مشرقی لداخ کی ہندی و چینی سرحد پر پھر سے کشیدگی میں
اضافہ ہونے لگا ہے۔ تازہ سٹیلائیٹ تصاویر کے مطابق اس کی وجہ چین کے ذریعہ
پینگونگ تسو جھیل کے کنارے ایک 400 میٹر سے زیادہ لمبے پل کی تعمیر ہےجس کی
تکمیل سے چین کو اس خطے میں اہم فوجی برتری حاصل ہو جائے گی۔ آٹھ میٹر چوڑا
یہ پل پینگونگ تسو جھیل کے شمالی کنارے کو چینی اسپتال اور فوجیوں کی رہائش
گاہوں سےجوڑدے گا۔اس تشویشناک خبر پرراہل گاندھی نے ٹوئٹ کیا کہ چین ہمارے
ملک میں اسٹریٹیجک پل بنا رہا ہے۔ وزیر اعظم کی خاموشی سے پی ایل اے کے
حوصلے بلند ہو رہے ہیں۔ اب خدشہ ہے کہ وزیر اعظم کہیں اس پل کا افتتاح کرنے
نہ پہنچ جائیں۔ اس بات خطرہ اس لیے ہے کہ سرحد پر تما م تر کشیدگی کے
باوجود نئے سال کےپہلے دن ہندوستانی اور چینی فوجیوں نے مشرقی لداخ سمیت
ایل اے سی کے ساتھ ملحق متعدد پوسٹوں پر مٹھائیاں تقسیم کیں اور ایک دوسرے
کو مبارکباد دی۔ خیر سگالی کی خاطر اگرفوجی آپس میں مٹھائی تقسیم کرسکتے
ہیں تو وزیر اعظم ایک پلُ کا افتتاح کیوں نہیں کرسکتے؟ ویسے بھی افتتاح
کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔
گلوان وادی میں تشدد کے بعد پہلی بار ہندوستان اور چین کی فوجوں نے لائن آف
ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ کل 10 مقامات پر ایک دوسرے کو مٹھائیاں اور تحائف
دینے کی نئی روایت قائم کی۔ دونوں ممالک کی فوجوں کے فیلڈ کمانڈرس نے مشرقی
لداخ میں ایل اے سی کی قراقرم پاس، ڈی بی او، چشول، ڈیمچوک، ہاٹ اسپرنگ،
بوٹل نیک اور کونگرالہ کے علاقے سمیت کل سات مقامات پر ملاقات کی۔ اس کے
علاوہ سکم کے ناتھو لا سیکٹر اور اروناچل پردیش کے بوملا اور وچائی-دمائی
میں بھی ہندوستان اور چین کے فوجیوں نے ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد
اور تحائف کا تبادلہ کیا۔ بڑے فخر کے ساتھ دونوں فوجوں کے درمیان ہونے والی
ملاقات اور تحائف کی تصاویر بھی جاری کی گئیں۔ سوال یہ ہے ایک طرف تو چین
کی جانب سے مسلسل اشتعال انگیزی کا مظاہرہ ہورہا ہے ۔ اس کے جواب میں ان
مٹھائیوں اور تحائف کا تبادلہ کس حدتک درست ہے؟
گلوبل ٹائمز نے ان تصاویر کو شائع کرکے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھی
کوشش کی۔ اس نے نہایت قابل اعتراض تبصرہ کرتے ہوئے ایک جانب تو لکھا کہ
’اگر یہ سچ ہے تو اسے ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھا جانا چاہیے‘ لیکن خوشی
کی وجہ یہ بتائی کہ اکتوبر میں دونوں ممالک کے درمیان کور کمانڈر کی سطح پر
بات چیت ہندوستان کی جانب سے نامناسب مطالبے کے سبب تعطل کا شکار ہو گئی
تھی یعنی تعریف کے پردے میں تنقید کرتے ہوئے مذاکرات کی ناکامی کے لیے الٹا
ہندوستان کو ذمہ دار ٹھہرا دیا ۔ گلوبل ٹائمز کے تبصرے کا لب و لباب یہ ہے
فوجی تو ایک دوسرے سے خیر سگالی چاہتے ہیں مگر کور کمانڈر بیجا مطالبہ کرکے
تعلقات کشیدہ کردیتے ہیں ۔ اس طرح مٹھائی کے اندر کڑواہٹ پیدا کرنا کسی طور
پر درست نہیں ہے اور اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر یہ نئی روایت قائم نہ کی
گئی ہوتی تو اچھا تھا۔
سرحد پر مٹھائی کے تقسیم کی شیرینی ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ ۶؍ جنوری
