چین کی تیز رفتار کرشماتی ترقی کا سلسلہ بدستور جاری ہے
اور ابھی حال ہی میں چین کے قومی شماریات بیورو کی جانب سے جاری اعداد و
شمار نے ایک مرتبہ پھر دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔تازہ ترین پیش رفت یہ
ہے کہ دنیا میں وبائی صورتحال اور معاشی ابتری کے باوجود سال 2021 میں چین
کی جی ڈی پی میں اضافے کا تناسب 8.1 فیصد رہا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ چینی
معیشت نہ صرف مستحکم طور پر بحال ہوئی ہے بلکہ اہم معاشی اہداف بھی کامیابی
کے ساتھ مکمل کیے گئے ہیں۔ چین کا مجموعی اقتصادی حجم 110 ٹریلین یوآن سے
تجاوز کرتے ہوئے 114.4 ٹریلین یوآن تک پہنچ چکا ہے،امریکی ڈالرز میں یہ
مالیت 18ٹریلین ڈالرز بنتی ہے ۔ یوں چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ سے
محض اب چند قدم کی دوری پر ہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر ماہرین نے پیش گوئی کی
ہے کہ 2025 تک چین امریکہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن
جائے گا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ عالمی وبا کے تناظر میں چینی معیشت ، عالمی
معیشت کی بحالی کی قائد بن چکی ہے۔
یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ چینی حکومت کی جانب سے جی ڈی پی کے حوالے سے 6
فیصد کا ہدف طے کیا گیا تھا مگر ابتدائی نتائج چینی معیشت کے حقیقی پوٹینشل
اور لچک کے عکاس ہیں۔ چین نے 2021 میں معاشی بحالی اور انسداد وبا میں
بہترین ہم آہنگی سے عمدہ پالیسیاں ترتیب دیں اور پیچیدہ بیرونی ماحول ، طلب
میں کمی، رسد کے جھٹکے اور غیر یقینی عوامل سمیت دیگر معاشی چیلنجز سے بہتر
طور پر نمٹتے ہوئے معاشی ترقی کا سفر جاری رکھا۔مزید جائزہ لیا جائے تو چین
میں کھپت نے جی ڈی پی کی توسیع میں 65.4 فیصد حصہ ڈالا، جبکہ خالص برآمدات
کا تناسب 20.9 فیصد رہا۔اس دوران گزشتہ سال چین کی ترقی دنیا کی دیگر بڑی
معیشتوں کے مقابلے میں سب سے تیز رہی ہے۔ چین کی جی ڈی پی کا تخمینہ عالمی
مجموعی جی ڈی پی کے 18 فیصد سے زائد رہا ہے اور عالمی جی ڈی پی کی نمو میں
اس کا حصہ تقریباً 25 فیصد ہے۔اس سے قبل بھی انسداد وبا کے موثر اقدامات کے
ساتھ، چین 2020 میں ترقی حاصل کرنے والی واحد بڑی معیشت تھی۔سال 2021 چین
کے لیے ویسے بھی خاصی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اس سال کمیونسٹ پارٹی آف
چائنا کے قیام کی 100 ویں سالگرہ منائی گئی اور 21 ویں صدی کے وسط تک ایک
جدید سوشلسٹ ملک کی تعمیر کے نئے سفر کا آغاز کیا گیا۔ یہ سال اس لحاظ سے
بھی چیلنجز سے بھرپور تھا کہ عالمی معیشت کو سنگین وبا، شدید موسمیاتی
تبدیلی، عالمی توانائی کی کمی اور اشیاء کی قیمتوں میں اضافے جیسے متعدد
مسائل کا سامنا تھا۔ان پیچیدہ عوامل کے سامنے چین کی اقتصادی گورننس کی
افادیت بھی کھل کر سامنے آئی ہے۔
اس ضمن میں چینی پالیسی سازوں نے میکرو اکنامک ریگولیشنز میں جدت طرازی کو
فروغ دیا ، ضوابط کی روشنی میں اہدافی ، درست اور بروقت اقدامات کو آگے
بڑھایا گیا جس سے معاشی استحکام میں آسانی پیدا ہوئی۔اسی طرح چین فی کس جی
ڈی پی 12,551 ڈالرز کے ساتھ دنیا کی اوسط سے آگے نکل گیا ہے۔ابتدائی
