پاکستان میں فوجداری نظام سراسر بے انصافی اور عدم مساوات
پر مبنی دکھائی دیتاہے۔امیر کیلئے اور قانون ہے اور غریب کیلئے اور۔سائل جو
نظام انصاف کا مرکزی نقطہ ہے اور ریاست کے تمام ادارے سائل کی داد رسی
کیلئے تشکیل دیے گئے ہیں، وہی اس کی منزل کھوٹی کرنے میں اپنا کردار ادا
کرتے ہیں۔یہاں پر مجرم یا ملزم قانون کا گویا لاڈلا بچہ ہے اور سائل یا
مدعی دربدر ٹھوکریں کھاتا ہے۔ان حقائق کی روشنی میں جب یہ خوش کن خبر سننے
کو ملی کہ ملک میں فوجداری قوانین میں نئی ترامیم لائی جارہی ہیں تو یقیناً
یہ خبر تازہ ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہوئی۔تازہ ترین معلومات کے مطابق وفاقی
حکومت نے ضابطہ فوجداری، تعزیرات پاکستان اور قانون شہادت میں 700 کے قریب
ترامیم کے ایک مسودے کی منظوری دی ہے اور اسے جلد پارلیمان کے دونوں
ایوانوں میں پیش کیا جائے گا۔ یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ پاکستان میں
رائج فوجداری قوانین تقریباً 120 سال پرانے ہیں۔ضابطہ فوجداری 1898 کا مرتب
شدہ ہے جبکہ پینل کوڈ 1860 میں تشکیل دیا گیا۔ حکومتی ذرائع کا یہ بھی کہنا
ہے کہ ان ترامیم کی تیاری میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے رائے لی گئی۔ان ترامیم
کے چیدہ چیدہ نکات کے مطابق ایف آئی آر کا فوری اندراج یقینی بنایا
گیاہے۔ایف آئی آر کیلئے سیشن جج کی عدالت میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 22 a
کے تحت اندراج مقدمہ کی درخواست دی جا سکتی ہے۔یاد رہے یہ ترمیم سابق صدر
جنرل پرویز مشرف کے دور میں لائی گئی تھی جس کے تحت سیشن جج کو بھی اندراج
مقدمہ کا اختیار دیا گیا تھا۔سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے یہ ضابطہ
ختم کرنے کی سفارش کی تھی لیکن وکلا تنظیموں کے احتجاج کے بعد یہ بیل منڈھے
نہ چڑھ سکی۔دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ تفتیشی افسر کو پابند کیا گیا کہ وہ
مقدمے کا چالان 14 دن کے بجائے 45 روز میں جمع کروائے۔لیکن وہ چالان نا
مکمل نہیں ہونا چاہیے۔پرانا معمول یہ ہے کہ ایک نامکمل چالان پیش ہوتا ہے
پھر طویل مدت کے بعد مکمل چالان داخلِ عدالت کرایا جاتا ہے۔تیسرا اہم نکتہ
یہ ہے کہ اگر کسی مقدمہ میں ملزم اشتہاری ہوجائے تو متعلقہ عدالت کے پاس یہ
اختیار ہوگا کہ وہ اس شخص کا بینک اکاؤنٹ اور پاسپورٹ ضبط کر سکتی
ہے۔چوتھا نکتہ ایس ایچ او کی تعیناتی کے حوالے سے ہے کہ کسی تھانے میں بھی
ایس ایچ او لگانے والے افسر کی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ اسکی تعلیم
بی اے سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ان ترامیم کا پانچواں اہم نکتہ یہ ہے کہ وڈیو
اور آڈیو بیان کو مستند شہادت کے طور پر قبول کیا جاے۔ساتواں نکتہ یہ ہے
کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 اور 164 کے تحت دیے گیے بیان کی ویڈیو بنائی
جائے گی اور سماعت کے دوران اس وڈیو کو بطور شہادت پیش کیا جائے گا۔آٹھویں
تجویز یہ پیش کی گئی ہے کہ گواہ کو تحفظ فراہم کیا جائے گا اور اگر گواہ
