سندھ حکومت نے کراچی کی ترقی کے لئے اہم اقدامات کئے ہیں: سینئر رہنما صدیق اکبرپیپلز پارٹی

پی پی پی قربانی دینے والی جماعت ہے۔ اس نے کبھی بھی جمہوریت کے لئے قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا

پاکستان پیپلز پارٹی نے تمام قومیتوں کو آپس میں جوڑا اور محروم طبقوں کو احساس محرومی سے نکالا۔ پی پی پی کی سیاست میں لسانی اکائیاں ایک گلدستہ ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما و ضلع غربی کراچی کے سابق جنرل سیکرٹری و زکوۃ و عشر کے چیئرمین صدیق اکبر نے قادر خان یوسف زئی کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں کیا۔صدیق اکبر ایک معروف سیاسی سماجی و کاروباری شخصیت ہیں، انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز طالب علمی کے دور سے ہی کردیا تھا۔ ابتدائی طور پر پی ایس ایف سے وابستہ رہے۔ 2001کے بلدیاتی انتخابات میں ناظم کی نشست جیت کر اپنی عملی سیاست کا آغاز کیا۔2013میں پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کونسل کے رکن بھی رہے اور صوبائی اسمبلی کے پی پی پی کے پارٹی ٹکٹ پر انتخاب بھی لڑا۔ سماجی اور سیاسی حوالوں سے ان کی خدمات کو عوامی حلقہ میں سراہا جاتا ہے اور موثر اثر رسوخ کی وجہ سے خصوصی شہرت بھی رکھتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں صدیق اکبر کا کہنا تھا کہ سیاست میں کسی بھی جماعت میں گروپ بندی کوئی اچھنبے کی بات نہیں، تاہم اس میں قیادت سے مخلص ہونا اہم شرط ہے، پی پی پی عوام کی خدمت کے لئے خصوصی شہرت رکھتی ہے۔ پختون قومیت سے ہونے کے ناطے جس طرح پختون لویہ جرگہ میں بھی خصوصی اہمیت ملی اور انہیں پی پی پی کی وجہ سے ملی، اس کے لئے وہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، صدر آصف علی زرداری اور صوبائی قیادت و رہنماؤں کے شکر گذار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے قومیت یا لسانی گروپ بندی سے بالاتر ہوکر پارٹی کے نظریئے کو پھیلایا، پارٹی نے اعتماد کیا اس لئے انہوں نے اہم ذمے داریاں مجھے تقویض کیں، جس میں ہمیشہ کامیاب رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پی پی پی میں روز اوّل سے شامل ہیں اور کسی بھی دوسری سیاسی جماعت میں شامل ہونے کا تصور نہیں کرسکتا۔ پارٹی میں موجود ایسے عناصر جو پی پی پی کے نظریئے کو نقصان پہنچاتے ہیں، ان سے انہیں شکایت رہتی ہے کیونکہ سب سے بڑی چیز عزت ہے۔ سیاست بھی عزت کے لئے کرتے ہیں، جہاں عزت نہ ملے، وہاں خدمت کرنے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے مزیدکہا کہ پی پی پی ایک ایسے علاقے کو ترقیاتی فنڈز دیئے جہاں پارٹی کا ووٹ بنک نہیں تھا، پانی کراچی سمیت ضلع غربی کا دیرینہ مسئلہ ہے۔ پانی کی فراہمی اور منصفانہ تقسیم کے لئے انہوں نے نیو میانوالی واٹر پمپنگ اسٹیشن کے منصوبے پر کام کیا۔11کروڑ روپے کی لاگت سے اس اہم منصوبے کو مختلف عناصر کی جانب سے روکنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے اس پر بنیادی کام کرکے پی پی پی کی طرف سے عوام کو تحفہ دیا، لیکن اس پر مکمل عمل درآمد نہ ہونے اور مسائل پیدا کئے جانے کی وجہ سے ثمرات علاقے تک نہیں پہنچ رہے، جس کا نقصان بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کو ہوسکتا ہے۔ ہماری جماعت چاہتی ہے کہ پسماندہ علاقوں میں ترقی ہو تاکہ نقل مکانی کم ہو لوگوں کو ان کے گھر کے پاس روزگار ملے۔افرادی قوت اپنے صوبے میں استعمال کی جائے تو سب کا بھلاہوگا۔ بلدیاتی انتخابات میں سیاسی اتحاد کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوا کہا کہ یہ تو پارٹی قیادت ہی حتمی فیصلہ کرے گی کہ کس جماعت کے ساتھ سیاسی اتحاد ہو یا بلدیاتی انتخابات میں کراچی کے حوالے سے ان کا جو فیصلہ ہوگا، انہیں ہم سب قبول کریں گے۔ سیاسی اتحاد بنتے رہتے ہیں، ہر جماعت بناتی ہے۔ سیاسی اتحاد اور تمام سیاسی جماعتوں کو لیکر نہ چلنے سے مفاہمتی سیاست کو نقصان ہوتا ہے،(سابق) صدر زرداری کی مفاہمت کی پالیسی نے کئی سیاسی بحرانوں کو ختم کیا، صوبائی خود مختاری اور پارلیمان کا مضبوط کیا ، پچھلی حکومتوں میں ہمیں ایم کیو ایم اور اے این پی کی ضرورت نہیں تھی لیکن پی پی پی اکثریت میں ہونے کے باوجود ان کو ساتھ لیکر چلی۔ ہم کئی مرحلوں میں پیچھے ہٹے، جمہوریت کی مضبوطی کیلئے کرنا پڑتا ہے۔سیاسی عمل کو مضبوط بنانے کیلئے ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔بار بار جمہوریت کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،س صورتحال میں تمام سیاسی جماعتوں کو لیکر چلنا چاہے۔ بلدیات کے حوالے سے صدیق اکبر کا کہنا تھا کہ بلدیاتی نظام کے لئے کی جانے والی تبدیلیاں اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ہی کی گئی تھی۔بلدیاتی نظام پر مخالفت کیوں کی جا رہی ہے یہ سمجھ سے بالاتر نہیں کہ صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے ایسا کیا جارہا ہے۔جب ہم اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبائی خود مختاری کو مضبوط کر رہے ہیں تو پھر مخالفت کیوں کی جا رہی ہے۔

