دوپہرکا وقت ہونے کو تھا شہرکی تمام بڑی مارکیٹیں
بندتھیں رابرٹ مائیکل نے پریشان ہوکرپوچھا کیا آج سٹرائیک ہے؟ میں نے نفی
میں سرہلایاتو اس نے ایک نیا سوال کرڈالا ’’توپھریہ دکانیں کیوں بند ہیں؟
میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا وہ کچھ بڑبڑایا
میں نے پوچھ ہی لیا کہ اب کیا پریشانی ہے ؟
اس نے پریشانی کے عالم میں اضطراب سے کہا’’یار میری تو فلائیٹ نکل جائے گی
ابھی شاپنگ میں نے شروع بھی نہیں کی یار دوست ،اہلیہ ،بچے ناراض ہو جائیں
گے کہ پاکستان سے ہمارے لئے کوئی گفٹ کیوں نہیں لائے؟
میں نے اس کی باتیں سن کر ایک آہ بھری اور کہا کیا بتائیں ہم فیشن زدہ
ہوگئے ہیں
’’فیشن زدہ ۔۔اس کے لہجے میں حیرت تھی
’’ تم دوپہرکے وقت دکانیں کھولنے کو فیشن کہتے ہو رابرٹ مائیکل نے اس
اندازسے کہا جیسے وہ کاٹ کھانے کے درپے ہو تمہارا مذہب کو صبح صادق اٹھنے
کاحکم دیتاہے پھر تم مسلمانوں نے اپنے اوپریہ نحوست کیوں سوارکررکھی
ہے؟کیاتم نہیں جانتے پچانوے فیصد سے زیادہ امریکی رات کا کھانا سات بجے تک
کھا لیتے ہیں آٹھ بجے تک بستر میں ہوتے ہیں اور صبح پانچ بجے سے پہلے بیدار
ہو جاتے ہیں بڑے سے بڑا ڈاکٹر چھ بجے صبح ہسپتال میں موجود ہوتا ہے پورے
یورپ امریکہ جاپان آسٹریلیا اور سنگاپور میں کوئی دفتر، کارخانہ، ادارہ،
ہسپتال ایسا نہیں جہاں اگر ڈیوٹی کا وقت نو بجے ہو میں نے مشاہدہ کیا ہے
تمہارے ملک میں ڈیوٹی کاوقت9بجے ہے تو لوگ ساڑھے نو بجے تک بھی نہیں آتے !
آجکل چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن چکی ہے پوری قوم صبح چھ سے سات بجے
ناشتہ اور دوپہر ساڑھے گیارہ بجے لنچ اور شام سات بجے تک ڈنر کر چکی ہوتی
ہے اور تم طوائفوں کی طرح راتوں کوجاگتے ہو اور دن کا سونا معمول ہے
’’یار رابرٹ مائیکل نے میرے کندھے پر زور سے ہاتھ مارکرکہاتم بربادہورہے ہو
اور مطلق احساس بھی نہیں اب میں سمجھا پاکستان ترقی کیوں نہیں کررہا؟
میں نے شرمندگی سے سرجھکالیا میں سوچنے لگا ہم تباہ ہورہے ہیں تو یقینا
تباہی ایک دن میں نہیں آ جاتی میری نگاہوں کے سامنے تاریخ کے ا وراق فلم کی
مانندگردش کرنے لگے یہ 1850ء کا زمانہ ہے دلی میں صبح کے ساڑھے تین بجے
کاوقت ہوگا کہ سول لائن میں بگل بج اٹھا ہے پچاس سالہ کپتان رابرٹ اور اس
کے اٹھارہ سالہ لیفٹیننٹ ہینری کی پھرتی دیدنی تھی وہ آنکھیں ملتے ہوئے
اپنے بستروں سے اٹھ بیٹھے انہی پر موقوف نہیں ایک دو گھنٹوں کے اندر اندر
طلوع آفتاب کے قریب انگریز سویلین بھی بیدار ہو کر ورزش کر رہے تھے انگریز
عورتیں گھوڑ سواری کو نکل جاتیں سات بجے انگریز مجسٹریٹ دفتروں میں اپنی
اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے ہیں جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا سفیر سر تھامس مٹکاف
دوپہر تک کام کا اکثر حصہ ختم کر چکا ہے کوتوالی اور شاہی دربار کے خطوں کا
جواب دیا جا چکا ہے بہادر شاہ ظفر کے تازہ ترین حالات کا تجزیہ آگرہ اور
