چنڊ ماہ پہلے کوئٹہ سے زیارت کا سفر کرنے کا موقع ملا.
صبح ناشتہ کرکے زیارت کی جانب رواں ہوئے، شہر سے نکلتے ہی DHA کوئٹہ پر نظر
پڑی جوکہ وسیع پیمانے پر زیر تعمیر تھا اور اس میدانی علاقے میں پہاڑوں کا
نظارہ دل کو لبھانے کیلئے کافی تھا. جب کسی منزل کی طرف پہلی بار جانے کا
اتفاق ہوتا ہے تو ذہن اپنے حساب سے ایک عکس بنا لیتا ہے یوں ہی میرے ذہن
میں زیارت اور اس کے راستے کا عکس بن چکا تھا لیکن جوں جوں راستہ گذر رہا
تھا ویسے ہی عکس میں حقیقت اپنی جگہ بنا لیتی تھی.
روڈ کے اطراف مختلف مقامات پر سیب کے ان گنت باغات تھے جن میں مختلف اجناس
کے سیب دیکھنے کو مل رہے تھے یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ اس جگہ کے سیب
یورپ سمیت امریکا کی مختلف ریاستوں تک ایکسپورٹ ہوتے ہیں.
تنگ سڑک پر جہاں جگہ جگہ گھڑے تھے تو کہیں روڈ بل کھاتی سڑک میں تبدیل
ہوجاتی تھی. راستے میں ایک چشمے پر رک کر پانی پیا جو کہ نہایت ہی شفاف اور
میٹھا تھا جس کے بعد فوٹوگرافی بھی کی اور قدرت کے حسین مناظر کو کیمرا میں
محفوظ کرکے ہاتھ منہ دھو کر منزل کی جانب چل پڑے.
راستے میں سڑک اس طرح ویران اور تنہا ہوتی دکھائی دے رہی تھی جیسے کئی
دھائیوں سے کسی نے یہاں گذر ہی نہیں کیا ہو یا اس ایسا کہا جائے کہ سڑک
World War Z فلم کی کسی سرک کا منظر پیش کر رہی ہو.
ٹھنڈی ہوا کے بڑھنے سے اندازہ ہورہا تھا کہ زیارت کے نزدیک ہوتے جارہے ہیں.
دوپہر کے ایک بجے کے قریب زیارت میں داخل ہوئے شہر میں بھی ہر طرف ویرانی
تھی چند لوگوں کی کچھ دکانوں پر چہل قدمی دیکھنے کو ملی.
زیارت میں سب سے مشہور جگہ قائداعظم ریزیڈینسی دیکھنے پہنچے لیکن وہاں پہنچ
کر معلوم ہوا کہ لنچ بریک کہ وجہ سے ریزیڈینسی ایک گھنٹے کیلئے بند تھا.
وہاں سے نکل کر زیرو پوائنٹ کی جانب بڑھنے لگے. اونچی چٹانوں پر کارپیٹ کے
زگ زیگ روڈ اور ساتھ ہی سنوبر کے پیڑھ راستے کی خوبصورتی کو مزید نکھار رہے
تھے، راستہ کہیں پر خطرناک منظر پیش کر رہا تھا ایک طرف پہاڑ اور دوسری
جانب گہری کھائی.
زیرو پوائنٹ پہنچ کر سرد ہوا کی شدت محسوس ہوئی. اونچے پہاڑوں کے بیچ میں
بادل اسی طرح منظر پیش کر رہے تھے جیسے کسی نے روئی کی چھت بغیر پلر کے
بنائی ہو.
قدرت کے اس دلکش منظر کو ایک بار پھر سے کیمرا میں قید کرلیا. ابھی زیرو
پوائنٹ سے لطف اندوز ہورہے تھے تو نیچے کی جانب ایک مزار کا گنبد دیکھا اور
معلوم ہوا کہ وہ مزار کھرواری بابا کی ہے اور مزار دیکھنے کیلئے ڈرائیور کو
اس جانب کا بول کے گاڑی میں بیٹھ گئے اور گاڑی نیچے کی جانب رواں ہوگئی. یہ
سڑک پہلے کی سڑکوں کی نسبت زیادہ خطرناک تھی، کھائی کی جانب گاڑی کشش ثقل
کی وجہ سے مزید رفتار میں چل رہی تھی اور یہ سڑک جیسے جیسے نیچے جا رہی تھی
ویسے ویسے تنگ اور پتھریلی ہوتی جارہی تھی اور تھوری دیر بعد گاڑی کو
ڈرائیور نے کھرواری بابا کے گیٹ پر روک دیا.
