یوگی ادیتیہ ناتھ کے وزیر اعلیٰ بن جانے سے بی جے پی کا
سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مختلف جلد باز طبیعت کے حامل آرزو مند لوگوں کو
تیزی کے ساتھ ترقی حاصل کرنے کا ایک چور دروازہ مل گیا۔ اس کی ایک مثال تو
آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما ہے۔ اس شخص نے یوگی والا گیروا چولہ
تو نہیں اوڑھا مگر بدکلامی سیکھ لی ۔ وہ جب بھی منہ کھولتا ہے مسلمانوں کے
خلاف زہر اگلتا ہے۔ یوگی کے قدموں سے زمین چونکہ کھسکی ہوئی ہے اور اس کی
سمجھ یہ نہیں آرہا تھا کہ متھرا سے لڑے یا ایودھیا سے تو گھبرا کر اپنے
مٹھ کے شہر گورکھپور میں بھاگ آیا۔ وہ فی الحال اپنے وجود کی لڑائی میں
مصروف ہے اس لیے بی جے پی نے آندھرا پردیش کے ورنگل میں فتنہ پھیلانے کی
خاطر ہمنتا بسوا شرما کی خدمات حاصل کی۔سنگھ پریوار میں قحط الرجال کا یہ
عالم ہے کہ ایک ایسا آدمی جو ٹھیک سے ہندی نہیں بول سکتا اسے آسام سے بلا
کرآندھرا روانہ کردیا گیا۔ اس نے وہاں جاکر کہا:’’جیسے آرٹیکل 370ختم
ہوگیا ، جیسے رام مندر کاکام شروع ہوگیا اسی طرح نظام کا نام و نشان مٹ
جائے گا ۔ اویسی کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ وہ دن زیادہ دور نہیں ہے‘‘۔
ایک آئینی عہدے پر فائز وزیر اعلیٰ جب کہتا ہے کہ:’’ایک نیا بھارت کا ہم
لوگ کو نرمان کرنا ہے ۔ جو بھارت میں کوئی اویسی کی جگہ نہیں ہوگی۔ اس
بھارت میں اورنگ زیب اور بابر کی جگہ نہیں ہوگی اور جس بھارت میں کوئی نظام
کی تاریخ نہیں پڑھے گااگر کوئی تاریخ پڑھے گا تو وہ ولبھ بھائی پٹیل کی
ہوگی ‘‘۔ کانگریس سے بی جے پی میں آنے والے اس بددماغ شخص کو یہ بتانا
چاہیے کہ کیا بچوں کو یہ پڑھایا جائے گا کہ ولبھ بھائی پٹیل کا تعلق
کانگریس سے تھا اور انہوں نے گاندھی جی کاقتل ہوجانے کے بعد آر ایس ایس پر
یہ کہہ کر پابندی لگا دی تھی کہ ملک ک لیے نقصان دہ ہے۔ امت مسلمہ کے خلاف
اوٹ پٹانگ الزامات لگانا اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ان پر ہونے والےمظالم کو
وہ جائز قرار دیتا ہے اور دلآزاری پر ناز کرتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت
پھیلاکر اپنی بدعنوانی کی پردہ پوشی اس آزمودہ حربہ ہے۔
عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ہمنتا بسوا سرما ان پر دراندازی کرکے سرکاری
زمین پر قبضہ کرنے کا جھوٹا الزام لگاتاہے ۔ اس نے پورے صوبے میں برسوں سے
اپنی زمین پر زراعت کرنے والے بنگالی مسلمانوں کو بے گھر کرکے مقبولیت
بڑھانے کی مہم چھیڑ رکھی ہےلیکن اس کی آڑ میں خود سرکاری زمینوں کو نگل
بیٹھا ہے۔ بسوا کا دعویٰ ہے کہ کسی کو بھی غیر قانونی طریقے سےسرکاری زمین
پر قبضہ کرنے کا اختیارنہیں ہے لیکن دی وائر کی تفتیش کے مطابق اس نے اپنی
بیوی رینیکی بھویاں شرما اور بیٹے نندیل بسوا شرماکے ساتھ مل کر 18؍
ایکڑسرکاری زمین پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس زمین کا ایک تہائی حصہ کامروپ ضلع
میں گوہاٹی ہوائی اڈے اور ٹیک سٹی سے ملحق ہے اور اس کی قیمت تقریباً سو
کروڈ روپئے ہے۔ اس خطۂ ارضی کوبے زمین لوگوں اور اداروں کے لیے مخصوص کیا