کلکتہ بھیج دیا گیا ہ دن کے ایک بجے سر مٹکاف بگھی پر سوار ہو کر لنچ کرنے
کیلئے گھر کی طرف چل پڑا ہے یہ ان سب کا روزانہ کا معمول تھا ادھر وقت لال
قلعہ کے شاہی محل میں ''صبح'' کی چہل پہل شروع ہو رہی تھی ظل الہی کے محل
میں صبح صادق کے وقت مشاعرہ ختم ہوا تھا جس کے بعد ظلِ الٰہی آخری مغل
فرمانروا بہادرشاہ ظفر اور ان کے درجنوں عمائدین اپنی خواب گاہوں کو گئے
تھے۔ اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ لال قلعہ میں ناشتے کا وقت اور
دہلی کے برطانوی حصے میں دوپہر کے لنچ کا وقت ایک ہی تھا۔ ہزاروں شہزادوں
کا بٹیربازی، مرغ بازی، کبوتر باز اور مینڈھوں کی لڑائی کا وقت بھی وہی تھا
، 1725ء کے لگ بھگ برطانیہ سے نوجوان انگریز کلکتہ، ہگلی اور مدراس کی
بندرگاہوں پر اترتے چلے گئے برسات کے موسم میں مچھر وں کی بہتات اور گندے
پانی کے باعث ملیریا سے اوسطاً دو انگریز روزانہ مرنے لگے ہیں انگریزان
دنوں بھارت کو موت کی وادی کہنے لگے اس کے باوجودایک بھی گورا بھارت کو
چھوڑکربرطانیہ واپس نہیں گیا کیونکہ ان کے نزدیک سونے کی چڑیا پر اپنا تسلط
جمانا تھا مقاصدکے حصول کے لئے قربانیاں ناگزیرتھیں اس دوران لارڈ کلائیو
پہروں گھوڑے کی پیٹھ پر سوار رہتا ،مختلف علاقوں کاوزٹ کرکے حالات کا جائزہ
لیتا،تجارتی سرگرمیوں کی معلومات حاصل کرتا،انگریزوں کے مفادات کے لئے
ملاقاتیں کرتا اس نے دل ہی دل میں ہندوستان پر تسلط قائم کرنے کے لئے ایک
مربوط سسٹم تشکیل دیدیا جس سے سونے کی چڑیا برطانوی سامراج کی ایک کالونی
میں تبدیل ہوگئی۔
یقینااﷲ کانظام کسی کیلئے نہیں بدلتا انسان جوکچھ بولتاہے بالآخراسے وہی
کاٹنا پڑتاہے یہی مکافات ِعمل ہے یہ قانون ِ فطرت ہے کسی کی محنت رائیگاں
نہیں جاتی جو جتنی محنت کریگا تو وہ اتناہی کامیاب ہوگا عیسائی،مسلم،سکھ
،ہندو یاپھر آتش پرست سب کے سب اﷲ کے سسٹم کے تابع ہیں عیسائی ورکر تھامسن
میٹکاف صبح سات بجے دفتر پہنچ جائیگا تو دن کے ایک بجے تولیہ بردار کنیزوں
سے چہرہ صاف کروانے والا، بہادر شاہ ظفر مسلمان بادشاہ ہی کیوں نہ ہو ناکام
رہے گا۔اب واضح ہوا کہ بہادر شاہ ظفر کے سارے شہزادوں کے سر قلم کر کے اس
کے سامنے کیوں پیش کئے گئے،انہیں اپنے ہی وطن میں قبر کیلئے2گز زمین کی جگہ
کیوں نہ ملی یہ کتنا بڑاالمیہ ہے آخری مغل تاجدا رکی بچی کھچی نسل کے لوگ
بھیک مانگتے پھرتے ہیں کیوں؟ آخرکیونکر وہ وقت کے ساتھ نہیں چلے انہوں نے
وقت کوضائع کیا اور پھر وقت نے انہیں زمانے کی ٹھوکروں کے حوالے کرکے ضائع
کردیا صبح تاخیر سے بیدار ہو نے والوں کے لئے یہ ایک لمحہ ٔ فکریہ ہے ۔
آپ غورکریں کہ غزوہ ٔبدر میں اﷲ نے قطاراندرقطار فرشتے نصرت کیلئے اتارے
تھے کیوں؟ اس جنگ کی حکمت ِ عملی پر تدبرکی ضرورت ہے جنگ سے پہلے ہی مسلمان
پانی کے چشموں پر قبضہ کر چکے تھے جو آسان کام نہیں تھا اور خدا کے آخری
نبی ﷺ رات بھر یا تو پالیسی بناتے رہے یا پھر سجدے میں پڑے اﷲ کے حضور دعا
کرتے رہے !
