مادر ملت فاطمہ جناح

” وہ اپنے عظیم بھا ئی کی ہو بہو تصویر تھیں بلند و با لا قد ،بہتر برس کی عمر میں بھی کشیدہ قا مت ۔ گلا بی چہرہ ،ستواں نا ک ،آنکھوںمیں بلا کی چمک ، ہر چیز کی ٹٹو لتی ہو ئی نظر ، سفید با ل ،ما تھے پر جھر یوں کی چنٹ، آواز میں جلا ل و جما ل، چا ل میں کما ل ، مزاج میں بڑ ے آدمیو ں کا سا جلا ل ،سر تا پا استقلا ل ،رفتا ر میں سطوت ، کر دار میں عظمت ،قا ئد اعظم کی شخصیت کا آئینہ ، صبا اور سنبل کی طرح نر م ، رعد کی طر ح گر م ،با نی پا کستا ن کی نشانی ،ایک حصار جس کے قرب سے حشمت کا احساس ہو تا ہے جس کی دوری سے عقیدت نشوونما پا تی ہے ، بھا ئی شہنشاہ بہن بے پنا ہ “۔

ممتا ز صحافی اور شاعرآغا شورش کا شمیری جنھوں نے ان خو بصورت الفا ظ میں ما در ملت محترمہ فا طمہ جنا ح کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔میں کا فی دیر سے مادر ملت کی تصویر ہا تھ میں تھا مے نظریں جما ئے ان کی شخصیت کو الفا ظ کے پیرا ئے میں ڈھا لنے کی کو شش کر رہی تھی الفاظ کے ذخیرے اسے لفظوں میں ڈھا لنے سے قا صر تھے لیکن آغا شورش کا شمیری صا حب نے میر ے کا م کو آسان کر دیا کہ ان کی بیان کردہ تما م صفا ت محترمہ فا طمہ جنا ح میں بد رجہ اتم مو جود تھیں وہ سیا سی بصیرت میں اپنے بھا ئی قا ئد اعظم کی حقیقی جا نشین تھیں ایک ایسی بہن جس نے اپنی زندگی بھا ئی کی خدمت اور تحریک آزاد ی کے لیے وقف کر دی تھا جو قوم کی ما ں کا لقب (ما در ملت) حا صل کر کے سرخرو ہو ئیں۔

