ہم ترقی کے لاکھ دعوے کریں ، لیکن ہم ترقی یافتہ نہیں ہیں
، ہمارے معاملات کے ایک چھوٹے حصے میں بھی ترقی یافتگی دکھائی نہیں دیتی ہے،
ضد ، غرور، قبیلہ پرستی، ناجائز سفارش ، خود غرضی، لالچ، آزاری پن، اسراف،
ناجائز رواج پرستی، خیانت اور دیگر ہزارہا برائیاں ابھی تک معاشرے میں
موجود ہیں، اور بڑھ رہی ہیں ان کے ساتھ نئی برائیاں بھی پیدا زیادہ ہوتی
ہیں ، اور مٹتی کم ہیں ، انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی اور یہ
ایسی برائیاں ہیں کہ اگر ہم چاہیں تو ان کو ہم ختم کرسکتے ہیں۔ جدید مشینوں
کا ہاتھ میں آنا ترقی نہیں بلکہ صحیح اخلاق رکھنا، انسانیت کو شر و فساد سے
بچانا ، اور جو کچھ ہاتھ میں ہے وہ صحیح استعمال کرنا اور ناجائز سے بچنا
ترقی ہے، سب سے بڑی ترقی بھی یہی ہے ۔
ہمارے ہاں قیادت ،سرداری اور حکومت کو عوام کس طرح منتخب کرتے ہیں؟ انتہائی
پسماندہ ، بے عقل، گمراہ ، اور بے حس انسانوں کی طرح وہ اپنے اختیارات دینے
کے لیے قوم کے اندر دیکھ دیکھ کر خراب ترین آدمیوں کو نکال لیتے ہیں۔ ایسا
لگتا ہے کہ ہم کوئی مزاحیہ ڈرامہ دیکھتے ہیں، یا بچوں کے گھروندے کا تماشا
کررہے ہیں، لوگ خود اپنے ہاتھوں سے اپنا مستقبل خراب کرتے ہیں،اپنے تمام
فیصلے ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیتے ہیں ، جن کو انہوں نے خود کئی غلطیوں
اور بے عقلیوں پر دیکھا ہوتا ہے، اور حد تو یہ ہے کہ ان پر فخر بھی کرتے
ہیں ،اور پھر جب ان سے بے زار ہوجاتے ہیں تو دوبارہ وہی سابق حکمران انہیں
کوئی لالچ دے کر پھانستے ہیں، اور وہ اپنی آنکھوں سے اس کا زہریلہ پن
دیکھنے کے باوجود انہیں دوبارہ اپنے سر پر بٹھا لیتے ہیں، یا کسی دوسرے
ایسے شخص کو منتخب کرتے ہیں جو ان سے زیادہ نقصاندہ ہو، اور انہوں خود بھی
ان کی نقصاندہی دیکھی ہو۔
حالانکہ ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اسلام نے زندگی کے ہر طریقے اور اصول کی
طرح قیادت ، سرداری اور حکومت منتخب کرنے کا طریقہ بھی بہت آسان بتایا ہے،
اور وہ حقیقت میں سب کے لیے فایدہ مند بھی ہے، اسلام حکمران بنانے کا طریقہ
یہ سکھاتا ہے، کہ تم اپنے اندر میں اس کو حکمران بناؤ جو تم میں سب سے
پرہیز گار، عقل مند ، سب سے زیادہ علم رکھتا ہو، حقوق و ذمہ داریاں زیادہ
جانتا ہو، اور ان میں ممکن ہو تو عمر میں بھی بڑا ہو، ایسا شخص نہ ہو جس سے
علاقے کی اکثریت ناراض نہ ہو، حکمران ایسا ہو کہ کسی بھی عمر والوں کے لیے
تکلیف کی وجہ نہ بنے، جوان ، بوڑھوں اور بچوں سب کی ذہنیت سے باخبر ہو،
حکمران کے اندر اگر ایسی کمی آجائے کہ وہ اب حکومت کے قابل نہ رہے تو اسے
فوراً خود ہٹنا چاہیے اور کسی دوسرے کو اپنی جگہ مقرر کرنا چاہیے، جس طرح
نماز کے دوران امام کو اگر کوئی حادثہ پیش آجاتاہے تو وہ خود ہٹ کر کسی اور
کو امام مقرر کرتا ہے،
ایماندار ، اہل ، اور عقلمند حکومت کو منتخب کرنے کے بعد اب عوام پر اس کی
فرمانبرداری لازم ہو جاتی ہے، چاہے حکومت کے فیصلے اور کام اس کی پسند یا
رائے کے مطابق نہ ہوں بھی، حتی کہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں میں بھی اس کی
فرمانبرداری کرنی ہوگی، البتہ بے حد عاجزی سے اسے غلطی کی طرف توجہ دلانے
ہوگی، پھر بھی حکومت اختیار رکھتی ہے کہ عوام کی توجہ دہانی یا تنقید کے
باوجود اسے یقین ہے کہ وہ ٹھیک ہے، تو اپنے یقین کے مطابق عمل کرے، یہ ہے
ترقی یافتہ انسانوں کا طریقہ یہ ہے ہمارے پیارے دین اسلام کا طریقہ کہ
حکومت کس کو دیں اور حکومت کے ساتھ کیا رویہ کریں، ایک ہے ہمارے ان لوگوں
کا طریقہ جو اپنے آپ کو ترقی یافتہ سمجھتے ہیں، اس غلط فہمی میں ہیں کہ
چونکہ کاٹن کپڑے ، بڑا موبائل ، اور گاڑی ان کے پاس ہے تو عقل بھی ضرور ان
کے پاس ہوگی اور ان کا طریقہ بھی ضرور ٹھیک ہوگا،
|