کو مشرقی لداخ میں چین کے ذریعہ سرحد کے قریب پینگونگ جھیل پر ایک پُل
بنائے جانے کی خبر آگئی ۔ اس پُل کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے
ہندوستان نے سخت اعتراض ظاہر کیا ۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے
کہا کہ حکومت اس سرگرمی کی باریکی سے نگرانی کر رہی ہے۔ اس پُل کی تعمیر ان
علاقوں میں کی جا رہی ہے جو تقریباً 60 سال سے چین کے غیر قانونی قبضے میں
ہے لیکن ہندوستان نے کبھی بھی اس قبضے کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ باغچی نے
سیکورٹی مفادات کےدفاع کو یقینی بنانے کے لیے کیے جانے والے حکومت ہند کے
اقدامات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ سرکار نے گزشتہ سات سالوں کے دوران
سرحد سے ملحق بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے بجٹ میں قابل ذکر اضافہ کیا ہے
اور پہلے سے کہیں زیادہ سڑکوں اور پُلوں کا کام پورا کیا ہے۔ اس سے مقامی
لوگوں کے ساتھ ساتھ مسلح افواج کو ضروری رابطہ کی سہولت ملی ہے۔ حکومت اس
مقصد کے لیے پرعزم ہے۔
اس بیان میں یہ پتہ نہیں چلتا کہ غیر قانونی چینی تعمیر کو روکنے کے لیے
نگرانی کے علاوہ کیا ٹھوس اقدام کیا جارہا ہے جبکہ چین پینگونگ جھیل کے
شمالی اور جنوبی کناروں کو جوڑنے والے پُل کا تعمیری کام کم از کم دو مہینے
سے کر رہا ہے۔ یہ پُل چینی فوج کے لیے معاون ہوگا اس لیے ہندوستان کی
سیکورٹی کی خاطر سنگین تشویش کا باعث ہے۔ موقر اخبار انڈین ایکسپریس نے چین
کی نیشنل پیپلز کانگریس کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے ذریعہ ’ملک کی زمینی سرحدوں
کے تحفظ اور استحصال سے بچاؤ‘ کے لیے منظور کیے جانے والے نئے قانون پر
تشویش کا اظہار کیا اور حالیہ واقعات کے تناظر میں اس موضوع پر اداریہ بھی
لکھا۔ اس قانون کی بابت چینی حکومت کا موقف یہ ہے کہ ’چین کی خودمختاری اور
علاقائی سالمیت مقدس اور ناقابل تسخیر ہے اور ان کے تحفظ کے لیے ریاست کو
اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، نیز قانون ریاست کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ
سرحدی علاقوں میں دفاع سمیت معاشی اور سماجی سرگرمیوں کو مضبوط کرنے کے لیے
اقدامات کرے اور وہاں پبلک سروسز اور بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کو بہتر
کرے۔‘
چینی سرکارکے مطابق اس قانون کا مقصد ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحد سے متعلق
معاملات کو بات چیت سے حل کرنا ہے تاکہ زمین کے حوالے سے تنازعے یا طویل
مدتی سرحدی تنازعات کو حل کیا جا سکے لیکن اس کی آڑ میں چینی حکومت اپنے
سارے غیر قانونی منصوبوں مثلاً مذکورہ پُل کی تعمیر کو جواز فراہم کرے گی ۔
اس قانون سے صدر شی جن پنگ کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا اور وہ بہ
آسانی تیسری بار عہدے پر منتخب ہوجائیں گے۔ اسی مقصد کے تحت ممکن ہے چین
کے صدر شی نے گذشتہ جولائی میں ارونا چل پردیش کی سرحد کے قریب تبت میں
واقع گاؤں کا دورہ بھی کیا تھا۔اس نئے قانون کے نفاذ کی خاطر چین پر مشرقی
لداخ کے تعطل پر مذاکرات کو روکنے کا بھی الزام لگ رہا ہے۔
