ایک دہائی تلک ملک پاکستان دہشت گردی کی وجہ سے
سیاحوں کی توجہ سے محروم رہا۔ لیکن 2019 میں برطانوی شاہی جوڑے کے کامیاب
دورے کے بعد ایک برطانوی اخبار کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان سیاحت
کے دل دادہ لوگوں کے لیے ایک بہترین سیاحتی مقام تسلیم کیا گیا۔ پاکستان کو
اللہ تعالیٰ نے خوبصورتی کے ہر جوہر سے نوازا ہے اب وہ چاہے سمندر ہو، یا
دریا، صحرا ہو یا ریگستان فلک بوس چوٹیاں یا برف سے منجمد گلیشیر ہوں یا
پہاڑوں کی چوٹیوں سے گرتی آبشاریں الغرض ہر چیز سیاحوں کو اپنی خوبصورتی
میں محو کرنے کے لیے کافی ہے۔چاروں موسموں کی سر زمین پاکستان میں جب موسم
سرما کی آمد ہوتی ہے تو لوگ شمالی علاقہ جات کا رخ کرتے ہیں تاکہ سرما کی
دلکشی سے لطف اندوز ہوا سکیں۔
پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے کئی شاہ پاروں سے مزین کیا ہے۔
دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو پاکستان کی دلکشی میں چار چاند لگاتی
ہے۔ دی گریٹ سکندر اعظم کی فوج جب برصغیر میں حملے کے لیے تو یہی قراقرم
پہاڑی سلسلہ کی خوبصورتی نے اس کو اپنی خوبصورتی میں محو کیا اور یہی ان کی
توجہ کا مرکز بنا اور فوج نے یہاں پڑاؤ ڈالا۔ اس کے علاؤہ ہمالیہ، قراقرم،
ہندوکش کے فلک بوس پہاڑ ہوں یا شوالک پہاڑی سلسلہ برف باری کے موسم میں
سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ من چلے سردی کی پرواہ کئے بغیر اپنے
دوستوں، اہل خانہ یا اکیلے ہی سیاحت کے لیے نکل جاتے ہیں۔ فلک بوس پہاڑوں
کی چوٹیوں پر امبر سے گرتی برف باری بلاشبہ ایک دل چسپ، دل مرعوب، دل فریب
اور دل کش منظر پیش کرتی ہے۔ جو انسان کو تفریحی کے ساتھ ساتھ خدا کی اعلیٰ
وارفع ذات کی بہترین قدرت کاملہ کی یاد دلاتا ہے۔ رواں سال جنوری کے آغاز
میں ہی برف باری کا سلسلہ شروع ہوا۔ لوگوں نے جوق در جوق شمالی علاقہ جات
کا رخ کیا۔ اور سیر و تفریح کے لیے نکلے۔ تاکہ کچھ لمحے یادگار بن سکیں۔
مری میں مال روڈ کی گہما گہمی، کشمیر پوائنٹ کی گرما گرم کشمیری چائے ہو یا
روایتی پکوان، گھوڑا گلی، ایوبیہ، نتھیاگلی سب دلکشی کی اپنی مثال آپ ہیں۔
المختصر، لوگ ہزاروں کی تعداد میں چند دنوں میں ہی مری جا پہنچے، دو روز
قبل وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ٹوئٹر کے ذریعے پیغام دیا کہ مزید سیاح
مری کا رخ نہ کریں کیونکہ سیاحوں کے ایک بڑی تعداد پہلے ہی وہاں موجود ہے۔
سیاحوں کی سیاحت کا مرکز مری دل فریب رہا، لوگ منفی درجہ حرارت اور جاری
کردہ ہائی الرٹ کے باوجود بھی شوق کو پورا کرنےکے لیے نکلے۔ ریسٹور نس، اور
مالکان کی بے جاہ ریسٹورنس میں قیام گاہ کے بڑھتے داموں کی حرص کی وجہ سے
اور کچھ لوگوں کی انتظامی بد عنوانی کی وجہ سے رات قیام کے لیے اکثریت کو
سر چھپانے کو چھت نہ مل سکی۔ منفی درجہ حرارت کے باعث برف باری نے سڑکوں کو
ڈھانپ رکھا تھا۔ لوگوں نے گاڑیوں میں ہی قیام کو ترجیح دیا، حرارت کے لیے
ہیٹر اون رکھے، برف باری کے باعث سردی کے وجہ سے کار گلاس ونڈوز کو بند
رکھا گیا۔ برف باری کے باعث گاڑیوں کے سائلنسر کے ایگزٹ سوراخ بند ہوگئے جس
کی وجہ سے ہیٹر کے چلتے اور اس سے نکلتی کاربن مونو آکسائیڈ کو ماحول میں
خارج ہونے کے لیے جگہ نہیں ملی جس کے باعث کچھ دیر کے لئے غنودگی طاری ہو
گئی، تب ان کو ریسکیو نہیں کیا گیا اور آہستہ آہستہ یہ بن بو قاتل گیس نے
سب کو موت کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے سلا دیا۔ حکومت پاکستان نے اب ہنگامی
بنیادوں پر مری کے آنے جانے والے راستوں کو بند کردیا اور وہاں پر موجود
آفت زدہ لوگوں کی امداد کے لیے فوج اور انتظامی اداروں کے ملازمین کو
تعینات کیا ہے۔ اب سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ آخر 19 لوگوں کی اموات کے زمہ
داری کون؟ انتظامیہ؟ ریسٹورنٹ مالکان؟ یا خود آنے والے سیاح؟ حکومت پاکستان
کو اس کی جانچ پڑتال کرنی چاہیے کیونکہ شمالی علاقہ جات کی سیر و سیاحت
ہماری معیشت کے پہیے کو رواں دواں رکھنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتی
ہے۔کیونکہ سیاحت نہیں روکی جاسکتی احتیاط اور حکومتی سطح پر اقدامات کیے
جاسکتے ہیں۔۔ مقامی سطح پر بھی انتظامات کیے جائیں اور ایک حد سے زیادہ
سیاحوں کو اس موسم میں مری میں داخل ہونے سے روکا جائے تاکہ لوگوں کو کسی
بھی طرح کی کوئی دشواری پیش نہ آئے اور سیاحوں کو بھی موسم سرما کے بدلتے
تیور کا خیال رکھتے ہوئے ایسے علاقوں کا رخ کرنا چاہیے تاکہ کسی بھی قسم کے
حادثات سے محفوظ رہا جا سکے۔ خدا آفت زدہ لوگوں پر رحم فرمائے اور لواحقین
کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔
|