نیتا جی سبھاش چندر بوس اور سنگھ پریوار

وزیر اعظم نے کولکاتہ کے اندر اپنے خطاب میں کہا کہ ’’نیتا جی کی 125 ویں یوم پیدائش پر میں قوم کی طرف سے انھیں سجدہ کرتا ہوں۔ آج میں بنگال کی اس سرزمین کو بھی سلام پیش کرتا ہوں، جس نے سبھاش کو ’’نیتا جی‘‘ میں تبدیل کردیا‘‘۔ عوام کی یادداشت چونکہ بہت محدود ہوتی ہےاس لیے ان کو ماضی کی ہستیوں کے نام تو یاد رہ جاتے ہیں لیکن ان کے افکار و نظریات کو بھلا دیا جاتاہے۔ اس کے علاوہ ان کے اہم فیصلوں اور کارنامے بھی تاریخ کے صفحات میں کھو جاتے ہیں ۔ سنگھ پریوار کو اگرسبھاش چندر بوس کے افکارو خیالات یاد ہوتے تو وزیر اعظم نریندر مودی کے اس خراج عقیدت پر اسی ردعمل کا اظہار کرتا جو لال کرشن اڈوانی کے قائد اعظم محمد علی جناح کی تعریف و توصیف کے کے بعد ہوا تھا لیکن برا ہو عوام کی جہالت اور سنگھ کی ابن الوقتی کا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہندوتوا وادیوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس نے جنگ آزادی کے دوران بزدلی کا ثبوت دیتے ہوئے کنی کاٹ لی اس لیے آج اس کو سردار ولبھ بھائی پٹیل اور سبھاش چندر بوس جیسے کانگریسی رہنماوں کی پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے کیونکہ ونائک دامودرساورکر سے لے کر شیاما پرشاد مکرجی تک سب انگریزوں کے وفادار تھے ۔


ڈاکٹر شیاما پرشاد مکرجی دراصل بھارتیہ جن سنگھ کے بانی تھے۔ وہ آزادی سے قبل 1943 سے لے کر 1946 تک ہندو مہا سبھا کے بھی صدر تھے لیکن پھر چولہ بدل کر پنڈت نہرو کی کابینہ میں مرکزی وزیر بن گئے ۔ نہرو لیاقت معاہدے کے بعد یہ بلی کی مانند تھیلے سے باہر آ کر انہوں احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ آر ایس ایس نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مکرجی نامی آرزو مند مچھلی کو اپنے جال میں پھنسا کر ان کی قیادت میں 1951 کے اندر بھارتیہ جن سنگھ قائم کردی ۔ اس میں دونوں کا فائدہ تھا کیونکہ گاندھی جی کو قتل کروانے کے بعد ہندو مہاسبھا اپنی موت آپ مرچکی تھی سنگھ کو ایک تجربہ کار کسان مل گیا تھا ۔ جن سنگھ کا چراغ (پارٹی نشان)ایمرجنسی تک کسی طرح جلتا رہا لیکن جب اندرا گاندھی نے اس پر ہاتھ ڈالا تو یہ لوگ پھر سے ڈر گئے اور 1977 کے اندر ان بزدلوں نے اپنی جماعت کو جنتا پارٹی میں ضم کردیا ۔ ان کو خوش فہمی تھی کہ اندر ہی اندر جنتا پارٹی کھوکھلا کرکے وہ اس پر قبضہ کرلیں گے لیکن جب یہ ناممکن ہوگیا تو الگ ہوگئے اور 1980 میں اٹل بہاری واجپائی کا مکھوٹا پہن کر بی جے پی کا روپ دھارن کر لیا ۔

شیاما پرشاد مکرجی کا تعلق مغربی بنگال سے تھا ۔ ایک زمانے میں سنگھ پریوار سرینگر کے اندر ان کی موت کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی خوب کوشش کرتا تھا لیکن حیرت کی بات ہے کہ اب یہ احسان فراموش لوگ اپنی پارٹی کے بانی مبانی کو بھول کر انتخابی فائدے کے لیے سبھاش چندر بوس کی قدم بوسی فرمارہے ہیں ۔ نیتا جی کے زمانے میں آر ایس ایس انگریزوں سے عتاب سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو ثقافتی تنظیم کہتی تھی اور جن سنگھ کا تو وجود ہی نہیں تھا مگر ہندو مہا سبھا موجود تھی اس لیے سبھاش چندر بوس نے اس کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اور لکھا ہے اس کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ سبھاش چندر بوس دو مرتبہ کانگریس کے صدر منتخب ہوئے ۔ انہوں نے ہمیشہ ہی ہندو مہاسبھا کا ذکر مسلم لیگ سے پہلے کیا اور انہیں کے دورِ صدارت میں کانگریسی رہنماوں کو مہاسبھا کی رکنیت چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔

