سانحہ مری یا بے حسی ۔ ۔ ۔ ۔

جب احساس ختم ہو جائے، ہمدردری کے جذبات سرد پڑ جائیں اور انسان کھوکھلی آنکھوں سے جلتے ہوئے گھر اور ڈوبتے ہوئے سہارے دیکھ رہا ہو۔ جب زبان پر فریاد آنے سے پہلے کٹ جائے۔ جب آنکھوں میں آنسو ہوں اور اس کے گر د جشن منانے والے درندے ہوں اور معصومیت کے جنازے نکل رہے ہوں۔ مہذب معاشرے میں غیر مہذب واقعات رونما ہو رہے ہوں تو یقین کر لینا چاہیے کہ قوموں کو پیش آنے والے واقعات ان کے آنے والے دنوں میں انکے کل پر ان کو معاف نہیں کرے گا۔حکمت عملی کے فقدان پر سانحات قوموں کو جھنجوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔حالیہ دنوں میں غیر انسانی رویوں سے رونما ہونے والے سانحہ مری پر ہر آنکھ اشکبار اور پوری قوم افسروددہ ہے، دردناک حادثے پر ہر دل غم زدہ اور ہر آنکھ اشکبار ہے۔آج قلم سے نکلنے والی سیاہی بھی آنسو بن کر کاغذ کو بھگوئے چلے جا رہی ہے۔جیسے الفاظ دھاڑیں مار رہے ہیں مری کی تاریخ کا بدترین سانحہ مری کی انتظامیہ کی غفلت کے باعث 25کے قریب ہلاکتوں نے دل دہلا دیا۔حکومتی نمائندے فواد چوہدری صاحب نے بیان دیا کہ مری میں ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں داخل ہو چکی ہیں جو ملک کی معیشت بہتر ہونے کی دلیل ہیں۔ لیکن کچھ دیر بعد ہی افسوس ناک اور دل خراش ویڈیوز منظر عام پر آنا شروع ہوگئیں۔انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے ٹریفک بلاک ہوئی اور شدید برف باری ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کے کھڑے کھڑے ہی رستے بلاک ہو گئے۔کچھ لمحے بعد ہی تمام گاڑیوں برف کے نیچے دب گئی اور اس کے اندر لوگ ٹھٹھرتے، چیختے، بلکتے تڑپتے رہے برف باری کے باعث گاڑیوں کے سائلنسر یعنی گیس کا ایگزٹ سوراخ بند ہونے سے گاڑیوں میں کاربن مونو آکسائیڈ بھر گئی جبکہ گاڑی میں موجود زندگی کے خواہاں خاں لوگ سانس کے زریعے کاربن ڈائی نکال رہے تھے۔ گاڑیوں کے شیشے بند تھے۔ اکسیجن کا آنا ناممکن تھا۔ سفر کی تھکاوٹ سے بہت سے لوگ سو گئے مگر کاربن مونو آکسائیڈ نے سب کو موت کی نیند سلا دیا۔ قوم پوچھتی ہے کہ اتنے بڑے سانحہ کے موقع پر ہیلی کاپڑوں سے مدد کیوں نہیں لی گئی؟ برف میں پھنسے ہوئے افراد تک اگر زمینی رسائی ناممکن ہو گئی تھی تو اس کے لیے فضائی راستہ اختیار کیا جاسکتا تھا۔ستم ظریفی انتظامیہ اور ارباب اختیار کے نمائندہ گاڑیاں گنتے رہے اور لوگ اپنی زندگی کے بازی ہارتے گئے یقینا وہ مدد کے لیے پکارتے رہے ہوں گے مگر بے حس انتظامیہ کی کان پر جُو تک نہ رینگی۔ دنیا میں ریسکیو کا مطلب انسانوں کی جان بچانا ہوتا ہے ہماری ہاں ریسکیو کا کام لاشیں اُٹھانا ہے۔