تخمینوں کے مطابق 2021 میں دنیا کی فی کس جی ڈی پی 12,100 ڈالرز کے لگ بھگ
رہے گی، لیکن یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ چین اب بھی ایک ترقی پذیر ملک ہے
بلکہ دنیا کا سب سے بڑا ترقی پذیر ملک ہے۔ سال بھر کے دوران چین میں
کنزیومر پرائس انڈیکس یعنی سی پی آئی میں سال بہ سال 0.9 فیصد اضافہ ہوا ۔شہروں
اور قصبوں میں 12.69 ملین روزگار کے مواقعوں کا اضافہ ہوا ،یہ تعداد پچھلے
سال سے 8.3 لاکھ زیادہ ہے۔بے روزگاری کی اوسط شرح 5.1 فیصد رہی جو پچھلے
سال سے 0.5 فیصد ی پوائنٹ کم ہے۔ اسی طرح چائنیز مین لینڈ کی آبادی گزشتہ
سال کے آخر تک بڑھ کر 1.4126 بلین ہو چکی ہے۔اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے
کہ 2020 کے مقابلے میں آبادی کے تازہ ترین اعداد و شمار میں 480,000 کا
اضافہ ہوا ہے۔اس آبادی میں چین کے علاقوں ہانگ کانگ، مکاؤ اور تائیوان کے
رہائشی اور غیر ملکی شامل نہیں ہیں جو 31 صوبوں، خود اختیار علاقوں اور
بلدیات میں رہتے ہیں۔
اس وقت بھی چین کی معیشت مستحکم طور پر بحال ہو رہی ہے، جس کی بنیادی وجہ
ملکی طلب میں مسلسل اضافہ ہے۔گھریلو طلب چین کی اقتصادی ترقی کا اصل محرک
بن چکی ہے۔علاوہ ازیں ، ملکی اور بین الاقوامی گردش کے باہمی فروغ نے بھی
چینی معیشت کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک جانب، گھریلو طلب
درآمدات کو آگے بڑھا رہی ہے تو دوسری جانب، بیرونی طلب برآمدات کو فروغ دے
رہی ہے۔ 2021 میں، چین کی درآمدات اور برآمدات کا مجموعی حجم دوبارہ ریکارڈ
بلندی پر پہنچ چکا ہے، جس میں پچھلے سال کے مقابلے میں بالترتیب 21.5فیصد
اور 21.2فیصد اضافہ ہوا ہے۔یوں دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر، چین کی
مسلسل اقتصادی بحالی نے عالمی معیشت کے لیے مواقع اور ثمرات لائے ہیں۔چینی
صدر شی جن پھنگ نے بھی ورلڈ اکنامک فورم سے حالیہ خطاب میں اپنی معاشی
کامیابیوں کو بھرپور سراہتے ہوئے کہا کہ چینی معیشت کی مجموعی ترقی کی
رفتار اچھی ہے۔گزشتہ سال چین کی جی ڈی پی میں تقریباً 8 فیصد اضافہ ہوا ہے،
جس سے اعلیٰ ترقی اور کم افراط زر کے دوہرے اہداف حاصل ہوئے۔ انہوں نے واضح
کیا کہ ملکی اور بیرونی اقتصادی ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے
تناظر میں زبردست دباؤ کے باوجود چینی معیشت کی مضبوط لچک ، وافر صلاحیت
اور طویل مدتی بہتری کے بنیادی اصولوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔انہوں
نے جہاں چین کی کامیابیوں کی تعریف کی وہاں دنیا کی مشترکہ معاشی ترقی پر
بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں پرامن ترقی اور باہمی سودمند تعاون ہی
صحیح راستہ ہے۔ مختلف ممالک اور تہذیبوں کو ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے
مل کر ترقی کرنی چاہیے، اور باہمی سودمند تعاون کے لیے اختلافات کو بالائے
طاق رکھتے ہوئے مشترکہ بنیاد تلاش کرنی چاہیے۔چینی صدر کے وژن کی روشنی میں
ہر قسم کی یکطرفہ پسندی، تحفظ پسندی، تسلط پسندی ، طاقت کی سیاست کی مخالفت
اور حقیقی کثیر الجہتی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہی انسانیت کی مشترکہ ترقی کا
خواب ممکن ہے ۔
|