گیا تھامگر سرکاری ضابطوں کی خلاف ورزی کرکے وزیر اعلیٰ اس پر قابض
ہوگئے۔شرما کی کمپنی آر بی ایس ریئلٹرز پرائیویٹ لمیٹڈنےپہلی بار 2006-2007
میں اور دوسری بار 2009 میں یہ زمین خریدی ۔ اس وقت وہ کانگریسی وزیر اعلیٰ
ترون گگوئی کی سرکار میں ایک بااثر وزیر تھے۔انہیں امید تھی کہ آگے چل کر
وزیر اعلیٰ بنیں گے تو ساری بدعنوانی چھپ جائے گی مگر جب ترون گگوئی نے
اپنے بیٹے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تو وہ بی جے پی میں شامل ہوگئے۔ وہاں
پانچ سال انتظار کرنے کے بعد وزیر اعلیٰ بن گئے اور مسلم دشمنی میں یوگی سے
مسابقت کرنے لگے۔
اس فہرست بسوا سرما اکیلے نہیں ہے بلکہ دہلی میں عام آدمی پارٹی سے بی جے
پی میں شامل ہونے والے کپل مشرا بھی شامل ہیں ۔ وہ بیچارے اسمبلی کا ایک
انتخاب نہیں جیت سکے مگر دہلی کا فساد برپا کرنے میں بہت نمایاں کردار ادا
کیا۔ فساد کے بعد ہندووں کے نام پر اور پھر رنکو شرما کے بہانے کروڈوں کا
چندہ جمع کیا اور اس کا کیا ہوا کوئی نہیں جانتا۔ اس مجرم پیشہ انسان کو
پولس کا ایسا تحفظ حاصل کہ اس کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں ہوتی بلکہ
جو جج اس پر اصرار کرتا ہے اس کا راتوں رات تبادلہ ہوجاتا ہے۔ یہی حال
انوراگ ٹھاکر کا ہے کہ جو کھلے عام ’دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں
کو‘کا نعرہ بلند کرکے عوام کو تشدد پر ابھارتا ہے ۔ اس کے باوجود بی جے پی
دہلی میں منہ کی کھاتی ہے مگر اسے انعام کے طور پر مرکزی وزارت سے نواز دیا
جاتا ہے۔ بی جے پی اعلیٰ کمان کے ذریعہ بدزبانوں کی حوصلہ افزائی کے سبب ان
کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
شمال اور مشرقی ہندوستان کی یہ بیماری اب جنوبی ریاست کرناٹک میں بھی پہنچ
گئی ہے۔ وہاں بھی یوگی ادیتیہ ناتھ کے نقش قدم پر تیجسوی سوریا رواں دواں
ہے۔ اس نے 25؍ دسمبر کو ضلع اُوڈوپی کے کرشنا مٹھ میں ایک تقریب کے شرکاء
کو خطاب کرتے ہوئے کہہ دیا ’ہم نے اس ملک میں رام مندر تعمیر کر دیا ہے،
جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ختم کر دیا ہے اوراب ہمیں پاکستان کے مسلمانوں
کو ہندو بنانا چاہیے، ہمیں گھر واپسی کو ترجیح دینی ہوگی کیونکہ اکھنڈ
بھارت کے تصور میں پاکستان شامل ہے۔‘ سوریا نے اپنی مہم میں مٹھوں اور
مندروں کو شامل کرتے ہوئے قیادت کرنےکی ترغیب دی اور ہر مندر اور مٹھ کو اس
کے لیے سالانہ ہدف مقرر کرنےکا مشورہ دیا۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب
تیجسوی نے تفرقہ انگیز بیان دیا ہو لیکن جب اس متنازع تبصرے پر سوشل میڈیا
میں تنقید شروع ہوگئی تو بی جے پی کی اعلیٰ قیادت اور سنگھ کر رہنماوں کو
اس کی کڑی سرزنش پر مجبور ہونا پڑا۔
ہری دوار اور رائے پور کی دھرم سنسد کے برعکس جب اپنے ہی پریوار کے لوگوں
سے پھٹکار پڑی تو 27؍ دسمبر کو سوریا نے یہ کہتے ہوئے اپنا بیان واپس لے
لیا کہ ’دو دن قبل اُوڈوپی کےسری کرشنا مٹھ میں منعقدہ ایک پروگرام کے اندر
میں نے ’بھارت میں ہندو مذہب کی بحالی‘ کے موضوع پر بات کی تھی۔ میری تقریر
کے بعض بیانات نے ایک افسوسناک تنازع پیدا کر دیا ہے۔ اس لیے میں غیر مشروط
