ملک میں فی الحال کورونا کی تیسری لہر دستک دے رہی ہے اور
یومیہ متاثرین کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے تب جاکر وزیر اعظم کو
ہوش آیا اور انہوں نے خصوصی نشست طلب کی ورنہ تو انتخابی مہمات میں مصروف
تھے ۔ اتر پردیش میں کانگریس کے بعد سماجوادی پارٹی نے اپنی مہم روک دی مگر
بی جے پی کو یہ توفیق نہیں ہوئی یہاں تک کہ الیکشن کمیشن نے پندرہ جنوری تک
پابندی لگا دی ۔ ان حالات میں پچھلے ہفتہ وزیر اعظم نے پنجاب کے دورے کا
ارادہ کیا۔ جس دن پنجاب گئے اومیکرون کے سبب وباء پچھلے ہفتہ کے مقابلے
6.3گنا سے زیادہ تیزرفتاری سے پھیل رہی تھی ۔ اس دن58 ہزار سے زیادہ نئے
مریض آئے تھے ۔ دہلی کے وزیر صحت نے تیسری لہر کی آمد کو تسلیم کرلیا تھا
۔ ملک کے اندر کورونا سے متاثرین کی جملہ تعداد 1.70 لاکھ تھی ۔ ماہرین کے
مطابق تیسری لہر کے عروج پر 40-60 ہزار مریضوں کو اسپتال میں داخل ہونے کی
ضرورت پڑ سکتی ہے۔
عوام کے سر پر فی الحال موت کے ساتھ ساتھ بیروزگاری ننگی تلوار بھی لٹکنے
لگی ہے ایسے میں وزیر اعظم کو چاہیے تھا کہ جو ایمرجنسی میٹنگ انہوں نے
ابھی بلائی ہے وہ ایک ہفتہ پہلے بلاتے۔ اپنی کابینہ اور وزرائے اعلیٰ کے
ساتھ بیٹھ کرآنے والی آفت سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کرتے مگر انہوں پنجاب
کا دورہ کرکے کئی لاکھ لوگوں سے خطاب کرنے کا ناعاقبت اندیش فیصلہ کیا۔
پنجاب میں پٹیالا کی مثال لیں تو وہاں یکم جنوری کو98 کیس آئے جو 2 جنوری
کو بڑھ کر 133 ہوگئے اور 3 جنوری کو ان کی تعداد 143 ہوگئی لیکن 4 جنوری کو
ڈھائی گنا کا اضافہ ہوگیا اوروہ 366 پر پہنچ گئی ۔اس کے باوجود اگلے دن
وزیر اعظم نے پنجاب جانے کا ارادہ کرلیا۔ وزیر اعظم کو ان مریضوں کی نہیں
بلکہ 42,750 کروڈ روپیوں کے پروجکٹ کا افتتاح کرنے کی جلدی پڑی تھی۔ ان میں
سڑکیں اور ریلوے لائن وغیرہ شامل تھے۔ ان کے علاوہ فیروز پور میں 490 کروڈ
کی لاگت سے ایک 100 بستروں والا دواخانہ بھی شامل تھا۔ کپورتھلا اور
ہوشیارپور میں دو اسپتال بنے جن کا افتتاح 18 دسمبر کو وزیر اعلیٰ کرنے
والے تھے لیکن مرکزی محکمہ صحت نے انہیں منع کردیا کیونکہ اس کی تعمیر میں
60% فیصد رقم مرکزی حکومت سے آئی تھی۔ اس طرح انتخاب سے قبل کریڈٹ لینے کی
خاطر وزیر اعظم نے یہ قصد فرمایا۔
ممبئی کی زبان میں کہا جائے تو ان کے اس دورے کو ’پنوتی‘ لگ گئی۔ وزیر اعلیٰ
کے دفتر میں دو لوگ کورونا سے متاثر ہوگئے چنی نے اپنا دورہ منسوخ کرکے
وزیر خزانہ من پریت سنگھ بادل کو بھیج دیا۔ ویسے یہ قیاس آرائی بھی کی گئی
کہ وہ کسانوں کی ناراضی سے بچنے لیے مودی کے ساتھ شہ نشین پر بیٹھنا نہیں
چاہتے تھے۔ پنجاب کے اندر چونکہ بی جے پی کو 35سال پرانے ساتھی اکالی دل نے
