لوگ
پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا ہیں اس کے علاوہ بڑوں اوربچوں میں سانس کی
بیماری پھیل رہی ہے اوریہ بیماری پانچ سال کے بچوں سے لیکربڑھے لوگوں میں
تیزی سے پھیل رہی ہے اس فضائی آلودگی کی وجہ سے 2028تک کئی مزیدبیماریاں
سامنے آئیں گی ہمیں سوچناچاہیے کہ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کیلئے اس
فضائی آلودگی کے بارے میں کیا قدم اٹھایا ہے ۔ویسے توہماراملک غریب ہے اس
میں رہنے والا ہرشخص زکوۃ صدقے کا مستحق ہے اسی لیے پچھلے دس سالوں میں
ڈیڑھ کروڑ گاڑیاں ہوگئی ہیں جن کی وجہ سے فضٓائی آلودگی میں تیزی سے اضافہ
ہورہا ہے اور اس آلودگی کوجنگلات روکتے ہیں اورہم نے انہیں بھی اپناایندھن
بنا ڈالااوراب خودموت کا ایندھن بننے کوتیاربیٹھے ہیں ۔فضائی آلودگی
اورسموگ کوکنٹرول کرنا مشکل لگ رہا ہے مگراس کیلئے کچھ حفاظتی تدابیرہیں جن
پرعمل کرکے ہم اپنی زندگی کو خطرے سے باہرنکال سکتے ہیں 1۔سرجیکل یاچہرے
کاکوئی بھی ماسک استعمال کریں 2۔تمباکونوشی کورد کردیں اپنے لیے اپنے
پیاروں کیلئے3۔غیرضروری باہرگھومنے پھرنے سے پرہیز کریں4۔زیادہ پانی اورگرم
چائے کا استعمال کریں 5۔باہرسے آکرہاتھ منہ اورجسم کے کھلے اجزاء
ضروردھوئیں 6۔کھڑکیوں دروازوں کے کھلے حصوں پرگیلاکپڑارکھیں 7۔فضاصاف رکھنے
کیلئے آلات کا استعمال کریں 8۔فوگ کے دوران گاڑی آہستہ چلائیں اوردھیمی
لائٹس کااستعمال کریں 9۔ہجوم والی جگہیں خاص کرزیادہ ٹریفک والی جگہ سے
پرہیزکریں10۔نہ کچراجلائیں نہ کسی کوجلانے دیں 11۔اپنی گاڑی سے زیادہ پبلک
ٹرانسپورٹ کوترجیح دیں موٹروہیکل آرڈیننس 1965اوراس کے تحت بنائے گئے
موٹروہیکل رولز1969کے مطابق تمام پبلک سروس وہیکلز کے لیے لازم ہے کہ
وہہرچھ ماہ بعدمستندوہیکل انسپکشن سنٹرسے فٹنس سرٹیفکیٹ حاصل کریں ایمیشن
2014سے پہلے کی مینوفیکچرکردہ قابل استعمال پٹرول گاڑیوں کیلے2014سے پہلے
مینوفیکچرکردہ موجودہ استعماگاڑیوں کے دھوئیں میں شامل گیسوں کاتناسب
6%کاربن مونوآکسائیڈ،ہائیڈروکاربن600ppmاور CO+CO2=12%سے نہیں بڑھناچاہیے
ڈیزل گاڑیوں کی 20یا20سے زائدپرانی گاڑیوں کے دھوئیں کی کثافت60%سے زیادہ
نہیں ہونی چاہیئے ۔رکشہ موٹرسائیکل استعمال گاڑیوں میں دھوئیں میں شامل
گیسوں کاتناسب 6%کاربن مونوآکسائیڈ،ہائیڈروکاربن800ppmاور CO+CO2=12%سے
نہیں بڑھناچاہیے اس کے علاوہ ڈیزل پرچلنے والی نئی گاڑیاں یا20سال سے چلنے
والی گاڑیوں میں دھوئیں کی کثافت40%سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے فضائی آلودی
کی روک تھام کے حوالے سے قوانین کی پاسداری ہم سب کی اخلاقی وقانونی ذمہ
داری ہے۔علی جان کے کالم اب آپ ٹوئٹراورانسٹاگرام پربھی پڑھ سکتے ہیں۔اﷲ ہم
سب کاحامی وناصرہو۔
|