کہایہ جاتاہے کہ اگر انسان میں خود عقل نہ ہو تو
پڑوسیوں سے لے لینی چاہیئے ۔شاید قدرت نے اسی میں ان کا بھلا رکھا ہو۔ چند
ہفتے پہلے کی بات ہے کہ پی ٹی آئی کو جب توقع کے برعکس کے پی کے میں شکست
کا سامنا کرنا پڑا ۔ پشاور شہر کے ٹکٹ پانچ کروڑ کے عوض دینے کے چرچے ہوئے
تو دوسری جانب عمران خان نے اپنی شکست سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان بھر
بلکہ دنیا بھر میں پی ٹی آئی کی تنظیموں کو یک جنبش ختم کر دیا اور اگلے ہی
دن انہوں نہ صرف سنٹرل پنجاب ، جنوبی پنجاب ، کے پی کے ، سندھ ، بلوچستان
کے صدور کا اعلان کردیا بلکہ پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹر ی کے عہدے پر اپنے
آزمودہ اور وفاداردوست اسد عمر کو مقرر کرکے اندرون ملک اپنی تنظیم مکمل
کرلی ۔جتنے صوبوں کے صدور کا بھی اعلان ہوا ان سب نے اپنے اپنے دائرہ کار
میں ڈویژن ، ضلعی ،تحصیلی اور سب تحصیلی سطح پر ممبرشپ کے علاوہ تنظیم سازی
کا عمل فوری طور پر شروع کردیا ہے ۔ اس بات کا علم تو یقینی طور پر نواز
شریف کو بھی اور شہباز شریف( جو اٹھتے بیٹھتے حکومت کے غلط اقدامات پر
تنقید کرتے ہیں )اور مریم نواز کو بھی ہوگا کہ کسی بھی وقت قومی الیکشن کا
بگل بج سکتا ہے اور اس سے ایک ایک لمحہ ممبر سازی اور تنظیم سازی کے لیے
اہم تصور کیا جارہا ہے ۔ پھر کے پی کے کے دوسرے مرحلے کے بلدیاتی الیکشن کا
انعقا د مارچ یا اپریل کو ہونا قرار پایا ہے ، پہلے مرحلے میں لیگی قائدین
کی جانب سے توجہ نہ دینے کی بنا پرصرف تین سیٹیں مسلم لیگ ن کے حصے میں
آئیں اس سے بڑی شرمندگی اور کیا ہوگی اگر وہاں بلدیاتی ممبران کی شکل میں
بنیاد ہی مضبوط نہ ہو گی تو متوقع صوبائی اور قومی الیکشن میں مطلوبہ سیٹیں
کیسے جیتی جا سکتی ہیں ۔ میں اس بات پر حیران ہوں کہ فواد چودھری اور اسد
عمر کے اس بیان کے بعد بھی مسلم لیگ ن کی صفوں میں کوئی کھلبلی نہیں مچی کہ
کے پی کے میں پی ٹی آئی کی شکست کا واویلہ کرنے والے مسلم لیگی اپنے گریبان
میں کیوں نہیں جھانکتے جنہیں 64اضلاع میں سے صرف تین سیٹیں ملی ہیں ، ناکام
تو ن لیگ ہوئی ہے ہم تو جیتنے والوں میں پھردوسرے نمبر پر ہیں بلکہ الیکشن
کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق سب سے زیادہ ووٹ لینی والی جماعت پی ٹی آئی ہے ۔
مزے کی بات تو یہ ہے اس کا جواب مسلم لیگ ن کے کسی رہنما نے نہیں دیا اور
جس طرح بگلہ ریت میں سرچھپا کر بیرونی حالات سے بے خبر ہو جا تا ہے ،اسی
طرح مسلم لیگ ن کے قائدین اس طرف آنے کا نام بھی نہیں لے رہے ۔ اس سے
بڑاستم اور کیا ہو گا کہ مسلم لیگی قائدین ابھی تک قومی سطح کی تنظیم سازی
کرنے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں رکھتے ۔ جنوبی پنجاب جو پنجاب کا آدھا حصہ ہے
جہاں سے پچھلے الیکشن میں پی ٹی آئی تقریبا ساری سیٹیں جیت کر صوبائی اور