۱۳ جو لا ئی ۳۹۹۱ءکو مٹھی با ئی ہا ں ایک بیٹی پیدا ہو ئی جس کا نا م فا طمہ رکھا گیا جب یہ بچی دوسال کی عمر کو پہنچی تو ما ں کی شفقت و محبت سے محروم ہو گئی بڑی بہن نے ان کی پرورش کی ذمہ داری اٹھا ئی جب ذرا ہوش سنبھالا تو انگلستا ن میں زیر تعلیم بھا ئی کا ذکر سن کر ان سے ملنے کی خوا ہش بڑھتی گئی محمد علی جنا ح جب وا پس آئے تو فا طمہ جنا ح چار سال کی تھیں وہ قا ئد اعظم سے سترہ سا ل چھوٹی تھیں محمد علی چھوٹی بہن فا طمہ کی معصوم با توں کو سن کر وہ بہت محظو ظ ہو تے تھے اس دوران جب والد کے کا روبا ر کو شدید نقصان کا سامناتھا محمد علی جنا ح نے بمبئی جا کر مجسٹریٹ کا کام شروع کیااور کچھ دن بعد انھوں نے پورے خا ندان کو بمبئی بلا لیا جب پورا خاندان بمبئی شفٹ ہو گیا تو بھا ئی نے ۸ سالہ فا طمہ کی تعلیم کا بندوبست بھی گھر پر کر دیا بہن بھا ئی کی محبت مثا لی تھی فا طمہ کو بچپن سے گڑیو ں کے بجا ئے مطا لعے کا شوق بھا ئی سے ملا محمد علی جنا ح نے بہن کی تعلیم وتر بیت پر خصو صی تو جہ دی اور تما م خا ندان کی شدید مخالفت کے با وجود بہن کا داخلہ ۲۰۹۱ءمیں با ندرہ کا نو نیٹ اسکول میں کر ادیا جہا ں شروع میں جا تے ہو ئے وہ خوف محسوس کر تی تھیں تو بھائی ساتھ گھنٹوں اسکول کی کلاسوں میں جا یا کرتے تھے جس سے ان میں اعتما د پیدا ہو ا اوربخوبی اسکو ل کے تما م مدارج میں اچھے نمبروں سے پا س ہوتی گئی ۶۰۹۱ءمیں ان کو قائد نے سینٹ پیٹر ک اسکو ل میں داخل کرا یا جہا ں میٹر ک کا امتحان کا میا بی سے پاس کیا اسکو ل سے فا رغ ہوکرانھوں نے ۳۱۹۱ءمیں سنیئر کیمر ج کا امتحان پاس کیا اب وہ صاف با محاورہ انگریزی میں ما ہر ہو گئی تھیں اسی دوران قائداعظم نے رتن با ئی سے شادی کر لی تو بہن بھا ئی میں تھوڑی سی عا رضی دوری پیدا ہو گئی اس خلاءکو پر کر نے کے لیے انھوں نے بھا ئی کے مشورے سے احمد ڈینٹل کا لج کلکتہ میں دا خلہ لے لیا ۲۲۹۱ءمیں ڈینٹسٹ کی ڈگری حا صل کی اور ۳۲۹۱ءمیں با قاعدہ کلینک کھول کر پر یکٹس کا آغاز کیا لیکن جب ۰۲ فر وری ۹۲۹۱ءکو رتن با ئی کا نتقال ہو گیا ان کی موت نے قا ئداعظم پر گہرا اثر ڈالاتو بھلا ایک محبت کر نے والی بہن کیسے گوارا کر تی کہ بھا ئی کو اس حال میں اکیلے چھو ڑا جا ئے انھوں نے تما م کا م چھو ڑ کر بھا ئی کے گھر کی ذمہ دا رایاں سنبھال لیں اور قا ئد اعظم تما م فکروں سے آزاد ہو کر تحریک آزادی وطن میں حصہ لینے لگے ۔

قا ئد اعظم خود بھی بہن کی صلاحیتوں کے متعارف تھے اس لیے ان کی توجہ اور شفقت نے محترمہ فا طمہ جنا ح کو بھی بھا ئی کے شانہ بشانہ تما م اجلا سوں میں شریک ہو نے پر مجبور کر دیا وہ بھا ئی سے تما م سیاسی نکات پر بحث مبا حثہ کر تیں انھیں اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازتی قا ئداعظم انکی صلاحیتوں کے متعارف تھے وہ بہن کی مشوروں پر عمل بھی کرتے ان کی تا ئید اور حوصلہ افزائی بھی کر تے ۔۴۳۹۱ءمیں جب قائداعظم محمد علی جنا ح لندن میں تھے تو فا طمہ جنا ح بھی ان کے ہمراہ تھیں وہ کئی سا ل وہاں قیام پذیر رہیں لیکن وہا ں کی رنگین فضا ئیں انھیں متا ثر نہ کر سکیں مادر ملت ہمیشہ سو چتیں کہ آخر ان ممالک نے کیسے تر قی کی یہاں کہیں کو ئی بھکا ری نظر نہیں آتاغربت و افلاس نا م کی کو ئی چیز مو جود نہیں آخرہما رے ملک کے عوام ان سہو لتوںسے کیوں محروم ہیں اس سوچ کے ساتھ بس ایک جواب تھا کہ آزادی یہی ایسی نعمت ہے جسے حاصل کر نے کے بعد ایک ملک اپنی تعمیر وترقی کے ساتھ عوام کو تما م سہو لتیں دے سکتا ہے اسی لیے انھوں نے آزادی کی تحریکوں میں دن رات محنت کو اپنا شعار بنالیا ۔