حیرت ہوتی ہے ان دانش وروں پر جو یہ کہہ کر قوم کو مزید افیون کھلا رہے ہیں
کہ پاکستان ستائیسویں رمضان کو بنا تھا کوئی اسکا بال بیکا نہیں کرسکتا کیا
سلطنتِ خدا داد پاکستان اﷲ کی تھی اور کیا سلطنت خداداد میسور(ٹیپو سلطان
کی سلطنت ) اﷲ کی نہیں تھی۔ کیا کئی براعظموں پرپھیلی سلطنت ِ عثمانیہ قائم
رہی یا بھارت میں مختلف ادوارمیں قائم ہونے والے صدیوں پرمحیط مغلیہ
،غوری،غزنوی حکومتیں کیوں قائم نہ رہ سکیں حالانکہ ان حکومتوں میں تو انصاف
کا بول بالا بھی تھا حقیقت یہ ہے جو سلطنت،شخصیت یا ادارے فطرت کے اصولوں
پر قائم نہیں رہتے انہیں کوئی معجزہ ہی بچاسکتاہے ۔ بھارت،پاکستان،بنگلہ
دیش پر ہی موقوف نہیں یہ ہر ملک اور خطے کی بات ہے آج ہم اپنے اردگردکے
ماحول کودیکھیں اور سوچیں کہ جس جس ملک کے ووٹر ذہنی غلام ہوں، پیر غنڈے
ہوں،مذہب کے ٹھیکیدار جاہل،دانشور منافق ہوں، ڈاکٹر بے ایمان ہوں، بیشتر
سیاستدان لٹیرے ، اور پولیس میں ڈاکو ہوں، کچہری بیٹھک ہو، ججز انصاف فروش
ہوں، لکھاری خوشامدی ہوں، اداکار بھانڈ ہوں، ٹی وی چینل پر مسخرے ہوں، تاجر
بے ایمان اور سود خور ہوں، دکاندار چور ہوں، عوام بے حس اور حکمران بے حس
ہوں اور جہاں تین سال کے معصوم بچوں سے پچاس سال تک کی عورتوں کا ریپ عام
ہو اور مجرموں کو سیاسی دباؤ میں آکر چھوڑ دیا جائے۔ وہاں رحمتیں کیسے نازل
ہوسکتی ہیں؟ اوریہ معاشرے کیسے پنپ سکتے ہیں وہاں بیماریاں،وبائیں،بارشوں
کی افراط،قحط اورزلزلے نہ آئیں تو پھرکیاہوگا قدرت کی وارننگ کے باوجود لوگ
ٹس سے مس نہ ہوں ان کو تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا۔
آج یہ جان کر دل دکھتاہے کہ مرکزی صوبوں حکومتوں کے دفاتر ،کاروباری مرکز
یا نیم سرکاری ادارے ، ہر جگہ لال قلعہ کی طرز زندگی کا دور دورہ ہے،، کتنے
وزیر کتنے سیکرٹری کتنے انجینئر کتنے ڈاکٹر کتنے پولیس افسر کتنے ڈی سی یا
کلرک وقت پر ڈیوٹی پر آتے ہیں؟ ہم ہڈحرام،بدمزاج،نکھٹو،رشوت خور اور
انسانیت سے عاری افسروں اور ان کے ماتحتوں کی فوج ظفرموج کے نخرے اٹھا اٹھا
کر تنگ آچکے ہیں
کیا اس قوم کے تباہ وبرباد ہونے میں کوئی شک ہے جن کے دلوں میں اپنے ہی ہم
وطنوں کے لئے صلہ رحمی نہ ہو سے دنیا کی کوئی قوم بچا سکتی ہے جس میں کسی
کو تو اس لئے مسند پر نہیں بٹھایا جاسکتا کہ جس کا راتوں کو دیر سے سونا
اور دوپہر سے پہلے بیدار ہونا معمول ہو اور پھر وہ اس پر فخر بھی کرے کیا
اس معاشرے کی اخلاقی پستی کی کوئی حد باقی ہے یہ بات پتھرپہ لکیر ہے جو بھی
کام دوپہر کو زوال کے وقت شروع کیاجائے وہ زوال ہی کی طرف جائے گا کبھی بھی
اس میں برکت اور ترقی نہیں ہو گی اور یہ مت سوچا کریں کہ میں صبح صبح اٹھ
کر کام پر جاؤں گا تو اس وقت لوگ سو رہے ہونگے میرے پاس گاہک کدھر سے آئے
گا گاہک اور رزق اﷲ رب العزت بھیجتے ہیں اور اﷲ وہاں سے رزق دینے پر قادرہے
جو انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا ورنہ ان میں لال قلعہ کے قیدیوں
میں کوئی فرق نہیں ہے۔
|