قومی سطح پر حکومتیں بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ ن لیگ کے قائدین اب بھی
جنوبی پنجاب کو ٹچ کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ بلکہ وہاں اپنی تنظیم سازی کرنے
کی بجائے اس آدھے پنجاب کو پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے حوالے کرتے دکھائی
دیتے ہیں ۔صوبہ خیبر پختونخوا جہاں ہزارہ کا تمام علاقہ اور سوات مالاکنڈ
ایجنسی میں بھی مسلم لیگ ن کے چاہنے والوں کی تعداد کم نہیں ہے ۔ وہاں مسلم
لیگ ن کے صدر اور جنرل سیکرٹر ی کے اعلان کے ساتھ ساتھ مولا نا فضل الرحمن
کی جماعت سے باقاعد ہ سیاسی اتحاد عمل میں لایاجائے اگر ممکن ہوسکے تو
جماعت اسلامی کو چند سیٹیں دے کر کے پی کے اور پنجاب میں انکے پانچ فیصد
ووٹ بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔جیسے پہلے لیاقت بلوچ مسلم لیگ ن اور جماعت
اسلامی کا مشترکہ امیدوار ہوا کرتے تھے اور کامیاب بھی ہو جاتے تھے ۔
الیکشن کے زمانے میں ایک ایک ووٹ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ کہاں ایک ووٹ
تو کہاں پانچ فیصد ووٹ ۔ زمین آسمان کا فرق ہے ۔
پچھلے الیکشن میں عمران خاں نے خود سیال شریف کے سجدہ نشین سے ملاقات کے
علاوہ تمام پیرخانوں کا بھی دورہ کیا تھا اور تمام پیر خانوں کی جانب سے پی
ٹی آئی کو ووٹ دینے کا حکمنامہ جاری کروایا تھا ۔ اس مرتبے میرے مشاہدے میں
آیا ہے کہ اوکاڑہ کے قریب ایک معروف پیرخانہ جو "کرماں والا" کے نام سے
مشہور ہے۔ ان کے پیروکار پہلے تحریک لبیک پاکستان کو ووٹ دیتے چلے آئے رہے
ہیں ۔ خانیوال میں ہونے والے حالیہ الیکشن میں بھی تحریک لیبک کے امیدوار
کو 9ہزار ووٹ پڑے تھے ، جہاں ایک ایک ووٹ بہت قیمتی ہوتا ہے وہاں 9ہزار
ووٹوں کا حساب لگا لیں وہ جس امیدوار کے کھاتے میں اضافی طور پر جائیں گے
،وہ یقینی طور پر جیت جائیگا۔ چند دن پہلے میں نے خود اخبارات اور فیس بک
پر بھی دیکھا کہ پیرخانہ "کرماں والا" کی جانب سے ان کے موجودہ سجدہ نشین
سید محمد طیب صاحب نے اپنے لاکھوں مریدوں کو حکم دیا ہے کہ وہ کسی اور
سیاسی یا مذہبی جماعت کو ووٹ دینے کی بجائے اپنا ووٹ پاکستان مسلم لیگ ن کے
امیدواروں کودیں ۔یہ تو میں صرف ایک پیرخانہ کی بات کررہا ہوں ، پاکستان
میں چالیس سے پچاس پیرخانے موجود ہوں گے جن کے مریدوں اور عقیدت مندوں کی
تعداد کروڑوں میں بنتی ہے ۔اگر تمام پیرخانے کے سجدہ نشینوں سے بھی براہ
راست شہباز شریف رابطہ کرلیں تو میری ذاتی رائے میں اگلے الیکشن میں مسلم
لیگ ن کی دو تہائی اکثریت یقینی ہے ۔مصیبت تو یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے تمام
لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے سکون سے اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔
محمد اقبال جھگڑا جو کبھی مسلم لیگ کی مرکزی کمیٹی کا جنرل سیکرٹری ہوا
