رواں برس اہل پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ
کا145 واں یوم ولادت منا رہے ہیں۔ بانی پاکستان 8 ذوالحج 1293ھ بمطابق
25دسمبر1876ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ بانی پاکستان کے یوم پیدائش پر ان کی
شاندار خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے خصوصی تقریبات ، مذاکروں،
مباحثوں،سیمینارزاور کانفرنسز کا سلسلہ ملک بھر میں جاری ہے ۔ بلاشبہ بانی
پاکستان نے اپنی مضبوط قوت ارادی، دانشورانہ صلاحیتوں، گہرے مدبرانہ فہم و
ادراک اور انتہائی مضبوط و فولادی اعصاب اور انتھک محنت سے برصغیر کے
مسلمانوں کے گلے سے صدیوں کی غلامی کا طوق ہمیشہ کے لئے اتارا ۔ برصغیر کے
مسلمانوں کی زندگی میں تین قد آور شخصیات نے انقلابی تبدیلیاں برپا کیں،
اور آخرمیں تینوں کی جدوجہد ایک علیحدہ وطن کے قیام پر منتج ہوئی جبکہ آغاز
میں یہ تینوں راہنما ہندومسلم اتحاد کے داعی تھے ۔ سرسیّد نے پورے خلوص سے
اتحاد کی کوششیں کیں مگر بالآخر وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’اگر
ہندوستان میں برطانوی جمہوریت آئی تو ہندوستانی مسلمان خود کو ہندوؤں کے
رحم وکرم پر پائیں گے ‘‘۔مشرق کے بے مثل شاعر اور مفکر علامہ محمد اقبالؒ
نے بھی ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘جیسے ترانے لکھے مگر اسی
ہندوستان کی اکثریتی آبادی کی تنگ نظری کو بھانپ کر انہوں نے خود ایک
علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا۔ محمدعلی جناحؒ کئی سالوں تک ہندومسلم اتحاد کے
سب سے بڑے وکیل رہے مگر ھندوذہنیت کو اچھی طرح جانچنے اور پرکھنے کے بعد اس
قدر بدظن ہوئے کہ سیاست سے ہی کنارہ کش ہوکر برطانیہ چلے گئے اور جب واپس
آئے تو مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کی تحریک کا پرچم اٹھالیا۔ بانی پاکستان
قائد اعظم محمد علی جناح کا اہل پاکستان پر احسان عظیم ہے کہ انہوں برصغیر
کے مسلمانوں کے لئے ایک آزاد ، خودمختار ریاست کے قیام کے لئے بھر پور
جدوجہد کی، جس کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمان مسلم لیگ کے جھنڈے تلے یکجا
ہوئے۔
قائد اعظم محمد علی جناح ایک عہد آفرین شخصیت، عظیم قانون دان، بااصول
سیاستدان اور بلند پایہ مدبر تھے، ان میں غیر معمولی قوت عمل اور غیر
متزلزل غرم، ارادے کی پختگی کے علاوہ بے پناہ صبر و تحمل اور استقامت و
استقلال تھا۔ قائد اعظم کی بھر پور جدوجہد کی بدولت آخر کارتحریک آزادی رنگ
لائی اور انگریزوں کو ہندو مسلم علیحدہ قومیت یعنی دو قومی نظریہ تسلیم
کرنا پڑا ۔ اور 3 جون 1947ء کو ہندوستان کے آخری وائسرائے اور گورنر جنرل
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے آل انڈیا ریڈیو سے تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کیا۔
جبکہ یہ ایک امر حقیقی ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی طرف سے شروع کی جانے
والی جدوجہد آزادی کے مختلف مراحل پر کسی بھی مسلمان رہنما کو اپنی قوم کی
طرف سے اطاعت شعاری کا وہ جذبہ اور مظاہرہ نصیب نہیں ہوا جو بابائے قوم کو
حصول پاکستان کے لیے کی جانے والی بے لوث اور شبانہ روز جدوجہد کے دوران
میسر آیا۔ پر عزم جدوجہد آزادی کے ساتھ ساتھ بانی پاکستان کی صحت گرتی رہی
، قائد اعظم محمد علی جناح1930 ء سے تپ دق کے مرض کا شکار چلے آرہے تھے اور
اس بیماری سے متعلق صرف ان کی بہن اور چند قریبی ساتھی جانتے تھے مگر بانی
پاکستان نے بیماری کی حالت میں بھی جدوجہد آزادی کا کوئی جلسہ ترک نہیں کیا
۔ قیام پاکستان کے صرف ایک سال ایک ماہ بعد بانی پاکستان کی وفات ایک ایسا
قومی المیہ ہے جس کے اثرات آج تک محسوس کئے جا رہے ہیں، کیونکہ قیام
پاکستان کے بعد قوم کو درپیش سنگین مسائل کے حل اور اندرونی و بیرونی
سازشوں سے نمٹنے کیلئے قائداعظم کی رہنمائی کی اشد ضرورت تھی۔ اور بھارت کی
اثاثوں کی تقسیم میں ریشہ دوانیوں، باؤنڈری کمیشن کی غیرمنصفانہ کارروائیوں
(جن کے نتیجے میں کشمیر کے تنازعہ نے جنم لیا) اور دیگر ناگزیر حالات کی
وجہ سے ملکی آئین کی تدوین اور ملک کی مختلف اکائیوں کے مابین بنیادی
معاملات پر اتفاق رائے کے حصول میں جو تاخیر ہوئی وہ قائد کی وفات کی وجہ
سے مزید الجھ گئے۔
قائداعظم کی زندگی میں نہ تو سول اور خاکی بیوروکریسی کو جمہوری اداروں اور
سیاسی نظام میں دخل اندازی کا موقع ملتا اور نہ ملک کے مختلف سیاسی و مذہبی
طبقات اور جغرافیائی اکائیوں میں اختلاف کی خلیج گہری ہوتی، کیونکہ قوم کے
بھرپور اعتماداحترام اور عقیدت کے علاہ خداداد بصیرت کی وجہ سے قائد اعظم
نہ صرف اتحاد و یکجہتی کی علامت تھے بلکہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت سے
بھی مالامال تھے۔ بانی پاکستان قائداعظم نے پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب
میں فرمایا ’’اگر ہم عظیم مملکت پاکستان کو خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو پوری
توجہ لوگوں بالخصوص غیر طبقہ کی فلاح و بہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی،ہر شخص
خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو اس کا رنگ ، نسل ، مذہب کچھ بھی ہو اول
اور آخر مملکت کا شہری ہے۔ اس کے حقوق مراعات اور ذمہ داری مساوی اور یکساں
ہے‘‘۔ آزادی کی طویل جدو جہد میں قائد اعظم کی شخصیت اور ولولہ انگیز قیادت
روشنی کے ایک بلند مینار کی حیثیت رکھتی ہے جس کی روشنی سے پاکستان کو
حقیقی طور پر منور کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ قائداعظم کے
بتائے ہوئے اصول و ضوابط پر سختی سے عمل پیرا ہو کر وطن عزیز کی تعمیر و
ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا جائے، نئے یا پرانے پاکستان کی بحث میں
الجھنے کی بجائے پاکستان کو قائد کا پاکستان بنایا جائے ، تا کہ ہمارا یہ
پیارا وطن معاشی ترقی و استحکام حاصل کر کے وہ مقام حاصل کرسکے جس کا خواب
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا، اور جس کی تکمیل کے لئے مسلمانوں
کے عظیم رہنما قائد اعظم محمد علی جناح نے جدوجہد کی تھی۔ |