صدیق اکبر کا کہنا تھا کہ لسانی سیاست کو ختم کرنا ہوگا۔ جب سے پی پی پی میں شمولیت اختیار کی ہے سیاسی جدوجہد میرے خون میں ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ میرٹ کو فوقیت دینی چاہیے لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ میرٹ ہمیشہ مارا جاتا ہے۔جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں میرا ماننا ہے کہ اس کے نتائج تبدیل کردیئے جاتے رہے۔کچھ مافیا ہیں ہیں جو نتائج تبدیل کر دیتی ہیں اور ان لوگوں کو کامیاب کرادیتی ہیں جن کے ساتھ عوام بھی نہیں ہوتے۔اس شہر میں ہمیں آزادانہ سیاسی کام کرنے کی آزادی نہیں دی گئی تھی، مخصوص مافیاز نے شہرکراچی کو یرغمال بنایا ہوا تھا، پی پی پی نے کراچی کی ترقی اور امن کے لئے اہم اقدامات کئے ہیں اس لئے امید ہے کہ عوام پارٹی کا ساتھ دیں گے اور ایسے عناصر کو مسترد کردیں گے جنہوں نے اپنے انفرادی مفاد کے لئے کام کیا اوربالخصوص کچی آبادیوں کو ترقیاتی کاموں سے محروم رکھا۔ پی پی پی کراچی میں بڑا مینڈیٹ رکھتی ہے۔ آنے والا وقت ثابت کردے گا کہ پی پی پی ہی کراچی کی اصل اسٹیک ہولڈر جماعت ہے جو کراچی کے دیرینہ مسائل حل کرسکتی ہے۔ پہلے کسی بھی سیاسی آدمی کو کراچی میں آزادی سے کام کرنے کی آزادی نہیں تھی۔آپ اگر کسی ایریا میں کام کرنا چاہتے تھے تو اس طرح کے پراپیگنڈے کردیئے جاتے ہیں کہ سب کچھ ویسا ہی رہ جاتا ہے۔مجھ سے کئی صنعت کاروں نے رابطے کئے اور مجھ سے کہا کہ ہم کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن میرے مخالف انھیں اس لئے کام نہیں کرنے دیتے کہ اس طرح صدیق اکبر کا نام واہ واہ ہوجائے گا۔ موجودہ حکومت پی پی پی کا میڈیا ٹرائلکررہی ہے۔ قیادت و سینئر رہنماؤں کے خلاف جھوٹے مقدمات ہی بنائے گئے کچھ ثابت نہیں کیا جاسکا۔ پی پی پی قربانی دینے والی جماعت ہے۔ اس نے کبھی بھی جمہوریت کے لئے قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا، یہ وفاقی جماعت ہے، شہیدوں کی جماعت ہے، شہیدوں کے خون سے اس جماعت کی آبیاری ہوئی ہے۔ ہم قربانی دینے سے نہیں ڈرتے، جب بھی پارٹی قیادت کا حکم ہوگا، جیالے ان کے ایک حکم آگے بڑھنے سے ڈریں گے نہیں۔

