ایسا لگتا ہے کہ ملک میں جنگل کا
قانون نافذ ہے ، ایک عام شہری کچھ بھی سمجھ نہیں پا رہا کہ اس سر زمین پر
کیا ہو رہا ہے ؟ اپوزیشن ہو یا حکمران پارٹی سب ہی قومی وحدت کو پارہ پارہ
کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور عوامی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے ۔
ایک عجیب طرح کا طوفان بد تمیزی اورکچھ سمجھ میں نہ آنے والی ڈرامے بازی
جار ی ہے ۔ ایساگمان ہوتا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش اور پلان کے تحت وطن
عزیز کو (Destablize) متزلزل کیا جارہا ہے۔ ایک جانب تو حکمرانوں اور بے
رحم افسر شاہی کی طرف سے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے تو دوسری طرف یہی
حکمران اپنی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ملک کے
عدالتی نظام کے ساتھ نبر د آزما ہیں اور اسے چیلنج کرتے آرہے ہیں ۔
حکمرانوں اور اپوزیشن کی پالیسی ایک” طرفہ تماشا“ ہے جسے عوام الناس شاید
کبھی بھی سمجھ نہ پائیں۔ ذاتی مفادات کے اسیر ہی اقتدار کے ایوانوں میں
براجمان نظر آتے ہیںجو حکمت و دانش سے بہت دور ہو کر اپنی کور نگاہی سے
زمانے کا امن اجاڑ رہے ہیں۔یوں تومملکت خدادادکا سارا سسٹم ہی ناکارہ ہوتا
نظر آتا ہے اور جوں تو ں کر کے اس دھرتی کے شہری ایام زیست بسر کر رہے ہیں
تاہم معاشرے کی بقاءو سلامتی کے لیے ”امن“ جیسی چیز ہی عنقا ءہو جائے تو
پھر کسی بڑے انسانی المیے کا گمان ہوتا نظر آتا ہے ۔ حکمران طبقہ آج سے
نہیں قیام وطن سے ہی بری طرح سے مالی سکینڈلز کرتا چلا آرہا ہے لیکن موجودہ
دور میں عوام کے لیے سب سے تکلیف دہ بات صرف یہی ہے کہ اب اس لوٹ اور چور
بازار ی میں قتل و غارت گر ی کا عنصر بھی شامل ہو چکا ہے اور شہریوں کو
انہی کی دہلیز پر قتل کیا جا رہا ہے ۔ شہر کا حاکم ان کے حالات سے بے خبر
جب کہ بھاری بھر کم فنڈز ہڑپ کرنے والے قانون کے محافظ ادارے لمبی تان کر
سو رہے ہیں ۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ ملک بھر میں قتل و غارت گری اور کرائم
کی شرح میں خطر ناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے اور بالخصوص شہر قائد اور پارا
چنار جیسے علاقوں کو شرپسندوں نے مقتل گاہ میں تبدیل کر دیا ہے ۔ ملک کا سب
سے بڑا معاشی مرکز کراچی شہریوں کے خون ناحق سے لہو لہو ہے ،منی پاکستان کے
حالات سے تو بالکل ایسا دکھائی دے ر ہا ہے کہ وہاں پر تمام قانون نافذ کرنے
والے ادارے مکمل طور پر فلاپ ہو چکے ہیں اور مسلح جتھوں نے اس شہر کے کوچہ
و بازار کو اپنے پنجوں میں کس لیا ہے ۔ روشنیوں کے شہر کی تیزی سے مخدوش
ہوتی صورتحال نے اس کے باسیوں کو بری طرح سے ہراساں اور ماحول کو سراسیمہ
بنادیا ہے ۔ایک سال پیشتر تک تو کراچی کے حالات کو طالبان کے کھاتے میں ڈال
کر معاملہ” داخل دفتر“ کرنے کی پالیسی اپنائی جاتی رہی ۔ لیکن اب کون لوگ
ہیں جو شہر بھر میں موت بانٹتے پھرتے ہیں۔۔۔۔؟ یہ موت کے سوداگر کیوں اس
قدر طاقت اور زور پکڑ چکے ہیں کہ سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود بھی سب کی
زبانیں مقفل ہیں۔۔۔؟ کوئی مانے یا نہ مانے یہ بات اب تلخ حقیقت کا روپ دھا
ر چکی ہے کہ” تین جماعتی “کشمکش ہی اس سارے فساد کی جڑ ہے اوراس کشت و خون
کے کاروبار میں ایم کیو ایم ، اے این پی اور پی پی پی کے قصے زبان خلق پر آ
گئے ہیں۔
کراچی کے حالات کیوں اور کیسے خراب ہوئے ۔۔۔؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ضمن میں
کسی لمبے چوڑے تبصروں ، تجزیوں کی اس لیے بھی ضرورتً نہیں رہتی کیوں کہ
ہماری نااہل ، ژولیدہ فکر اور سیاسی تدبر سے یکسر عاری قیادت کے بیانات
حقیقت حال بیان کردینے کے لیے کافی ہیں۔ یہ بات اب زبان زد عام ہے کہ سابق
وزیر داخلہ سندھ ذو الفقار مرزا کے ایک ایک بیان پر کراچی میں پچیس سے تیس
تک بے گناہ انسانی لاشیں گر جاتی ہیں اوروہ دوسرے ہی دن قوم سے معافی مانگ
لیتے ہیں ، حالات جونہی کچھ بہتر ہونا شروع ہو تے ہیں تو وہ پھر سے اپنے آگ