عدالت میں حاضر نہ ہو تو عدالت گواہ کی جائیداد بھی ضبط کر سکتی ہے۔ نویں
اور سب سے اہم تجویز یہ ہے کہ عدالت کو پابند کیا جائے گا کہ وہ فوجداری
مقدمات کا فیصلہ 9 ماہ میں جبکہ سول نوعیت کے مقدمات کا فیصلہ ایک سال میں
کرے۔اگر متعلقہ عدالت مذکورہ وقت میں مقدمے کا فیصلہ نہیں کرتی تو اس صوبے
کی ہائی کورٹ جواب طلبی بھی کر سکتی ہے اور اطمینان بخش وجوہات نہ دینے کی
صورت جج کے خلاف انضباطی کارروائی کی جاسکتی ہے۔جس طرح کہ ابتدا میں عرض
کیا کہ ان ترامیم کی تعداد 700سے زائد ہے۔جن میں سے چیدہ چیدہ نکات آپ کے
سامنے پیش کردیئے گئے ہیں۔ان تجاویز کو اگر زمینی حقائق کی کسوٹی پر پرکھا
جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس سے ملتے جلتے قوانین پہلے سے موجود ہیں
لیکن عمل درآمد کا فقدان ہے۔راقم قانون کا طالبعلم ہونے کے ساتھ عملی
سیاست کا بھی طالبعلم ہے اس لیے زمینی حقائق کے مطابق کچھ تجاویز پیش خدمت
ہیں۔پہلی تجویز یہ ہے کہ ماتحت عدلیہ میں ججز کی تعداد میں اضافہ کیا
جائے۔سول عدالتوں میں ایک جج کے سامنے روزانہ ڈیڑھ سو سے زائد مقدمات پیش
ہوتے ہیںتو یہ کیسے ممکن ہو گا کہ اتنے زیادہ مقدمات کا فیصلہ چند دنوں میں
ہو جائے۔ اس کے لیے سب سے اہم کام یہ ہے کہ ماتحت عدالتوں میں ججز کی تعداد
میں اضافہ کیا جائے۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ تفتیشی افسران کو مقدمہ اخراجات
کی ادائیگی یقینی بنائی جائے۔اگرچہ اسٹیشنری اور اخراجات فراہم کرنے کا
قانون پہلے سے موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آتی ہے۔اندراج
مقدمہ سے لے کر چالان داخل کرنے تک بلاشبہ خطیر رقم خرچ ہوتی ہے، جسے پولیس
افسر اپنی تنخواہ سے تو پورا نہیں کر سکتا اور یہیں سے کرپشن کا راستہ
کھلتا ہے۔اگر حکومت اس عمل میں مخلص ہے تو تفتیشی افسران کے لیے مختص رقم
میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ وہ رقم اس
تفتیشی افسر تک پہنچ جائے۔تیسری تجویز یہ ہے کہ بوگس مقدمات کے اندراج پر
سزا کے قانون پر عمل ہو۔اگرچہ سزا میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے لیکن اگر
سابقہ قانون پر بھی عملدرآمد ہو جائے تو غلط مقدمات کا اندراجِ ختم ہو
سکتا ہے۔چوتھی تجویز یہ ہے 22a کے تحت اندراج مقدمہ کے لیے سیشن جج کو دیا
گیا اختیار محدود تر کیا جائے اور اسے عدلیہ کے بجائے پولیس تک محدود کر
دیا جائے اس سے عدلیہ پر کام کا بوجھ کم ہوگا اور کارکردگی میں مزید بہتری
آئے گی۔پانچویں تجویز یہ ہے پولیس کی نفری میں اضافہ کیا جائے اور استعداد
کار بہتر بنائی جائے۔موجودہ نفری کے ساتھ نہ تو جرائم پر قابو پایا جا رہا
ہے اور نہ ہی مقدمات یکسو ہو رہے ہیں۔چھٹی اور آخری تجویز یہ ہے کہ وکلاء
کو اعتماد میں لیا جائے۔وکلاء کی سب سے بڑی تنظیم سپریم کورٹ بار ایسوسی
ایشن نے ان قوانین پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، وکلاء کو اعتماد میں لیے
بغیر اگر یہ قوانین بنائے گئے تو اس میں عملی رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔
|