دونوں پڑوسی ممالک کے کور کمانڈرز کی آخری ملاقات گزشتہ سال اکتوبر میں
ہوئی تھی اور ہندوستان پرامید تھا کہ چین ہاٹ سپرنگز میں پیٹرولنگ پوائنٹ
15 سے پیچھے ہٹنے پر راضی ہو جائے گا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا یہاں تک کہ
ملاقات کے بعد مشترکہ بیان بھی نہیں جاری کیا گیا جیسا کہ پہلے ہوتا تھا۔
اگلی مذاکرات کی تاریخ کا بھی ہنوز اعلان نہیں ہوا اور اب تو یہ مزید خدشات
کی شکار ہوگئی ہے۔ اس دوران بعض ’نام نہاد شہریوں‘ کے دمچوک میں حقیقی لائن
آف کنٹرول پر ہندوستانی علاقے میں خیمے لگانے کی خبر آئی جس کو خالی کرنے
سے چین نے انکار کر دیا۔ چین کا یہ نیا قانون اس کی اجازت کے بغیر سرحد کے
قریب مستقل بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر پابندی لگاتا ہے۔ اس طرح ہندوستان کے
ذریعہ اس علاقے میں تیزی سے تعمیر ہونے والی سڑکیں، پل اور دیگر سہولیات پر
بھی تنازع کھڑا ہوسکتا ہے۔
ہندوستانی فوج سے سبکدوش میجر جنرل اشوک کمار نے دسمبرمیں تھنک ٹینک سینٹر
فار لینڈ وارفیئر سٹڈیز کے لیے ایک تحریر میں لکھا تھا کہ نیا قانون ’چین
کی جانب سے بھارت اور بھوٹان کے ساتھ علاقائی حدود کا یک طرفہ طور پر تعین
اور حد بندی کرنے کی تازہ ترین کوشش ہے۔‘اس قانون میں بھارت کے لیے بہت
زیادہ مضمرات ہیں۔ متنازع زمینی سرحدوں کے ساتھ اور ان کے اندر تیزی سے 624
’جدید‘ دیہاتوں کی تعمیر کے پیش نظر یہ مسئلہ خالصتاً فوجی طریقے سے حل
کرنے کے بجائے قومی سطح پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی نے
’سرحدی تنازع فوجی طور پرحل کرنے کے حالات پیدا کر دیئے ہیں۔‘ یہ نیا قانون
چین کی جانب سے حقیقی لائن آف کنٹرول کے ساتھ سرحدی دفاع کے نام پر ’جدید‘
دیہات تعمیر کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
سرحدی تنازعات کے علاوہ چین نے اب ہندوستان کے داخلی معاملات میں بھی
مداخلت شروع کردی ہے اس کی تازہ مثال 22 دسمبر کو جلاوطن تبتی اراکینِ
پارلیمان کے زیر اہتمام نئی دہلی کے ایک عشائیے میں شرکاء پر اعتراض ہے۔ اس
تقریب میں ہندوستان کے متعدد ارکان پارلیمان نے بھی شرکت کی تھی۔ دہلی میں
چینی سفارت خانے نے اس پر گہری "تشویش" کا اظہار کرتے ہوئے ایک خط تحریر
کرکے ان سے کہا کہ وہ، "تبت کی آزادی کے لیے سرگرم قوتوں کو مدد فراہم کرنے
سے گریز کریں۔" ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے اس بابت غم
وغصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ، "اس خط کا مواد، لہجہ اور طریقہ کار غیر
مناسب ہے۔ چین کو یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت ایک فعال جمہوریت ہے اور عوام
کے نمائندے کے طور پر معزز اراکین پارلیمنٹ اپنے خیالات اور نظریات کے
مطابق سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔" انہوں نے چین سے توقع کی کہ وہ اراکین
پارلیمنٹ کی معمول کی سرگرمیوں کو میں دخل اندازی سے گریز کرے گا اور دو
طرفہ تعلقات کی صورتحال کو مزید پیچیدہ نہیں بنائے گا۔ اس بات کا امکان
ناپید ہے کہ چین پر اس نصیحت کا کوئی اثر ہو کیونکہ بقول علامہ اقبال؎
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|