جب کسی عوامی نمائندے کو یہ حق حاصل ہو جائے کہ وہ بھاری
مینڈیٹ سے منتخب ہونے کے بعد ایسا مطلق العنان حکمران بن جائے کہ جمہور کے
سوال کو گالی اور فریاد کو حریف کی چال سمجھے ، کشکول توڑنے کا دعوی کرے
مگر کشکول بردار بن کر ملکوں ملکوں گھومتا پھرے ،میرٹ کے دعوے بھلا کر آؤٹ
آف ٹرن بھرتیوں کووقت کی ضرورت اور مجبوری کہے، حلیفوں کے اللّوں تلّلوں پر
آنکھیں اور کان بند کر لے کہ جزا و سزا کا معیار ہی بدل دے ،بیروزگاری کے
واویلوں پر ڈھٹائی سے مضحکہ خیز بیانات داغے ، نقادوں کی تنقید کو اصلاح
نہیں بلکہ بغاوت قرار دے ،ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کا ایسا بول بالا
ہو کہ ہر طرف افراتفری ، عدم برداشت اور نفسا نفسی کا عالم ہو اور وہ میڈیا
پرمعاشی خسارے کے قصے سنائے ، سرکاری نوکریوں سے بچنے کی تلقین کرے اور
سرکاری اداروں کو بند کرنے کا عندیہ دے تو یقین کر لینا چاہیے کہ ’’یہ وقت
گزرنے والا ہے‘‘! حکومت آزمائش کا میدان ہوتی ہے ،اﷲ پاک مشکلوں،آزمائشوں
اور خدائی آفات کے ذریعے انسان کو جھنجھوڑتا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرلے اور
بہتر حکمت عملیاں ترتیب دے لے۔ایسے میں دور اندیش کانپ جاتے ہیں جبکہ غافل
اور زبان درازجواز تراشتے ہیں اور ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا کر وقت ٹالتے
ہیں جتی کہ اﷲ کا غضب نازل ہوجاتا ہے۔ایسوں کی داستانوں سے تاریخ بھری پڑی
ہے۔یاد رکھیں کہ آپ خلوص نیت سے جو بھی کرتے ہیں وہ اہم ہو سکتا ہے لیکن سب
سے اہم یہ ہے کہ آپ کچھ تو کریں جبکہ آپ سانحات کی پریس بریفنگ میں دانت
نکالتے ہیں اور جب ملکی حالات و واقعات پر بات کرتے ہیں تو لطیفے اور جگتیں
سناتے ہیں ۔سلطان صلاح الدین ایوبی سے پوچھا گیا کہ آپ کو کبھی ہنستے ہوئے
نہیں دیکھا ،سلطان نے تاریخی جواب دیا کہ ’’میں ڈرتا ہوں کہ روز قیامت اﷲ
تعالیٰ پوچھے گا کہ بیت المقدس غیروں کے قبضے میں تھا اور تم مسکرا رہے تھے
‘‘ !
اس انداز حکمرانی کو کیا کہیں کہ مری میں برف باری سے راستوں کی بندش کیوجہ
سے ہلاکتیں ہوئیں جس کے ذمہ داران‘ ٹورزم ڈیپارٹمنٹ اور دیگر متعلقہ ادارے
قابل گرفت ہیں لیکن اس مد میں کچھ نہیں کیا گیا اور اپوزیشن حسب عادت
گمراہی پروگرام لیکر آگے بڑھ رہی ہے۔ مقام افسوس تو یہ ہے کہ مصیبت کی اس
گھڑی میں اپوزیشن کی سرکردہ اور سب سے زیادہ واویلا کرنے والی جماعتوں نے
بھی کوئی قابل قدر کردار ادا نہیں کیا اگر کسی نے کچھ کیا ہے تو اس کی
ویڈیوز بنا کر عوام میں فنڈ ریزنگ اور تعاون کا دامن پھیلائے پھرتے ہیں
کیونکہ سیاسی جماعتوں کا کردار اخلاص سے تہی دامن ہے بس ٹامک ٹوئیاں مار تے
رہتے ہیں ۔ حیرت ہے کہ امدادی رقوم سمیت ایف بی آر نے ہدف سے زائد ٹیکس
وصول کیے علاوہ ازیں ناجائز ٹیکسوں میں بھی اتنی ریکوریاں ہوئیں لیکن حادثے
یا سانحے سے نپٹنے کے لیے کوئی جدید ٹیکنالوجی سامنے نہیں آئی ۔ہم بیلچوں
سے برف ہٹا تے رہے یہی کچھ آگ لگنے پر ہوتا ہے کہ ہم پائپوں سے پانی ڈالتے
رہتے ہیں ۔۔سوال تو یہ ہے کہ مشیران کیا کرتے ہیں وہ متوقع خطرات و حادثات
