سانحہ مری ۔۔ذمہ دار کون ۔۔؟

یورپی ممالک میں بیشتر اقوام دکھی انسانیت کی خدمت کو ترجیح دیتی ہیں ۔کہیں کوئی ایک مثال نہیں دی جا سکتی کہ فلاں ملک میں کوئی مجبور و بے بس انسان لوگوں کی بے حسی کی بھینٹ چڑھ گیا ہو ۔ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ہم سسکتی انسانیت پر رحم کرنے کی بجائے اس کی بے بسی کو کمائی کا ذریعے بنا لیتے ہیں ۔سانحہ ء مری نے ہر پاکستانی کو سوگوار کردیا ہے ۔صرف 3 فٹ برف پڑی اور 30سے زائد قیمتی جانیں چلی گئیں، کوئی بچوں سے محروم ہو ا توکسی کا پیارا اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔ اطلاعات کے مطابق ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں اور 2لاکھ سے زائد سیاح مری میں داخل ہوئے جبکہ یہاں اوسطاً 5ہزار گاڑیوں کی گنجائش موجودہے ۔مری کے داخلی راستوں پر 3 ٹول پلازے کام کر رہے ہیں ، اربوں روپیہ ٹول ٹیکس کی صورت سالانہ کمایا جاتا ہے ۔اس کے باوجود یہ رقم مری میں سہولیات کی فراہمی پر خرچ نہیں کی جاتی ۔کہا جاتاہے کہ2015 ء میں بھی سوا لاکھ گاڑیاں شہر میں داخل ہوئی تھی ور7فٹ برف پڑی تھی جبکہ اس بارصرف 3فٹ برف ریکارڈ کی گئی ہے ۔سابقہ ادوار میں پنجاب حکومت برفباری سیزن کے لئے خصوصی انتظامات کرتی تھی۔ سڑک سے برف ہٹانے والی مشینوں کی مرمت کروائی جاتی تھی، وافر مقدار میں ایندھن اکٹھا کیا جاتا تھا۔ برفباری کی پیشین گوئی کے ساتھ ہی مختلف مقامات پر برف ہٹانے والی مشینوں کو اس طرح لگا دیا جاتا تھا کہ شدید ترین برفباری میں چند گھنٹوں کے اندر باڑیاں سے بھوربن اور گھوڑا گلی سے مظفرآباد روڈ سب صاف کر دی جاتی تھیں ،مرکزی سڑکیں کبھی چند گھنٹے سے زائد بند نہیں رہتی تھیں۔ لگتا ہے اس بار اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔اسلام آباد پولیس کے اے ایس آئی نوید اقبال( جو اپنے بچوں اور بھتیجوں کے ساتھ برفباری کا لطف اٹھانے کیلئے مری گئے تھے )کی امداد کے سلسلے میں کی گئی ٹیلی فون کالز لوگوں کو ریسکیوکی سہولت فراہم کرنے کے حوالے سے حکومتی کارکردگی کا پول کھولنے کیلئے کافی ہیں۔ایک پولیس آفیسر اور اسکے بچوں کو 20گھنٹے گذرنے کے باوجود ریسکو کی سہولت نہ فراہم کرنا اور ان سب کا موت کی وادی میں اتر جانا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔

موت سے فرار ممکن نہیں ، ربّ کائنات سے ہر انسان کی موت کا وقت مقرر کر رکھا ہے ،اور انسان نا چاہتے ہوئے بھی اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ جہاں ملک الموت نے انسان کی روح قبض کرنا ہوتی ہے ۔زندگی ہو تو انسان آگ کے شعلوں سے بھی بچ کر آ جاتا ہے اور اگر موت لکھی ہوتو معمولی زکام بھی انسان کی موت کا سبب بن جایا کرتا ہے ۔اطلاعات کے مطابق گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے زیادہ تر لوگوں اور بچوں کی اموات دم گھٹنے کے باعث ہوئیں ،کیونکہ لوگوں کو اس بارے آگاہی نہ تھی ۔

سانحہ مری میں انسانی جانوں کے ضیاع اور لوگوں کا مصیبت میں پھنسنا افسوسناک واقعہ ہے لیکن وزیر اعظم سمیت کچھ حکومتی وزراء اس کا ذمہ دار عوام کو ہی قرار دے رہے ہیں ۔جو ایک تکلیف دہ امر ہے ۔دیکھا جائے توحکومت،انتظامیہ ،محکمہ ہائی وے ،این ڈی ایم اے ،پولیس ، ریسکیو سمیت سبھی ادارے اس سانحہ میں ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں ۔ان اداروں پر قومی خزانے کی کھربوں روپے کی رقم سالانہ خرچ کی جاتی ہے لیکن کوئی ایک بھی محکمہ ایسا نہیں ہے کہ جو مشکل کی گھڑی میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرے ۔نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کا کام ہی قدرتی آفات و مشکلات میں عوام کی امداد کرنا ہے لیکن اس سے وابستہ افسران بھی اپنی دھن میں مگن رہتے ہیں ۔