اگلتے بیانات سے شہر کو جلا کر بھسم کر دیتے ہیں کچھ اسی طرح کا حال ہمارے
وفاقی وزیر داخلہ عبد الرحمٰن ملک اورشاہی سید وغیرہ کا ہے جن کی نا
تراشیدہ گفتگو سے پل بھر میں آگ کے شعلے بلند ہونے لگتے ہیں ۔ ان سیاسی
پارٹیوں میں کوئی ایک بھی ایسا ”رجل الرشید“ نہیں جو معاملے کی نزاکت کا
احساس کرتے ہوئے حالات کی بہتری کے لیے رول ادا کرپائے ۔ کراچی کے اس خونی
منظر نامے کا ذکر کرتے ہوئے اگر پارا چنار کے حالات پر خامہ فرسائی نہ کی
جائے تو یہ یقینا بہت بڑا ظلم ہو گا اور قلم کے ساتھ ناانصافی ہوگی ۔ وطن
عزیز کی مغربی سرحدوں کے قریب واقع علاقہ پارا چنار اور اس کے گردو پیش کی
کہانی تو بہت ہی دل فگارہے جو اپنے اندر نالہ و شیون کی ایک ایسی فریاد لیے
ہوئے ہے جسے سن کر انسان مایوس سا ہوجاتا ہے ،دکھ اس بات کا بھی ہے کہ
پاکستان کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس علاقے کے خونی حالات کی صحیح معنوں
میں رپورٹنگ نہیں کر پا رہا ۔ یہاں کے باہمت اور غیرت مند مسلمان گزشتہ کئی
سالوں سے دہکتی ہوئی آگ میں جھلس رہے ہیں اور ایک سازش کے تحت ان پر عرصہ
حیات تنگ کیا جا رہا ہے ۔ یہاں کے مظلوم مسلمانوں نے ان مہ و سال میں ظلم و
ستم کا خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا، انہیں جان مال اور اپنے اہل وعیال کی قربانی
دینا پڑی مگر قربان جائیے ان غیور مسلمانوںپر کہ انہوں نے بڑی سے بڑی
قربانی دینا گوارا کر لی مگر اپنی دھرتی ، اپنی مٹی کا ایک انچ بھی اسلام
اور وطن پر حملہ آور قوتوں کے ہاتھ نہیں جانے دیا۔ گزشتہ دنوں اسی دہکتی
وادی سے دوستوں نے رابطہ کیا ، میرے یہ احباب پارا چنار کے انتہائی گھمبیر
حالات کی تفصیلات بتاتے چلے گئے اورراقم السطور قلب و جگر تھامے حیرت و
استعجاب کے سمندر میں ڈوبتا چلا گیا۔ پاکستان کے شہری ارباب اقتد ار کی اس
سرد مہری اور بے اعتنائی پر انگشت بدندان ہیں کہ ایک ایسا خطہ جو عرصہ دراز
سے آگ و خون میںدہک رہا ہے وہاں پر حکومتی رٹ بزور بازو کیوں قائم نہیں کی
جاتی اور شر پسند عناصر کو قانون کی گرفت میں کیوں نہیں لایا جاتا ۔۔۔۔؟
بارہا ایسا ہوا کہ ان فسادات میں پاکستانی آرمی کی بروقت مداخلت پرایک
پڑوسی ملک کے کمانڈوز پکڑے گئے جنہیں بعد میں رہا کر دیا گیا۔ فیڈرل
ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے مطابق اب تک ان فسادات میں ساڑھے چارہزار سے زائد لوگ
مار ے جا چکے ہیں جب کہ فریقین نے ایک دوسرے کے پینتالیس سے زائد دیہات نذر
آتش کیے ہیں اور اس لڑائی کے دوران ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے
۔ پارا چنار ،کراچی کے ان انتہائی ناگفتہ بہ حالات اور مخدوش تر ہوتی
صورتحال کا ایک سر سری سا جائزہ لینے کے بعد سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیایہ
علاقے پاکستان کا حصہ نہیں جو ان کے ساتھ اسقدر بے مروتی اور بے اعتنائی
برتی جارہی ہے اور خطے میں جاری کشت و خون کو روکنے میں کوئی ٹھوس پالیسی
کیوں نہیں اپنائی جا رہی ؟کیا اس علاقے کے لوگ پاکستان کے شہری نہیں جنہیں
غیر ملکی طاقتیں اور دہشت پسند جماعتیں گاجر مولی کی طرح کاٹ رہی ہیں مگر
قانون کی حکمرانی کا دور دور تک نام و نشان نہیں ؟ کراچی کی طرح پارا چنار
کے شہری بھی حکمران طبقے سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہماری سر زمین جو ایک لمبے
عرصے سے فسادات کی آگ کی لپیٹ میں ہے ، مراکز صحت تباہ و برباد ہو چکے ہیں
۔ہسپتالوں ،ڈسپنسریوں میں ڈاکٹر ز کی قلت ہے اور وہاں انسانیت سسک سسک کر
دم توڑ رہی ہے ، سڑکوں اوراہم شاہراہوں کی بندش کی وجہ سے اشیائے خوردو نوش
اور ادویات تک دستیاب نہیں ہیں اور یہ علاقہ عملی طور پر تمام ملک سے کٹ
چکا ہے وہاں حکومتی رٹ کب اور کیسے بحال ہوگی اور امن کی فاختہ کب اس خطے
میں واپس لوٹے گی۔۔۔؟کراچی ، پاراچنار ، بلوچستان میں جب موت کا رقص دیکھتا
ہوں تو زبان پرناصر بشیر کا یہ شعر آنے لگتا ہے۔
ناصر بشیر کس کی نظر گھر کو کھا گئی
سایہ سا بچھ گیا ہے میرے آنگن میں خوف کا |