4مئی 1940کے فارورڈ بلاک نامی جریدے میں بوس نے اداریہ کے اندر لکھا کہ ایک طویل عرصہ تک کانگریس کے اہم رہنما ہندو مہا سبھا اور مسلم لیگ جیسے فرقہ پرست تنظیموں کے بھی رکن ہو اکرتے تھے لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔ یہ فرقہ پرست تنظیمیں پہلے کی بہ نسبت زیادہ فرقہ پرست ہوچکی ہیں۔ اس کے ردعمل میں کانگریس نے اپنے دستور اس شق کا اضافہ کیا ہے کہ ہندو مہا سبھا اور مسلم لیگ جیسی کسی فرقہ پرست تنظیم کا رکن کانگریس کی کی منتخبہ کمیٹی میں شامل نہیں ہوسکتا۔ شیاما پرشاد مکرجی نے خود اپنی ڈائری میں یہ لکھا ہے کہ جب وہ ہندو مہاسبھا میں شامل ہوکر اسے بنگال کے اندر ایک سیاسی قوت بنانے میں مصروف تھے تو بوس نے ان سے مل کر کہا تھا کہ وہ اس کی پیدائش سے اسے قبل توڑ دیں گے اور اس کے لیے اگر طاقت کی ضرورت پڑے گی تو اس کا استعمالکرنے سے بھی گریزنہیں کریں گے۔ اس تناظر میں ایسا لگتا ہے کہ فی الحال ممتا اپنے سیاسی بقاء کی خاطر نیتا جی کے نقشِ قدم پر چل رہی ہیں ۔

سبھاش چندر بوس نے شیاما پرشاد مکرجی سے جو کچھ کہا وہ کوئی گیدڑ بھپکی نہیں تھی ۔ اس بابت مکرجی کے بعد جن سنگھ کی صدارت پر فائز ہونے والے بلراج مدھوک اس دور کا ایک واقعہ لکھتے ہیں جب وہ دونوں ہندو مہا سبھا میں تھے ۔ شیا پرشاد مکرجی نے ایک جلسہ رکھا تو سبھاش چندر بوس نے اسے بزور قوت منتشر کرنے اور مہا سبھا کے ارکان کو زدوکوب کرنے کی دھمکی دے دی ۔ مکرجی نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا اور مدھوک کو تقریر کرنے کے لیے کھڑا کردیا ۔ جیسے ہی خطاب کا آغاز ہوا ایک پتھر ان کے سرپر لگا اور تیزی کے ساتھ خون بہنے لگا۔ اس سے پتہ چلتا ہے بنگال کی سیاست میں تشدد کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ بوس اور ساورکر کے نظریاتی اختلاف کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس وقت نیتا جی انگریزوں سے لڑنے کے لیے آزاد ہند فوج بنارہے تھے اور انگریز ان کے جانی دشمن بن گئے تھے تواس کے برخلاف ساورکر انگریزوں کے ساتھ اپنی وفاداری کا اظہار کرکے ہندووں کو انگریزی فوج میں شامل ہونے کی ترغیب دے رہے تھے ۔ بی جے پی والے یہ تو کہتے ہیں کہ نہرو کے بجائے سبھاش چندر بوس کو وزیر اعظم بن جاتے تو ہندوستان کا نقشہ مختلف ہوتا لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اگر اقتدار کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں آجاتی تو وہ ان لوگوں کی کیا درگت بناتے؟

وزیر اعظم نریندر مودی نے نیتا جی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی زندگی، کام اور فیصلوں نے سب کو متاثر کیا ہے۔ ایسی پرُ عزم شخصیت کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں تھا۔ ترنمول کانگریس یہ بات سمجھ رہی تھی کہ بی جے پی کی یہ ڈرامہ بازی انتخابی مہم کا ایک حصہ ہے ۔ اس کے اثرات زائل کرنے کی خاطر وزیر اعظم کے دورے سےایک دن قبل ممتا بنرجی نے بوس کی یوم پیدائش منانے کے لیے کولکاتا میں ایک بہت بڑی ریلی کا اہتمام کیا ۔ اس میں بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان کی پارٹی صرف انتخابات کے سالوں میں ہی نیتا جی کی برسی نہیں مناتی۔ انہوں نے سوال کیا کہ بی جے پی نے پہلے کبھی بوس کا یوم پیدائش منانے کا اہتمام کیوں نہیں کیا؟ اور اسے ان کے لیے کوئی یادگار تعمیر کرنے کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا؟ ممتا نے کہا اگر مرکزی حکومت کو بوس کی یوم پیدائش کا پاس و لحاظ ہے تو اس نے قومی تعطیل کا اعلان کیوں نہیں کیا ؟ سبھاز چندر بوس کی پناہ میں آنا دراصل سنگھ پریوار کی خواہش نہیں بلکہ انتخابی مجبوی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے مجبوری ان سے کیا کیا نوٹنکی کرواتی ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449591 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.