پاکستان سے آنے والے اکثر سیاح مری اور گردونواح کے راستوں سے بھی نا آشنا ہوتے ہیں،انہیں قدم قدم پر رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔مری کے مقامی لوگوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ پردیسوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کریں ،لیکن کہا جاتا ہے کہ عام حالات میں بھی مری کے تاجر ، ہوٹل مالکان اورعوام کا رویہ ناقابل برداشت حد تک تکلیف دہ ہوتا ہے ،اور شاہدچندروز قبل ہونے والی برفباری میں سیاحوں کی ایک بھاری تعداد کو مصیبت میں دیکھتے ہوئے بھی ان کے مزاج میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی ۔۔سچ تو یہ ہے کہ یہی سیاح مری والوں کی آمدن کا ذریعہ ہیں ۔اگر سیّاح مری کا رخ نہ کریں تو یہ لوگ شہر ہی چھوڑ کر کہیں دور جا بسیں ۔لیکن گاہکوں کی اس قدر رحمت کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے اور ان کی خدمت کرنے کی بجائے یہ لوگ لوٹ کھسوٹ میں لگ جاتے ہیں ۔اس روز بھی جب سیاحوں کی گاڑیوں میں پٹرول ختم ہوگیا ، کھانے پینے کی اشیاء ختم ہوگئیں۔لوگ شدید ٹھنڈ میں اپنی اپنی گاڑیوں میں محصور ہو کر رہ گئے ۔ سردی کی شدت بڑھ گئی۔ گاڑیوں کے ہیٹنگ سسٹم کام کرنا چھوڑ گئے ۔ گاڑیوں میں پھنسے لوگ دم گھٹ کے باعث مرنے لگے ، تو کسی مقامی باشندے ،تاجروں اورہوٹل مالکان نے کسی پریشان حال مسافرکی کوئی مدد نہ کی ۔ یہ وہ شہر ہے کہ جہاں سیاحوں کو 100 والی چیز 1000 میں بیچی جاتی ہے ،۔عام دنوں میں جس ہوٹل کا کرایہ 3000 ہوتا ہے سیزن میں اس کے 15000 ہزار تک لئے جاتے ہیں۔ صرف گاڑی پارک کرنے کے 500 سے1000 روپے تک چارج کئے جاتے ہیں۔ گاڑی کو دھکا لگانے کے2000 اورچین لگانے کے 15000 وصول کئے جاتے ہیں۔ گویا پریشان حال مجبور و بے بس پردیسوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے ۔

ہماراایک اور المیہ یہ ہے کہ ہم سفر پر نکلتے وقت احتیاطی تدابیرپر یکسر دھیان نہیں دیتے ،ہمیں چاہئے کہ ہم فیملی اور بچوں کے ساتھ مری سمیت کسی ہل اسٹیشن پر جاتے سے قبل فرسٹ ایڈ سمیت ضرورت کی ہر وہ چیز ساتھ رکھیں کہ جو کسی بھی قدرتی آفت یا موسم کی گرمی سردی میں کام آ سکے ۔ہم میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے کہ جو ’’ہائی وے کوڈ ‘‘میں درج ہدایات پر بھی عمل کرنے سے گریزاں رہتے ہیں ۔جس کی وجہ سے دوران سفر ہمیں طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے سانحہ ء مری کا نوٹس لیا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کی جائے اورذمہ داران کے خلاف کارروائی کو یقینی بنایا جائے ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سانحہ سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہئے ،شہری تفریحی مقامات پر جانے سے قبل موسمی حالات اور سڑکوں کی صورتحال سے مکمل آگاہی حاصل کریں ۔احتیاطی تدابیر پر دھیان دیں ۔مقامی باشندوں کا یہ فرض ہے کہ وہ مشکل کی گھڑی میں پریشان حال لوگوں کی انسانیت کے ناطے مدد کریں ۔مری کے باسیوں کو ایک لمحے کو یہ سوچنا چاہئے کہ انہیں سیاحوں کی بدولت ان کا نظام زندگی رواں دواں ہے ۔کم از کم اس نظرئیے کے تحت ہی انہیں ممکنہ سہولیات فراہم کرنا چاہئے کیونکہ مری سمیت تمام ہل اسٹیشنز کی رونقیں انہیں سیاحوں کے دم قدم سے ہیں ۔موت برحق ہے ، اس سے فرار ممکن نہیں لیکن انسانیت کی خدمت سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں ۔۔آج ہم دوسروں کے زخموں پر مرہم رکھیں گے تواﷲ تعالیٰ بھی ہمارے دکھوں کا مداواغیب سے کریں گے۔ ہماری حکومت سے گذارش ہے کہ اس سانحے کی روشنی میں ایسے اقدامات اٹھائے جائیں کہ آئندہ اس قسم کی صورتحال میں عوام کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔مری جانے والوں کو بسااوقات واپس آنے میں دشواری پیش آتی ہے ،کیونکہ اکثرمقامات پر یو ٹرن ہی موجود نہیں ہے ۔۔ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کیلئے داخلی راستوں سے زیادہ خارجی راستوں کا ہونا ضروری ہے ۔دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی ایمرجنسی میں کوئی بندہ واپس آنا چاہئے تو اسے راستہ ہی نہیں ملتا ۔حکومت اس پر دھیان دے ۔آخر میں دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مری میں جاں بحق افراد کی مغفرت فرمائے ،لواحقین کو صبرجمیل عطافرمائے ۔اور ہم سب کو دکھی انسانیت کی خدمت کی توفیق عطافرمائے ۔آمین ۔


 

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 115352 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.