کرتے تھے انہیں اس عہدے پر فوری طور پر بحال کیا جائے تاکہ وہ دلجمعی سے
مقامی سطح پر تنظیم سازی کا کام شروع کرسکیں اور مرکز میں کردار ادا کرسکیں
۔احسن اقبال کو چیف آرگنائز کے عہدے پر فائز کرکے چاروں صوبوں کی تنظیم
سازی کی ذمہ انہیں سونپ دی جائے تاکہ چاروں صوبوں میں نچلی سطح پر ممبر
سازی اور عہدید اروں کے تقرر کا حساب رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی مرکزی
قائدین سے ملاقات یا علاقائی سطح پر کارکنوں اور مقامی عہدیداروں کے
کنوینشن کا انعقاد کیا جائے ، جہاں مرکزی قائدین کی حاضری یقینی بنائی جائے
۔جہاں تک رانا ثنا اﷲ کے پنجاب کے صدر ہونے کا تعلق ہے ، وہ اپنی جیب میں
تمام عہدے جمع کیے بیٹھے ہیں۔ انہیں سنٹرل پنجاب میں نہ جنرل سیکرٹری کی
ضرور ت ہے اور ڈویژن ، ضلعی، تحصیل اور سب تحصیل عہدیداروں میں ضرورت ہے ۔
حقیقت میں وہ سب عہدے اپنی جیب میں ہی رکھنا چاہتے ہیں ان میں اتنا ظرف
نہیں کہ کسی دوسرے کو مسلم لیگ ن کا عہدہ دے دیں ۔وہ ہر حال میں اپنی
اتھارٹی قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔ جب بھی انہیں لاہور کسی اجلاس میں مدعو کیا
جاتا ہے تو اکیلے ہی چلے آتے ہیں ۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کو شاید انہوں نے
زرخرید غلام بنا رکھا ہے وہ سیاہ کریں یا سفید کریں ان سے کوئی پوچھنے والا
نہیں ہے ۔
جہاں تک سندھ اور کراچی کا معاملہ ہے ، کراچی کو تنظیمی لحاظ سے سندھ سے
الگ ہی رکھا جائے ۔ جس طرح پیپلزپارٹی نے جنوبی پنجاب کو پنجاب سے تنظیمی
لحاظ سے الگ ڈیکلر کررکھا ہے۔ سابق گورنر سندھ محمد زبیر جو اس نواز شریف
اور مریم نواز کے ترجمان کے عہدے پر فائز ہیں انہیں فوری طورپر مرکزی قیادت
میں شامل کرکے جوائنٹ سیکرٹری کا عہدے پر نامزد کردیا جائے تو کے پی کے اور
کراچی کی سطح مرکزی قیادت میں نمائندگی مکمل ہوجائے گی ۔کراچی میں ایک اور
قد آور شخصیت مفتح اسماعیل ان کو کراچی کا فوری طور پر صدر نامزد کرکے
انہیں کراچی کی سطح پر ایک مضبوط اور موثر تنظیم سازی کرنے کی اشد ضرورت ہے
۔ کراچی کی آبادی دو کروڑ سے زیادہ ہے وہاں سند ھ سے علیحدہ صدر، جنرل
سیکرٹری اور مکمل تنظیم کی ضرور ت ہے ۔باقی رہی بات ایم کیوایم کی تو
سرزمین پارٹی کے کمال مصطفے اور فاروق ستار جو ابھی تک کٹی پتنگ کی طرح
سہارا تلاش کرتے پھررہے ہیں جو انہیں مسلم لیگ ن میں شامل کرنا بہت فائدے
مند رہے گا۔ مسلم لیگ ن کے لیے یہ سنہری موقعہ ہے کہ شہباز شریف خود یا
مریم نواز کو کراچی بھیج کر ایم کیو ایم اچھی شہرت کے حامل چرب زبان
عہدیداروں کو مسلم لیگ ن میں شامل کرکے کراچی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی
اچھی خاصی سیٹیں نکالی جا سکتی ہیں ۔ اگر اسی طرح سندھ میں بھی مسلم لیگ ن
سے ہمدردی کرنے والے بیشمار سیاست دان جواکثر نیشنل اور صوبائی اسمبلی میں