مزار کے احاطے میں دائیں جانب مختلف قسم کے پھول مزار کے حسن میں اپنی
نمایاں جگہ دکھا رہے تھے اور بدستور میں نے کیمرا نکال کر تصویریں بنانا
شروع کیں. چند ایک تصاویر کے بعد منتظمین میں سے ایک آدمی نے تصویر بنانے
سے روک دیا اور میں نے نظم و ضبط کو مزید نہ توڑتے ہوئے کیمرا بیگ میں رکھ
دیا اور مزار کے اندر چلا گیا. مزار کے اندر قبر کے علاوہ ایک بلب اور دو
طرف سے کھڑکیاں لگی ہوئی تھی اور قبر کی سائز 15 سے 20 فٹ لمبی تھی.
لیکن حقیقت میں قبر 5 سے 6 فٹ لمبی ہی تھی بس اوپر ایک لکڑی کا فریم بناکر
قبر کو زیادہ لمبا کیا گیا تھا. مزار کے بعد واپس ہم اوپر جاکر قائداعظم
ریزیڈینسی کو پہنچے اور وہاں بھی کیمرا کو اندر لے جانے کی منع کے بعد
کیمرا کو گاڑی میں رکھ کر اندر داخل ہوا تو پہلی بار زیارت میں لوگوں کا
ہجوم دیکھنے کو ملا. لوگوں کا لباس اور زبان سن کر اندازہ ہوا کہ اکثریت
لوگوں کی بلوچستان کے مختلف علاقوں سے گھومنے آئی تھی، ہم بھی اندر داخل
ہوئے. اس دور میں بنی لکڑی کی ساری چیزیں بشمول سیڑھی جوں کہ توں اپنی
جوانی کا جیتا جاگتا ثبوت پیش کر رہی تھیں. فاطمہ جناح کا کمرا، محمد علی
جناح کی ٹیبل اور کمرا، بستر نہایت عمدہ طریقے سے سجایا ہوا تھا، کمروں کے
علاوہ بلڈنگ کا فرش سبز رنگ کا تھا جیسا کہ بلڈنگ کا بیرونی رنگ ہے.
کیمرا پر تو پابندی تھی لیکن موبائل سے فوٹو بنانے پر کوئی اعتراض نہیں تھا
اور ہم نے بھی چند تصاویر بنا کر واپس نکل آئے.
شہر کی ویرانی کو دیکھ کر مزید کچھ دیکھنے کو من نہیں ہوا اور شہر سے باہر
نکل کر بابِ زیارت پر کچھ تصاویر بنا کر کوئٹہ کو واپس چل پڑے.
راستے میں سیب خریدنے کی نیت سے ایک باغ کے باہر رکے، اتر کر باغ کے اندر
گئے، دعا سلام اور خیر عافیت کے بعد سندھ سے آئے مہمان دیکھ کر ہم کو سیب
بطور تحفہ دیئے. یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بلوچستان میں سندھ سے گئے لوگوں
کو بہت عزت کی نگاھ سے دیکھتے ہیں اور ان سے مہمان نوازی کا موقع ضرور لیتے
ہیں.
سیب کا تحفہ لے کر شکریہ ادا کرکے نکل پڑے. سورج غروب سے پہلے کوئٹہ پہنچنا
تھا کیوں کہ ایک دوست نے فیسبک پر پوسٹ دیکھ کر دعوت کی ہوئی تھی اور شام
سے پہلے ہوٹل پہنچ کر فریش ہوکر دوست کے پاس گئے اور رات کو 9 بجے واپس
ہوٹل پہنچ کر کوئٹہ میں دوسرے روز کا اختتام کیا.
|