ارباب اختیار کے ساتھ وہ تاجر بھی ذمہ دار ہیں جنہوں نے موت کے کھیل کو کاروبار بنا دیا۔ سیاحوں کی بڑی تعداد کا کہنا کہ مری کے ہوٹل مالکان ایک ایسا طبقہ ثابت ہوئے جو مرتے ہوئے لوگوں کی جیبیں بھی خالی کرتے رہے۔ بے حس بھیڑیوں نے کمروں کا کرایہ 30,000 اور کہی 40000 کر دیاجو وہاں موجود ہر انسان کے لیے ممکن نہیں تھا اور لوگ گاڑیوں میں ہی سونے پرمجبور ہو گئے اور موت ہی وادی میں پہنچ گئے۔ کچھ نسلی بھوکے اُبلا ہوا ایک انڈا 500 روپے میں فروخت کرتے رہے اور چاہے کا ایک کپ 500 روپے میں فروخت کرتے رہے۔کار پارکنگ 1000سے 2000 ریٹ رہا۔ ایسے منا فع خور ملک و ملت کی جڑیں کاٹ رہے ہیں اور یہ لوگ کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حدود و قیود میں رہتے ہوئے کاروباری معاملات میں مشغولیت کی اجازت دی ہے۔ ان لوگوں کے متعلق اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اورتو اس دولت میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے اپنا حصہ لینا نہ بھول اور تو احسان کر جیس ا حسان اللہ نے تجھ سے فرمایا ہے اور ملک میں فساد انگیزی تلاش نہ کر۔بیشک اللہ فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ایک مرتبہ آپﷺ بارزار میں تشریف لے گئے، غلہ منڈی میں آپﷺ نے غلہ کا ایک ڈھیر دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو حکم دیا کہ اس غلہ کے اندر ہاتھ دال کر دیکھیے، آپﷺ نے ہاتھ ڈال کر دیکھا تو نیچے کا غلہ گیلا تھا اور اوپر کا سوکھا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا غلہ والے یہ کیا معاملہ ہے، اس نے کہا، کہ بارش ہوئی، تو غلہ بھیک گیا تھا۔اس لیے اوپر خشک ڈال دیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا گیلا اوپر رکھتا اور سوکھا نیچے رکھتا تاکہ سب لوگ دیکھ یتے، ایسا کرنا دھوکا دینا ہے اور جو دھوکا دے گا وہ مسلمان نہیں ہے مسلمان دھوکا نہیں دیتا ہے، ایک بار آپﷺ نے فرمایادھوکا باز ہم میں سے نہیں ہے اور مکروفریب دوزخ میں ہے،یعنی ایسا کرنے والا دوزخی ہے۔ اس اندوہناک، دلخراش واقعے پر محترم وزیر اعلی صاحب نے مری کو ضلع بنانے کا فیصلہ سنا دیا ہے حالانکہ سیاحوں کے لیے ٹورازم ایڈوائزری اینڈ انفارمیشن ایپ کی اشد ضرورت ہے جو سیاحتی سیزن میں متعلقہ محکموں کو لازمی طور پر سیاحوں کی رجسٹریشن کا نظام شروع کرے تاکہ انتظامیہ سیاحوں کے بارے میں درست ڈیٹا، متوقع قیام کی مدت اور دیگر تفصیلات حاصل کر سکے۔ مری میں ہر سال دو سیزن سیاح کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں اور یہ سیزن موسم گرما اور موسم سر کا سیزن ہے جس میں سیاح بڑی تعد اد میں مری کا رخ کرتے ہیں۔ اگر مستقبل میں ایسے سانحات سے بچنے کے خواہشمند ہیں تو اس کے لیے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے جس میں عوامی تربیت، اداروں کے باہمی کوآرڈنیشن اور درست لمحے بہتر فیصلے شامل ہوں۔
روئے،چیخے، کانپے، آ ہ بھر کے مرگئے
کتنے سپنے برف خانے میں ٹھر ٹھرکے مر گئے

 

Raheel Qureshi
About the Author: Raheel Qureshi Read More Articles by Raheel Qureshi: 18 Articles with 17661 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.