اور انتظامات کی طرف توجہ کیوں نہیں دلاتے؟ لیکن ایساتو مہذب ملکوں میں
ہوتا ہے کہ قدرتی آفات اور سانحات کو حکومتی سطح پر چیلنج سمجھا جاتا ہے
اپنی تمام خداداد توانائیاں اقدامات میں صرف کر دی جاتی ہیں جیسے دنیا اومی
کرون سے بچاؤ میں متحرک ہوچکی ہے مگر ہمارے انتظامات کا احوال سب کے سامنے
ہے کہ کوئی اومی کرون میں مبتلا شخص دوسرے ملک سے آبھی گیا تو ہمیں پتہ
نہیں چلے گا جیسا کہ پہلے پتہ نہیں چلا تھا کہ کورونا کیسے آگیا ؟مسئلہ یہ
ہے کہ ہم جن کی مثالیں دیتے ہیں وہ قومیں آپسی رنجشوں اور سیاسی اکھاڑ
پچھاڑ میں وقت ضائع نہیں کرتیں اور نہ وہاں فیوڈل سسٹمز ہیں کہ ذہنی غلام
ہر ظلم و زیادتی پر خاموش بیٹھے رہیں بلکہ بیکار منصب داروں کو اٹھا کر ڈسٹ
بن میں پھینکتے ہیں کیونکہ وہاں اخلاص پر مبنی جمہوریت ہے جس میں جمہور کو
احتساب کا کماحقہ حق حاصل ہے ۔خان صاحب نے وعدہ توکیا تھا کہ وہ تبدیلی
لائیں گے مگر ان کا بس ہی نہیں چلتا اس پرخاموشی۔۔ معنی خیز ہے جیسے سانپ
سونگھ گیا ہو بایں وجہ غریب دلبرداشتہ ہو گیاہے اور برملا نفرت کا اظہار کر
رہا ہے جبکہ ترجمان کہہ رہے ہیں کہ غریب موجودہ دور حکومت میں اتناخوشحال
ہوا ہے جتنا 70 برسوں میں نہیں تھا بس مخالفین کو ترقی ہضم نہیں ہو رہی
یقینا اچھے دن آچکے ہیں بس دھند کیوجہ سے نظر نہیں آتے ۔ایسی عوامی طنزیہ
تنقیدی پوسٹوں کیوجہ سے پی ٹی آئی سوشل میڈیا کو جکڑنے کے لیے قوانین بناتی
رہتی ہے لیکن سرا ہاتھ نہیں آتا۔۔ویسے یہی وہ میڈیا ہے ناں! جس نے رائے
عامہ ہموار کی اور کرسی تک پہنچایا توخان صاحب نے سوشل میڈیا کو شعور کا
ذریعہ قرار دیاتھا لیکن اب لگام ڈالنا ضروری ہے کیونکہ آئینہ دکھا تاہے کچھ
چھپتا نہیں !کیا آئینے توڑنے سے بد صورتی چھپ جاتی ہے ؟ کیا شعور کا گلہ
گھونٹنے سے سوچ کا دھارا بدل جاتا ہے ؟ کیا سچ کا سر قلم کرنے سے جھوٹ فتح
یاب ٹھہرتاہے ؟ یہیں سے تو انقلاب شروع ہوتا ہے ،یہی وہ منزل ہے ،جب ظلمت
کدوں میں گھنٹیاں بجتی ہیں، بت ٹوٹ گرتے ہیں، مؤذن کی صدا بلند ہوتی ہے اور
ظالم پناہ مانگتا ہے پھر ایک داستان جنم لیتی ہے جو دوسروں کے لیے عبرت
ٹھہرتی ہے ۔وقت کا پہیہ تیز گھومتا ہے جس میں سب سے کم وقت حاکم کے پاس
ہوتا ہے کہ وہ اقتدار کو آزمائش سمجھے اور ایسے کام کرے جو رہتی دنیا تک
یاد رکھے جائیں تو آپ نے عام آدمی کے لیے ابھی تک کیا کیا ہے ۔۔؟ریاست
مدینہ بنانے کے دعوے کئے تھے تو کبھی کسی غریب بستی کا دورہ ہی کر لیتے کہ
حضرت عمرؓ بھیس بدل کر رات کو گشت کرتے تھے تاکہ عام آدمی کی حالت سے با
خبر ہو سکیں ۔غریب ریاست کا اصل چہرہ ہوتا ہے اگر وہ خوشحال ہو تو ریاست
خوشحال ہوتی ہے ۔ بے ضرر تحریریں اور سوشل میڈیائی شکوے آپ کا کچھ نہیں
بگاڑ سکتے البتہ غریب کی خاموش آہیں جو عرش الہی تک پہنچ رہی ہیں اس سے آپ
سب کی دنیا و آخرت پچھتاوا بن جائیں گی اگر اب عام آدمی کے لیے کچھ نیا، نہ
کیا گیا اس لیے عمران خان کو چاہیے کہ ایک مرتبہ اپنے مشیران کو تبدیل کر
کے دیکھے شاید کے نتائج بہتر ہوجائیں اور تبدیلی آجائے ۔۔۔
|