کولکاتہ میونسپل الیکشن میں ٹی ایم سی کی غیر معمولی
کامیابی کوئی حیرت کی بات نہیں تھی مگر چندی گڑھ جہاں لیفٹننٹ گورنر
زعفرانی ہو، دومرتبہ سے رکن پارلیمان بی جے پی کا ہو اور میئر بھی کمل
دھاری ہو بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکست غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے
قبل چندی گڑھ میونسپل کارپوریشن میں جملہ 26 وارڈ تھے ان میں 21پر بی جے پی
نے اپنی کامیابی درج کرائی تھی یعنی کامیابی کی شرح تقریباً 81 فیصد تھی ۔
اس بار اسے 35 میں سے 12 پر کامیابی ملی یعنی وہ 34 فیصد پر آگئی۔کیا یہ
کوئی معمولی جھٹکا ہے ؟ 2016 کے اندر بی جے پی کو 77 فیصد ووٹ ملے تھے ۔
آج تک چینل کی ویب سائٹ کے مطابق اس بار صرف 29فیصد ووٹ ملے ہیں اس طرح 48
فیصد کی کمی کو کیا کہا جائے؟ چندی گڑھ میں پچھلے تین میئر بی جے پی سے رہے
ہیں اور وہ تینوں انتخاب ہار گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کو پچھاڑ کر عام
آدمی پارٹی پہلے نمبر پر آگئی ۔
عام آدمی پارٹی کو بی جے پی کی بی ٹیم کہا جاتا ہے لیکن اس نے چندی گڑھ
میں ہندو ووٹرس کو اپنا ہمنوا بناکر بی جے پی کی کمر توڑ دی ہے ۔ اس کے
اثرات سے دہلی دربار کی چولیں بھی ہل گئی ہوں گی ۔ اترپردیش میں انتخابی
دباو کے سبب شاہ جی اور یوگی جی تو چندی گڑھ نہیں جاسکے مگر تشہیری مہم میں
کئی مرکزی وزراء اور وزرائے اعلیٰ کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ان لوگوں نے نہ
صرف رام مندر اور ایودھیا کے نام پر ووٹ مانگے بلکہ مودی جی کی بھی گہار
لگائی ۔ اس ہفتہ وزیر اعظم نے بھی گرونانک و گرو تیغ بہادر کو خوب یاد کیا
لیکن چندی گڑھ کے رائے دہندگان ان کے جھانسے میں نہیں آئے اور زبردست
پٹخنی دی ۔ آج تک کے مطابق اس انتخاب میں سب سے زیادہ 29.79 فیصد ووٹ
کانگریس کو ملے جو پچھلی مرتبہ سے 8 ؍ فیصد زیادہ ہے لیکن اس کے صرف 8 ؍
امیدوار کامیاب ہوسکے جبکہ بی جے پی کو 29.3 فیصد ووٹ ملے اور 12؍ امیدوار
جیت گئے۔ عام آدمی پارٹی نے 27.08 فیصد ووٹ کی مدد سے اپنے14 امیدوار وں
کو کامیابی سے ہمکنار کردیا۔ اس بار کانگریس تیسرے نمبر تو رہی مگرپہلے کے
بہ نسبت اس کے ارکان کی تعداد میں دوگنا کا اضافہ ہوا۔ اس طرح نئے وزیر
اعلیٰ چرن جیت سنگھ چنی کے لیے یہ کسی قدر اطمینان بخش صورتحال ہے۔
چندی گڑھ کے اندر 7 نشستیں شیڈول کاسٹ یعنی پسماندہ ذاتوں کے لیے مختص تھیں
۔ ان میں سے صرف ایک پر بی جے پی کو کامیابی ملی جبکہ 12 کو خواتین کے
لیےمخصوص کردیا گیا تھا وہاں بھی صرف 2 پر بی جے پی کامیاب ہوسکی اس سے پتہ
چلتا ہے ان دونوں طبقات کے اندر اس کے تئیں ناراضی ہے۔ بی جے پی کے دفتر
میں جشن منانے کی خاطر لائے جانے مٹھائی کے کڑوے ہونے کی یہ بھی ایک وجہ