چھوڑ دیا اس لیے اس نے شرومنی اکالی دل (متحدہ) کے ساتھ الحاق کرلیا ۔ مودی
جی کے دورے سے قبل اس کے رہنما سکھدیو ڈھنڈوسا کو بھی کورونا ہوگیا اور وہ
بھی سنگرور جاکر قرنطینہ ہوگئے۔سکھدیو ڈھنڈسا نے اکالی دل سے نکل کر
برہمپورہ کے ساتھ اتحاد کیا مگر جب سکھدیو نے بی جے پی کے ساتھ پینگیں
بڑھائیں تو وہ ان کا ساتھ چھوڑ کر اکالی دل میں چلے گئے۔ وزیر اعظم کو
سوچنا چاہیے کہ جب اکالی دل ان کے ساتھ تھا تب بھی پچھلے الیکشن میں اسے
جملہ تین نشستوں پر کامیابی ملی تھی اب اس کے بغیر امریندر سنگھ یا ڈھنڈسا
کے ساتھ ایک سیٹ پر بھی کامیابی مشکل ہے۔ پارٹی کی جب یہ حالت ہو تو وزیر
اعظم کو یہ مشقت اٹھانے اور لوگوں کورونا کے خطرات کا شکار کرنے کی ضرورت
ہی کیا ہے؟ وہ شاید اتراکھنڈ اور یوپی کے کسانوں کو یہ پیغام دینا چاہتے
تھے کہ پنجاب کا کسان ان سے راضی ہوگیا ہے ،لیکن الٹا ہوگیا۔
مودی جی کی بے نیل و مرام واپسی پر جہاں بی جے پی کے اندر صفِ ماتم بچھ گئی
وہیں کانگریس کی باچھیں کھل گئی۔ یوتھ کانگریس کے صدرشری نواس نے وزیر اعظم
سے انگریزی میں سوال کیا ’مودی جی ہاو از دی جوش‘ اور پھر زخموں پر نمک
ڈالنے کے لیے لکھا’’ جو لوگ 750 کسانوں شہادت سے نہیں بوکھلائے ۔ جس وزیر
اعظم نے ملک کے ان داتا کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور کبھی ملاقات نہیں کی۔
آج وہ سبھی لوگ خالی کرسیوں کے چلتے رد ہونے والی ریلی کے سبب غمگین ہیں۔
نہ دولہا آیا ، نہ باراتی آئے اور نہ شہنائی بج پائی۔ یوتھ کانگریس کے
ٹوئٹر اکاونٹ سے لکھا گیا کہ ’آپ کسانوں کو دہلی کی سرحد میں داخل ہونے سے
روک دیتے ہیں یہ (آپ کے) کرموں کا پھل ہے‘۔ ان بیانات پر تنقید کرتے ہوئے
سمرتی ایرانی نے یاد دلایا کہ نریندر مودی صرف بی جے پی کے رہنما نہیں بلکہ
ملک کے وزیر اعظم ہیں ۔ سمرتی ایرانی کو چاہیے کہ وہ وزیر اعظم کواحساس
دلائیں تاکہ ان کاوقار محفوظ رہے۔ اترپردیش میں وزیر اعظم نے اپنا درجہ گرا
کر خودکو وزیر اعلیٰ کے مقام پر پہنچا دیا مگر پنجاب میں تو وہ حزب اختلاف
کے رہنما تک اتر گئے کیونکہ بی جے پی رہنماوں کے لیے تو ؎
تلخیاں اس میں بہت کچھ ہیں مزا کچھ بھی نہیں
زندگی درد سیاست کے سوا کچھ بھی نہیں
بی جے کے صدر جے پی نڈا نے جب اسے کانگریس کی سازش قرار دے کر سنگین
الزامات لگائے تو جواب میں کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجیوال نے انہیں آپے
میں رہنے کا مشورہ دیا۔ سرجیوال نے لکھا ’ آپہ مت کھوئیے ۔ ذرا شرافت سے
یاد کیجیے کہ وزیر اعظم کی ریلی میں دس ہزار کا حفاظتی دستہ تعینات کیا گیا
تھا۔ ایس پی جی کے ساتھ مل کر سبھی روٹ ڈائورٹ کیے گئے تھے۔ ہریانہ اور
راجستھان سے آنے والے بی جے پی کارکنان کے لیے بھی متبادل راستوں کا
بندوبست کیا گیا تھا۔ ریلی منسوخ ہونے کی وجہ خالی کرسیاں تھیں ۔ یقین نہ