پارٹی کی تنظیم و نظم کے سوال پر جواب دیتے ہوئے صدیق اکبر کا کہنا تھا کہ، اگر کسی کو پارٹی کے کسی عہدے دار کے خلاف کوئی ثبوت ملتا ہے تو اس کے خلاف کوئی بھی قانونی کاروائی کرسکتا ہے لیکن ثبوت کے بغیر نہیں کرنا چاہیے۔ میرے خلاف بھی درخواستیں دیں گئیں، واٹر پمپنگ اسٹیشن پر انکوئری کمیٹی نے کئی مہینے تک تحقیقات کیں، لیکن انہیں خلاف ضابطہ کچھ نہیں ملا اور میں سرخرو ہوا۔پی پی پی میں تنظیمی خلاف ورزی پر کاروائی ہوتی ہے ابھی بھی حال میں کچھ کارکنان کے خلاف کاروائیاں ہوئی، انہیں 2018کے انتخابات میں پارٹی پالیسی کے خلاف الزام پر معطل کیا گیا تھا جو بعد میں بحال کردیئے گئے، پارٹی نے انکوئری کی اور مطمئن ہوئے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی، اگر کسی بھی معاملے میں تنظیم کی جانب سے کوئی سوال پوچھا جائے یا رابطہ کیا جائے تو کوئی کیوں اس سے رابطہ نہیں کرے گا، جہان پاکستان کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرے خلاف ایسی کوئی تادیبی کاروائی نہیں ہوئی اور نہ مجھ سے تنظیمی خلاف ورزی کے حوالے سے کسی انتظامی یا انکوئری کمیٹی نے رابطہ کیا۔ صدیق اکبر کا کہنا تھا کہ میں پارٹی عہدوں سے زیادہ خدمت اور پارٹی منشو ر پر عمل درآمد پر زیادہ یقین رکھتا ہوں۔حالیہ ضمنی انتخابات میں قادر خان مندوخیل کے لئے پارٹی کی ہدایات کے مطابق کام کیا اور انہیں کامیاب کرانے کے لئے اپنا تمام اثر رسوخ استعمال کیا۔ رکن اسمبلی آغا رفیع اس کے گواہ ہیں کہ پارٹی نے جو ذمے داری اس پر مکمل عمل درآمد کیا۔ جس کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے۔ اگر مجھ میں بھی کوتاہی میں ہوگی تو اس پر بھی توجہ دوں گا۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اچھے کام کی تعریف بھی نہیں کرتے۔پی پی پی میں ایسے عہدے دار بھی ہیں جن کے پاس نام کے عہدے ہیں، کام نہیں کرنا چاہتے، لیکن پارٹی سے مراعات بھی لینا چاہتے، پلاٹ بھی لینا چاہتے ہیں نوکری بھی لینا چاہتے ہیں۔ہماری پارٹی میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کیلئے ہیں۔میں اگر اپنی پارٹی مفاد کے خلاف کام کرنے والوں کا مخالف ہوں تو مجھے کسی کا خوف نہیں کیونکہ میں پارٹی کے مفاد کیلئے کام کرنے والوں کو بے نقاب اس لئے کروں گا تاکہ پارٹی کامیاب ہو، دیگر میں خاص طور پر تمام قومیتوں کیلئے کام کرتا ہوں، اس لئے اپنی توجہ پارٹی کے مشن اور عوامی خدمت پر رکھتا ہوں۔ علاقے میں سماجی معاملات میں ہمیں مکمل طور کام کرنا ہوگا۔کراچی میں ابھی انھیں ایسا کوئی پختون لیڈر ہی نہیں جو پختون قوم کیلئے بھی کام کرسکے۔ایک ایسا لیڈر بتا دیں جو سارے ایریا ز میں متحرک ہو ایسا کوئی بھی نہیں ملا، پی پی پی کو اس بات پر غور کرنا ہو گا کہ ہمیں اس حوالے سے مشکلات ہیں، پختون قومیت کے حامل سمیت لسانی اکائیوں کے علاقوں میں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ ان کے مسائل حل کرنے کے لئے پی پی پی اس وقت بہترین پلیٹ فارم ہے۔


 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 743926 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.