حصہ لے کر کامیاب ہوتے آئے ہیں، ان کے ساتھ تنظیم سازی کے علاوہ پگاڈا شریف
کے پلیٹ فارم پر الیکشن لڑنے والوں کا تعاون بھی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
سردست یہ بتا نا مقصود ہے کہ وہ سب پی ٹی آئی کی وعدہ خلاقی کے ڈسے ہوئے
ہیں اور کسی نئی قومی جماعت سے اشتراک عمل کے منتظر ہیں ۔سندھ میں مولانا
فضل الرحمن کے تعاون کو ہر حال میں حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ سند ھ اور
کراچی میں بھی ان کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں کروڑوں میں ہے ۔کراچی کی
سطح پر بھی جماعت اسلامی کا تعاون فائدے مندرہے گا ۔لیکن یہ بات ملحوظ خاطر
رہے کہ کراچی اور سندھ میں الگ الگ تنظیم سازی کرنا اور صدور اور دیگر
عہدیداروں کا تقرر کرنا فوری طور پر ضروری ہے ۔
وقت بہت کم ہے اور مقابلہ بہت سخت ۔ لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ
مسلم لیگ کے صدر ابھی تک خواب خرگوش مزے لوٹ رہے ہیں ۔انہیں پارٹی کی تنظیم
سازی کی بجائے وزیراعظم بننے کی زیادہ جلدی ہے اور مریم نواز ابھی تک اپنے
بیٹے کی شادی کی تقریبا ت سے ہی باہر نہیں نکل سکیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ
وزرات عظمی انہیں طشتری میں رکھ کر کوئی پیش نہیں کرے گا ۔جس پیپلز پارٹی
کے تعاون کے یہ خواہاں ہیں وہ انہیں کئی بار ہاتھ دکھا بھی چکی ہے، اب بھی
جب وزارت عظمی کا تاج شہباز شریف یا مریم نواز کے سر پر سجایا جا رہا ہوگا
تو پیپلز پارٹی اپنی حمایت کے عوض بلاول کی وزارت عظمی کا حقدار بنا کر
سامنے لاسکتی ہے ۔عہدے اپنے زور بازو پر ملتے ہیں کسی سے خیرات میں نہیں
ملتے ۔
بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی کبھی حکومت ہوا کرتی تھی لیکن اب ن لیگی قائدین
کی تغافلانہ پالیسیوں کی وجہ سے وہاں بھی صفایا ہوچکا ہے اب بھی وقت ہے ،
ہاتھ سے نکلا ہو ا وقت واپس نہیں آتا لیکن اگر اب بھی مسلم لیگ ن کے سابق
قائدین خلوص دل سے جا کر پارٹی چھوڑنے والوں سے رجوع کرتے ہیں تو کوئی وجہ
نہیں کہ وہ سب لوگ دوبارہ ن لیگ میں واپس نہ آ جائیں لیکن اس مقصد کے لیے
انہیں مرکزی عہدوں بھی نائب صدر اول /دوم کا عہدہ دیا جاسکتا ہے اور دوسرے
قابل ذکر رہنما کو بلوچستان کی مسلم لیگ ن کا صدر ڈیکلر کردیا جائے جو وہاں
تنطیم سازی کے کام کا آغاز کرے ۔بلوچستان میں مولانا فضل الرحمن کے ساتھ
اشتراک عمل کرکے وہاں بھی مخلوط حکومت بنائی جاسکتی ہے ۔ یہ بات نہ صرف
سوچنے کی ہے بلکہ فوری عمل کرنے کی ہے ۔
سعد رفیق کے والد کی سالانہ برسی پر آواری میں جو تقریریں ہوئی تھیں ان میں
سعد رفیق نے ایک بات بہت خوب کی تھی کہ جو شخص بھی قائدین کو قومی سطح پر
تنظیم سازی کرنے کے کہتا ہے اس پر غداری کا لیبل لگا دیا جا تا ہے ۔میں بھی
سعد رفیق کی اس بات کی تائید کرتاہوں کہ اگر پاکستان میں سیاست کرنی ہے تو