ہو تو دیکھ لیجیے۔ یہ لکھ کو انہوں جلسہ گاہ کی ویڈیو لگا دی۔ اس معاملے کا
سیاسی فائدہ اٹھانے کی خاطر بی جے پی والے اول تو میڈیا میں شور مچا رہے
ہیں اس کے علاوہ ملک کے مختلف مندروں میں وزیر اعظم کی طویل عمر کے لیے
پوجا پاٹ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنے تحفظ کا بڑا خیال ہے اس لیے انہوں نے 2021کے
اواخر میں اپنے قافلہ کے اندر مرسڈیز-مے بیک S650 گارڈ کار بھی شامل کرلی
ہے۔ اس بکتر بند گاڑی کی قیمت 12 کروڑ سے زیادہ ہے۔ یہ کار بلٹ اور بلاسٹ
پروف ہے۔ اس کی کھڑکیاں سٹیل کی سخت گولیوں کو برداشت کر سکتی ہیں۔ اس پر
دھماکہ خیز اشیاء بھی اثرا نداز نہیں ہوسکتیں۔ کھڑکی کا اندرونی حصہ پولی
کاربونیٹ سے لپٹا ہوا ہے اور گاڑی کا نچلا حصہ بھاری بکتر بند ہے تاکہ
سواریوں کو براہ راست دھماکوں سے بچایا جا سکے۔ گیس کے حملے کی صورت میں
علیحدہ ایئر سپلائی کی سہولت ہے۔ ہنگامی حالات میں تازہ آکسیجن کی فراہمی
اور آگ بجھانے کا نظام ہے ۔ یہ ٹائر پنچر ہونے پر بھی چل سکتی ہے۔ اس کے
باوجود 12کروڈ کی گاڑی اور ۸ ہزار کروڈ کے طیارے میں چلنے والا چھوئی موئی
وزیر اعظم نہتے کسانوں سے خوفزدہ ہوکر فرار ہوجاتے ہیں حالانکہ اس غریب ملک
کے وزیراعظم کی حفاظت پر یومیہ ایک کروڈ 62لاکھ خرچ ہوتا ہے اور کسان دن
رات محنت کرنے کے باوجود خودکشی پر مجبور ہوتا ہے۔
تعجب کی بات تو یہ ہے مودی کے غم میں مگر مچھ کے آنسو بہانے والوں میں ان
کے قدیم حریف شیوراج سنگھ چوہان پیش پیش ہیں۔ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ نے
بھوپال میں گفا مندرکے اندر مودی کی درازیٔ عمرکے لیےمہا مرتیونجیا منترا
کا پاٹھ کیا اور پجاریوں کی کے ساتھ اپنی تصویر ٹویٹ کرکے وفاداری کا ثبوت
دیا۔ اس طرح کا پوجا پاٹ اجین کے مہا کالیشور جیوترلنگا مندر، کھنڈوا کے
اومکاریشور اوردیگر مندروں میں بھی ہوا۔ دہلی کے جھنڈے والان میں جہاں آر
ایس ایس کا دفتر ہے مندر کے اندر بے جینت جئے پانڈے اور ارون سنگھ نے مودی
کی خاطر پوجا کی۔ ملک بھر میں یہ سب ہونے لگے تو مودی کا حلقۂ انتخاب
وارانسی کیسے خاموش رہ سکتا ہے اس لیے وہاں بھی کال بھیروی مندر کے اندر
مودی کے لیےخصوصی پرارتھنا کی گئی۔ بی جے پی والوں کے لیے اب اپنے رہنما کی
چاپلوسی کے لیے بات کا بتنگڑ بنا کر شور شرابہ کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں
بچا ہے لیکن کیا اس کا کوئی سیاسی فائدہ ہوگاَ؟ امکان کم ہے لیکن کچھ
مبصرین کا خیال ہے کہ بی جے پی اس بہانے سے پنجاب میں صدر راج نافذ کرسکتی
ہے۔ صدر مملکت کی فکرمندی کا اظہار اور وزیر اعظم کی ان سے ملاقات اس
کااشارہ ہے۔ بی جے پی نے اگر یہ غلطی کر دی تو تمام حامیوں سمیت اس کا
پنجاب میں سپڑا صاف ہوجائے گا۔
|