ہے۔ چندی گڑھ کے علاوہ پچھلے ہفتے کولکاتہ میں میونسپل الیکشن ہوئے مگر
وہاں کا معاملہ بالکل مختلف تھا کیوں کہ اس شہر میں مرتبہ ٹی ایم سی اپنی
زبردست کامیابی درج کراچکی تھی۔ حالیہ اسمبلی الیکشن میں اس نے شہر کی ساری
یعنی 16؍اسمبلی نشستوں پر فتح کا پرچم لہرایا تھا گویا اس کی کارکردگی صد
فیصد تھی۔ میونسپل کارپوریشن میں یہ کامیابی 90 فیصد رہی اور اس نے 144 میں
134 حلقوں میں جیت درج کرائی ۔ پچھلے پانچ سال میں اس کی کارکردگی کے اندر
20سیٹوں کا اضافہ ہوا۔
بی جے پی کی زبردست شکست پر لوگوں کو اس لیےتعجب ہے کیونکہ اسےمحض 6؍ ماہ
قبل 11؍ حلقوں میں برتری حاصل تھی جو اب صرف 3؍ وارڈ کے اندر کامیابی میں
بدل سکی گویا اس قلیل عرصے میں اس نے 7؍ مقامات کھودیئے۔ اس شکست کے لیے
بڑے جوش و خروش کے ساتھ بی جے پی کے ساتھ آنے والے نووارد رائے دہندگی کی
مایوسی ذمہ دار ہے ۔اسمبلی انتخاب سے قبل ٹی ایم سی کے اندر بڑے پیمانے پر
ہونے والی بغاوت کی ایک وجہ یہ تھی کہ بہت سارے پرانے لوگوں کو ٹکٹ سے
محروم کردیاگیا تھا اور اپنے سیاسی مستقبل کو تاریک ہونے سے بچانے کے
لیےانہوں نے بی جے پی کا دامن تھام لیا۔ اس سے پورے صوبے میں بی جے پی کی
لہر کا مصنوعی ماحول بن گیا ۔ اس کے نتیجے میں سی پی ایم اور کانگریس کے
رائے دہندگان خوفزدہ ہوکر ٹی ایم سی کے پرچم تلے متحد ہوگئے۔ اس طرح ان کا
صفایہ ہوگیا اور بی جے پی76؍ نشستیں جیت کر دوسرے نمبر آگئی ۔
بنگال کی سیاست میں اقتدار سے بے دخلی سیاستداں کو صفر کردیتی ہے۔ اب
انتخاب کے بعد جب ابن الوقت سیاستدانوں کو بی جے پی اصل حیثیت کا احساس
ہوگیا اور یہ بھی پتہ چل گیا کہ ان کا اندازہ غلط تھا تو ایک ایک کرکے ان
کی ٹی ایم سی میں گھر واپسی شروع ہوگئی ہے۔ ایسا کرنے والوں میں ارکان
اسمبلی کے علاوہ بابل سپریو جیسے سابق مرکزی وزیر بھی شامل ہیں۔ کولکاتہ
میونسپل الیکشن میں ٹی ایم سی کے ووٹ کا تناسب 72فیصد پر پہنچ گیا جو
اسمبلی انتخاب سے 11فیصد زیادہ ہے۔ بی جے پی تین نشستوں پر کامیابی حاصل
کرکے دوسری سب سے بڑی جماعت تو بنی لیکن اس کے ووٹ کا تناسب دایاں محاذ کے
11.7فیصد سے کم یعنی 9.3 فیصد ہوگیا ہے۔ دائیں محاذ کو 66 وارڈ میں دوسرا
مقام ملا جبکہ بی جے پی صرف 48 نشستوں پر دوسرے نمبر پر آسکی۔ اس بار سب
سے زیادہ نقصان دائیں محاذ کو ہوا جو 15 سے گھٹ کر 2 پر آگیا ۔ اس کے
علاوہ بی جے پی 7 سے 3 پر اتر آئی۔کا نگریس کو بھی نقصان ہوا اور اس کو 5
سے 3 نشستوں پر آنا پڑا۔ چندی گڑھ اور کولکاتہ کے انتخابی نتائج ہوا کے رخ
میں مثبت تبدیلی کا اشارہ کرتے ہیں لیکن 2024؍ابھی بہت دور ہے۔ تب تک یہ رخ
قائم رہتا ہے یا بدل جاتا ہے یہ تو وقت ہی بتائےگا۔
|