جب ۷۴۹۱ءمیں پا کستان دنیا کے نقشے میں ایک آزاد ملک کی حیثیت سے معر ض وجود میں آگیا تو مسا ئل کا ایک انبا ر بھی ساتھ تھا خا ص طور پر مہا جرین کی آمد اور ان کی بحالی کا مسئلہ سنگین نو عیت اختیار کئے ہو ئے تھا لو گوں نے جھوٹے کلیم داخل کر کے حقداروں سے ان کا حق غضب کر نے کی روایت روزاول سے شروع کر دی تھی ما در ملت دن رات ان مسا ئل کو دور کرنے کے لیے ہمہ تن مشغول رہیں اس دوران بھا ئی کی صحت خراب ہو نے پر انھوں نے بھا ئی کی تیمار داری پر خصو صی تو جہ دینی شروع کر دی لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا جس ملک کو بنا نے میں قائد نے اتنی محنت کی وہ اس میں ایک سال بھی گزار سکتے قا ئداعظم بیما ری کے دوران انتقال فر ما گئے ۔ ما در ملت نے بھا ئی کی موت کا صدمہ کس طرح سہا ہو گا وہ ہی جا نتی ہو ں گی بھا ئی کے سکھا ئے ہو ئے راستے پر چلتے ہو ئے عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا ما در ملت جو خود جمہوریت کی قائل تھیں اور جن کی تر بیت قا ئداعظم نے کی تھی وہ بھلا کیسے گوارا کر لیتیں کہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد انگریز نواز نو کر شاہی اقتدار پر قبضہ کر کے جمہوریت کے خلا ف سازش کرئے انھو ں نے جنرل ایوب کی فو جی آمریت کے خلاف میدان میں نکلنے کا فیصلہ کیا اور جمہوریت کو ایک نئی زندگی دی قوم کو آمریت سے چھٹکا رہ دلا نے کے لیے میدان سیا ست میں قدم رکھا تو کو نسل مسلم لیگ نے انھیں اپنا صدراتی امیدوار نا مزد کر دیا مادر ملت کے میدان میں آنے پر سیا ست داں چوکنا ہو گئے انھوں نے وسیع تر اتحاد قا ئم کر نے کی کو ششیں تیز کر دیں انتخابی جلسوں میں ملک کے دور دراز کے دوروں میں قوم کی ماں کے استقبال کے لیے لا کھو ں کی تعداد میں لوگ مو جو د ہوتے مغربی پا کستا ن اور خا ص کر مشرقی پا کستان کے عوام ما در ملت سے گہری عقیدت رکھتے تھے وہ ما در ملت کو” مکتی نیتا“ کے نا م سے پکارنے لگے ادھر ایوب خان نے ما در ملت کو شکست دینے کے لیے ہر قسم کے حربے استعما ل کئے جس کی بنا ءپر جب انتخابات ہو ئے تو ما در ملت ہا ر گئیں عوام میں غم و غصے کی لہردوڑ گئی خا ص کر مشرقی پا کستا ن کے عوام سخت غم و غصے سے دو چا ر تھے ما در ملت کی صورت میں انھیں ایک نجا ت دہندہ ملا تھا سول اور بیورو کر یسی نے وہ بھی چھین لیا ما در ملت زندگی کے اس آخری دور میں اپنوں کے لگا ئے گئے جھوٹ وفریب اور مکا ری کے زخم کبھی نہ بھول سکیں آخر وقت میں سیاست سے خود کو دور رکھا لیکن عوام النا س کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا مادر ملت کی ان خدما ت کے صلے میں قوم اپنی اس ماں کو بطور محن وملت ہمیشہ یا د رکھے گی ۔ ۔۔۔ ۔
Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 148186 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.