طور پر وہ بیانات واپس لیتا ہوں۔‘ یہ اس بدمعاش کی پرانی عادت ہے۔ اس نے
عرب خواتین سے متعلق 2015 ء میں ایک نہایت رکیک اور نازیبا تبصرہ کیا تھا
اور جب اس کے خلاف عرب صحافیوں اور خواتین کی جانب سے تنقید ہونے لگی تو ڈر
کر اسے ٹوئٹر سے ہٹا دیا۔ سوریا کے حلقۂ انتخاب جنوبی بنگلورو میں کووڈ
وار روم قائم کیا گیا تھا ۔ اس میں بدعنوانی ہوئی یعنی اونچی قیمت پر بستر
بلیک مارکیٹ میں فروخت کیے گئے۔ اس میں لازماً تیجسوی سوریا کا کمیشن شامل
رہا ہوگا لیکن اسے چھپانے کے لیے سوریا نے وار روم کا دورہ کرکے اسے فرقہ
وارانہ رنگ دے دیا۔
اس کووڈ وار روم میں جملہ 206لوگ کام کررہے تھے مگر اس نے بلا تحقیق صرف
17؍ لوگوں پر سارا الزام دھر دیا اور وہ سب مسلمان تھے۔ اس کے بعد ذرائع
ابلاغ میں اس کی فرقہ پرستی موضوع بحث بن گئی اور اصل بدعنوانی پر پردہ پڑ
گیا ۔ سوریا نے جن لوگوں کا نام لیا تھا ان میں سے ایک نے بتایا کہ وہ ایک
نجی کمپنی کے لیے نچلی سطح پر کام کرتے ہیں انہیں صرف بارہ ہزار تنخواہ
ملتی ہے اور وہ کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں کرتے۔ ڈاکٹر حضرات جس مریض
کو جو بستر دینے کے لیے کہتے ہیں وہ دے دیتے ہیں ۔آگے چل کر بنگلورو پولیس
نے چار لوگوں نیتراوتی، روہت کمار ،ریحان اور ستیش کو گرفتار کرلیا۔ ان میں
تین ہندو اور ایک مسلمان نکلا۔ وہ مسلمان بھی سوریا کی پیش کردہ فہرست سے
نہیں تھا یعنی اس نے بلا تفریق مذیب و ملت اپنی گینگ کے مسلمان کو بھی
بچانے کی کوشش کی ۔ مسلمانوں کے خلاف پھیلائی جانے والی زہر افشانی کا یہ
زاویہ بھی قابلِ توجہ ہے ۔
تیجسوی سوریا کوئی بہت قابل سیاستداں نہیں ہے۔ آر ایس ایس کی شاکھا میں
اپنا بچپن گزارنے والے اس رکن پارلیمان کی عمر30سال ہے۔ جنوبی بنگلورو
1991سے بی جے پی کا گڑھ رہا ہے ۔ سابق مرکزی وزیر اننت کمار وہاں سے کامیاب
ہوتے رہے ہیں ۔ ان کے انتقال کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ اننت کمار کی
بیوہ، تیجسونی کو ٹکٹ دیا جائے گا لیکن 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں
پارٹی نے تیجسوی سوریا کو امیدوار بنادیا ۔ اس طرح بغیر کسی محنت کے اننت
کمار کی سیاسی وراثت اس کے حصے میں آگئی۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران اعلیٰ
کمان کی چاپلوسی میں اس نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’اگر آپ مودی کے ساتھ
ہیں تو بھارت کے ساتھ ہیں۔ اگر آپ مودی کے حامی نہیں تو بھارت مخالف قوتوں
کو مضبوط کر رہے ہیں۔‘ اس طرح مودی تلوے چاٹ کر وہ ترقی کرتا چلا گیا یہاں
تک کہ اس کے دفتر کا افتتاح کرنےکے لیے امیت شاہ خود بنگلور آئے اور اس کا
دماغ آسمان پر پہنچا دیا۔ کسی جماعت کے ستارے گردش میں آجائیں تو اس کے
ساتھ وہی سب ہونے لگتا ہے جو بی جے پی کے ساتھ سوریا ، سرما اور یوگی مل
کررہے ہیں ۔ مودی جی کے کمل والے گلستان پر تو فی الحال یہ مشہور شعر
معمولی ترمیم کے بعد صادق آتا ہے؎
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی یوگی کافی تھا
ہر شاخ پہ بھوگی بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا
|