قومی سطح پر سیاست کریں ،گھڑے کے مینڈے بن کے نہیں سیاست نہیں کی جا سکتی
۔پنجاب ، کراچی ، سندھ میں اور شاید بلوچستان میں بھی بلدیاتی الیکشن کا
انعقاد اگلے سال کے ابتدائی مہینوں میں ہو رہا ہے لیکن مسلم لیگ ن کی تیاری
ابھی تک صفر چل رہی ہے ،وہ چاہتے ہیں لوگ خود اپنے گھروں سے نکل کر شیر پر
مہرلگا کر ان کو بڑے بڑے عہدوں کی کرسیوں پر بیٹھا دیں ۔ اسے تو احمقانہ
خیال ہی تصور کیا جاسکتا ہے لیکن کوئی بھی دانش مند جو قومی سطح پر سیاست
کرنا چاہتا ہے لیکن اس قدر لاپروا اور سست نہیں ہوسکتا ۔مجھے یہ کہنے کا حق
دیجیئے کہ اگر شہباز شریف اپنی صحت یا عدالتوں میں مقدمات کی وجہ قومی
سیاست میں فعال کردار ادا نہیں کرسکتے تو انہیں یک جنبش فیصلہ کرتے ہوئے
عارضی طور پر قیادت مریم نواز کو سونپ دینی چاہیے ۔ جب مسلم لیگ ن چاروں
صوبوں سے بہترین نتائج حاصل کرلیگی تو وزارت عظمی پر شہباز شریف ہی بیٹھیں
گے کیونکہ مریم نواز تو پارلیمنٹ کے لیے ابھی تک نااہل ہے ۔ اس لیے مریم سے
حسد کرنے کی بجائے اس کی قومی سطح پر مقبولیت سے فائدہ اٹھا ئیں۔جس طرح
بلاول اور زرداری لاہور آکر پنجاب پر حکومت بنانے کا اعلان کرتے ہوئے نہیں
تھکتے اسی طرح مریم نواز کو کس نے روکا ہے کہ سند ھ ، کراچی، کے پی کے ،
جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے شہروں میں جاکر مسلم لیگ ن کی الیکشن کمپیئن
چلائیں ۔ اب پی ٹی آئی کے لوگ جن میں اسد عمر ، سعید مراد بھی سندھ میں
جاکر اچھے خاصے جلسے کرکے وہاں کی عوام کو پی ٹی آئی کا ہمنوا بنا رہے ہیں
اور ببانگ دھل یہ کہتے ہیں کہ سندھ میں اگلی حکومت پی ٹی آئی کی ہو گی ۔اگر
پی ٹی آئی والے سندھ پر پیپلز پارٹی کے مضبوط مورچے پر حملہ آور ہیں تو
مسلم لیگ ن کے قائدین کے پاؤں کس نے جاتی عمرہ میں باندھ رکھے ہیں ۔بقول
آصف علی زرداری سیاسی معاہدے اور فیصلے قرآن حدیث نہیں ہوتے ۔ جو لوگ پنجاب
پر قبضے کا خواب دیکھ رہے ہیں مسلم لیگ ن کے قائدین کو کس نے روکا ہے کہ
سندھ نہیں جاتے اور وہاں کے لوگوں کو نواز شریف کا پیغام نہیں دیتے ۔ یاد
رہے کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب سندھ میں سید غوث علی شاہ کی قیادت میں مسلم
لیگ ن کی حکومت ہوا کرتی ہے ۔اسی مقبولیت کو ایک بار پھر حاصل کرنے کی
ضرورت ہے اور سیاست میں کوئی چیز ناممکن نہیں ہوتی ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر نہ صرف جنوبی پنجاب ،
کراچی ، سندھ ، کے پی کے ، ہزارہ ڈویژن ، بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی قیادت
اور تنظیم سازی کا آغاز کردیا جائے بلکہ بیرون ملک پاکستانیوں ( جو اب اگلے
الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے حقدار قرار پا چکے ہیں ، )وہاں بھی تنظیم سازی کی
اشد ضرورت ہے ۔ یہ کام جتنا جلدی کرلیا جائے اتنا ہی بہتر ہے ۔ |